فکر و نظر

عشق پر بی جے پی کی شعبدہ بازی

ایک طرف ہندوستانی آئین بالغ شہریوں  کو اