فکر و نظر

کانگریس میں احمد پٹیل کے بعد کون؟

احمد پٹیل کے انتقال کےبعد کانگریس کے پاس ایک بھی ایسارہنما نہیں ہے، جو اتحادی پارٹیوں سے یاعلاقائی طاقتوں سے بات کر سکے۔ احمد پٹیل کی اسی قابلیت کا فائدہ کانگریس اور سونیا گاندھی کو دو دہائیوں  تک ملتا رہا۔

کانگریس صدر سونیا گاندھی کے ساتھ احمد پٹیل۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

کانگریس صدر سونیا گاندھی کے ساتھ احمد پٹیل۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

احمد پٹیل چلے گئے۔ میں ان کے رابطہ میں2014 میں یو پی اے 2 سرکار چلے جانے کے بعد آیا۔ اس کی بڑی وجہ تھی کہ جب میں صحافت  میں سال2008 میں آیا، اس وقت یو پی اے 1 کی سرکار تھی اور کئی ریاستوں میں یو پی اے اور کانگریس تھی۔

اسی وجہ سے احمد پٹیل کے گھر پر ملک کےکابینہ وزیروں  سے لےکر وزرائے اعلیٰ کی لمبی قطاریں لگی رہتی تھیں۔ صحیح معنوں میں2004 سے لےکر 2014 تک احمد پٹیل نے ہی سرکار چلائی۔

کانگریس کا کوئی بھی وزیراعلیٰ یا پھر کابینہ وزیر اس بات کی فکرنہیں کرتا تھا کہ 10 جن پد (سونیا گاندھی کی رہائش)یا پھر 7 آرسی آر (وزیر اعظم کی رہائش)ان کے بارے میں کیا سوچتا ہے، لیکن ان سب کو اس بات کی فکر ضرور رہتی تھی کہ 23 نمبر (احمد پٹیل کی رہائش)ان کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔

یہاں تک کہ پرنب مکھرجی جیسے سینئررہنما بھی دبی آواز میں جاننا چاہتے تھے کہ احمد پٹیل نے کیا کہا!

کون تھے احمد پٹیل؟

کانگریس میں روایتی سیاست کے ستون تھے احمد پٹیل۔ کارکنوں سے زمینی فیڈبیک لینا، کانگریس اعلیٰ کمان کو بتانا، پھر کانگریس صدرکو اپنی رائے دینا اور سب سے اہم پارٹی کے بڑے فیصلے وہ اس طرح کرواتے تھے، جسے کانگریس کا چھوٹا کارکن بھی دل سے قبول کر لے۔

اس کےساتھ ہی روایتی سیاست کی قیادت کرتے تھے اور اس نسل کے اور آج کے نئے زمانے کے سوشل میڈیا اور لیپ ٹاپ والے رہنماؤں کے بیچ تال میل بٹھانے میں بھی احمد پٹیل ماہر تھے۔

احمد پٹیل کی سب سے زیادہ ضرورت آنے والے دنوں میں تب محسوس ہوگی، جب کانگریس صدر سونیا گاندھی کو شرد پوار، ممتا بنرجی، مایاوتی، اکھلیش یادو، ہیمنت سورین، لالو یادو، اسٹالن اور آسام کے آنے والے اسمبلی انتخابات کے لیے بدرالدین اجمل جیسےرہنماؤں سے بات کرنے کی ضرورت پڑےگی۔

احمد پٹیل کے علاوہ کانگریس کے پاس ایک بھی ایسارہنما نہیں ہے، جواتحادی پارٹیوں سے یا علاقائی طاقتوں سے بات کر سکے۔ احمد پٹیل کی اسی قابلیت کا فائدہ کانگریس اور سونیا گاندھی کو دو دہائیوں تک ملتا رہا۔

احمد پٹیل ایک باشعور سیاستداں تھے، پھر چاہے نرسمہا راؤ کے ساتھ تعلقات کی بات ہو یا پھر کانگریس کے صدر رہے سیتارام کیسری ہوں ، دونوں ہی اہم لوگوں سے احمد پٹیل کے اچھے اور ذاتی تعلقات رہے، لیکن جب سونیا گاندھی پارٹی کی کمان سنبھالنے کے لیے راضی ہوئیں تو گاندھی فیملی کے قریبی رہے احمد پٹیل نے ایک منٹ بھی نہیں لگایا اور سیتارام کیسری کا ساتھ چھوڑ دیا۔

احمد پٹیل سیتارام کیسری کے اتنے نزدیکی تھےکہ جب کیسری نے صدر ہونے پر پارٹی کے خازن کاعہدہ چھوڑا تو احمد پٹیل کو اس عہدے سے نوازا گیا۔

اس کے علاوہ سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ سے بھی ان کےخوشگوار تعلقات تھے۔راؤ صاحب اور سابق وزیراعظم  منموہن سنگھ دونوں ہی چاہتے تھے کہ احمد پٹیل ان کی کابینہ میں شامل ہوں، لیکن احمد پٹیل نے پارٹی میں رہ کر ہی مؤثر ڈھنگ سے سرکار میں فیصلے لینے میں رول نبھایا اور پردے کے پیچھے ہی رہے۔

بابری مسجدانہدام کے بعداحمد پٹیل نے کانگریس کے جنرل سکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، لیکن تب کانگریس صدر نرسمہا راؤ نے اس کو کبھی منظور نہیں کیا۔

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اٹل بہاری واجپائی کی سرکار گرنے کے بعد ارجن سنگھ، ماکھن لال، نٹور سنگھ اور وی جارج کے گروپ نے سونیا گاندھی سے میڈیا میں سرکار بنانے کے لیے دعویٰ کروا دیا اور سونیا گاندھی نے پریس میں کہا، ‘آئی ہیو 272’۔

حالانکہ نمبر پورے ہوئے نہیں۔ سونیا گاندھی سیاست  میں نوآموز تھیں اور ایسی بڑی ناکامیابی سے کانگریس اور سونیا گاندھی کی قیادت  کو نقصان پہنچا۔ اس وقت احمد پٹیل نے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ سے سونیا گاندھی کی قیادت  کو مدد کے لیے ہاتھ دیا۔

اس کے بعد سونیا گاندھی کو کانگریس پر قابض رہنے کے لیےمعاونین کی ضرورت پڑی تب انہوں نے احمد پٹیل کو سیاسی  صلاح کارمقررکیا۔ 20 سال تک احمد ‘بھائی’ پارٹی میں وہ مرہم تھے، جو ہر دکھی اور ناراض کارکن اور رہنما کو کچھ دیر کے لیے ہی سہی، لیکن راحت ضرور پہنچا دیتے تھے۔

گھٹتا گیاقد

سال 2014 کے انتخاب میں کانگریس 44 سیٹوں پر سمٹ گئی تھی۔ راہل گاندھی اور ان کی بیرون ملک سے پڑھی ہوئی ٹیم کا کانگریس میں اثر بڑھنے لگا تھا۔سونیا گاندھی خود کو سمیٹ رہی تھیں، پس پردہ جا رہی تھیں اور کمان دھیرے دھیرے راہل گاندھی کو سونپ رہی تھیں۔

اس دوران احمد پٹیل نے بھی خود کو نظراندازکیے جانے سے ناراض  ہوکر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو سونیا گاندھی کے صلاح کار کی حیثیت تک ہی محدود کر لیا تھا۔

اس وقت کئی بار احمد پٹیل بجھے من سے کہتے بھی تھے، اب من کرتا ہے کہ سیاست سے ریٹائر ہوکر واپس گجرات جاکر گاؤں میں رہوں۔ لیکن وہ وقت آیا جب مرکز میں سرکار جانے کے بعد پارٹی میں وسائل  کی کمی ہونے لگی اور کئی ریاستوں کے انتخاب اوراسمبلی میں پارٹی کی انتخابی مہم کمزور پڑنے لگی۔

تب سونیا گاندھی نے راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کی رضامندی سے احمد پٹیل کو دوبارہ خازن بننے کے لیے راضی کر لیا۔ حالانکہ احمد پٹیل نے کہا بھی کہ وہ تھک چکے ہیں اور اس ذمہ داری کو ڈھنگ سے نبھا نہیں پائیں گے، لیکن سونیا گاندھی ان کی قابلیت کو سمجھتے ہوئے نہیں مانیں۔

پٹیل سونیا گاندھی کی بات کے آگے مجبور ہو گئے اور پھر راہل گاندھی کے صدروالی مدت کار سے لےکر اپنی آخری  سانس تک کانگریس کے خازن بنے رہے۔دراصل سونیا گاندھی کی کامیاب مدت کار اور راہل گاندھی کےصدر کے طور پر ناکام مدت کار کاموازنہ کیا جائے تو سونیا گاندھی کی کامیابی  کا بڑا سہرا احمد پٹیل کو جاتا ہے۔

راہل گاندھی کوئی‘احمد بھائی’ نہیں بنا پائے۔سونیا گاندھی کے صلاح کار احمد پٹیل گاندھی پریوار کے قریب  رہے جناردن دویدی، امبیکا سونی، ارجن سنگھ، وی جارج، نٹور سنگھ وغیرہ رہنماؤں کے ساتھ مل کر سونیا گاندھی تک پہنچنے کی سیڑھی بن گئے۔

احمد پٹیل کے بعد کون؟

پانچ دہائی کےسیاسی تجربات جس میں چار دہائی رکن پارلیامان  رہے، اتنے لمبے سیاسی تجربے کا کوئی متبادل نہیں ہے، لیکن 2014 کے بعد کانگریس نے کچھ رہنماؤں میں ہی خرچ کیا ہے۔

حالانکہ راہل گاندھی کئی بیٹھکوں میں یہ بات بول چکے ہیں کہ جو غلطی ان کی ماں نے کی تھی وہ وہ نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا کوئی پرسنل سکریٹری  نہیں ہوگا، جس سے ساری پاور ایک ہی شخص کے پاس رہے، بلکہ رہنماؤں کا ایک گروپ  بڑے فیصلے کرےگا۔

باوجود اس کے کیرل کے  کانگریس کے جنرل سکریٹری  کے سی وینوگوپال، ہریانہ کے قداور رہنما اور میڈیا انچارج رندیپ سنگھ سرجےوالا اور گجرات کے مؤثر راجیو سا تو جو کہ مہاراشٹر سے آتے ہیں، یہ ایسے رہنما ہیں جو راہل گاندھی کے بہت قریبی مانے جاتے ہے یا ان کے صلاح کار ہیں۔

اگست میں جب سونیا گاندھی کے صدر کے طورپر دوسری مدت  کار کا ایک سال پورا ہوا تو سونیا گاندھی کے دستخط سے راہل گاندھی کے لوگوں کو پارٹی  میں اہم  ذمہ داریاں دی گئیں۔یو پی اے سرکار کےوقت زیادہ ترنوجوان رہنما راہل گاندھی کو آر جی (RG)کہہ کرمخاطب کرتے تھے، لیکن آج کی کانگریس میں راہل گاندھی نے آر جی کہنے والے نوجوان رہنماؤں سے دوری بنا لی ہے۔

کے سی وینوگوپال جنوبی ہندوستان کے کیرل ریاست سے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی پریشانی  ہے کہ وہ ہندی نہیں بول پاتے، جس سے شمالی ہندوستان کے کانگریس کے کارکن اپنی بات کہنے میں راحت محسوس  نہیں کرتے ہیں۔

دوسری بڑی پریشانی ہے کہ جس طریقے سے جنرل سکریٹری  کے طور پر پہلے کے رہنما خاص طور پر اشوک گہلوت اپنے دروازے کارکنوں کے لیے کھلے رکھتے تھے اور ملک  کے کسی بھی حصہ سے آئے کانگریس کے کارکن کی بات سنتے تھے، ان سے ملتے تھے۔ یہ کے سی وینوگوپال نہیں کر پا رہے ہیں۔

ایک اورنام کانگریس کے نیشنل میڈیاانچارج اور کرناٹک کانگریس کے انچارج جنرل سکریٹری رندیپ سنگھ سرجےوالا کا ہے۔انتخابی مینجمنٹ، میڈیا،وسائل، پارٹی کا اہم کام ایک ہی شخص کر پائے، یہ مشکل لگتا ہے۔ لیکن پھر بھی اس کام کے لیے کسی پر بھروسہ کرنا ہو تو اس میں سرجےوالا کا نام اوپر آتا ہے۔

زبان  پر عبور، کارکنوں سے سلیقے سے ملنا، کانگریس کے رہنماؤں میں وقار کے ساتھ اپنی بات رکھنا اور پرانی نسل کے رہنماؤں میں اور نوجوان قیادت میں تال میل قائم رکھ سکے، یہ سیاسی ہنران میں ہے۔

اس کی ایک مثال ان کے کے ذریعے قومی میڈیا مینجمنٹ میں دکھتی ہے، جہاں پر چدمبرم، آنند شرما، غلام نبی آزاد، کپل سبل، ابھیشیک منو سندھوی ہے تو وہیں پر منیش تیواری، اجے ماکن، آرپی این سنگھ، جےویر شیرگل، پون کھیڑاوغیرہ ہیں۔ انہوں نے ان سب کو اپنے میڈیا مینجمنٹ  میں شامل کر رکھا ہے۔

اسی کڑی میں ایک نام راجیو سا تو کا بھی ہے۔ ان کے نام کا سورج راہل گاندھی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے ساتھ ہی شروع ہوا۔ راجیو سا تو کو اسی سال مہاراشٹر سے راجیہ سبھا کاممبر بنایا۔ جبکہ ان سے زیادہ سینئر اور تجربہ کاررہنما مکل واسنک، اویناش پانڈے اور رجنی پاٹل جیسے رہنما بھی اس کے امیدوار تھے۔

راجیو سا تو کی اہمیت  اس سے بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ راہل گاندھی نے انہیں نریندر مودی اور امت شاہ کی آبائی ریاست گجرات کا انچارج بنایا ہے۔

راجیو طلبہ تحریک، یوتھ کانگریس جس کے وہ قومی صدربھی رہے سے سیاست سیکھتے ہوئے کانگریس میں یہاں تک پہنچے۔ ان کا ایک مثبت  پہلو یہ بھی ہے کہ میڈیا سے دور رہ کر سیاسی بساط کی چالیں چلنا بخوبی جانتے ہیں۔ یہ تینوں ہی مل کر احمد پٹیل کی جگہ راہل گاندھی کے سیاسی  صلاح کار کی جگہ لے سکتے ہیں، ایسا سیاسی مبصرین کا ماننا ہے۔

خازن کے دعویدار

احمد پٹیل کے انتقال کے بعد یہ سوال اہم  ہو گیا ہے کانگریس کے خزانے کی چابی دےکر خازن کسے بنایا جائے؟ گاندھی پریوار کے نزدیکی سابق خارجہ سکریٹری ایس کے سنگھ کے بیٹے کنشک سنگھ، جو آج گاندھی پریوار کے تمام قانونی مسئلے دیکھتے ہیں۔

یاقبل میں راہل گاندھی کے نزدیکی دوست رہے مرلی دیوڑا کے بیٹے ملند دیوڑا بھی خازن ہو سکتے ہیں، لیکن پچھلے کچھ وقت سے ملند دیوڑا اور راہل گاندھی کے بیچ کافی دوریاں ہو گئی ہیں۔

راجستھان کے جتیندر سنگھ انچارج جنرل سکریٹری آسام ہیں۔وہ بھی خازن  کی کرسی پر نظر گڑائے ہیں۔ راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت، سشیل کمار شندے اور پون بنسل گاندھی پریوار کے معتمد رہے ہیں۔ اس کےعلاوہ  اس عہدے کے لیے سینئر رہنماؤں کے نام پر بھی گاندھی پریوار غور کر سکتا ہے۔

(مضمون نگارآزادصحافی ہیں۔)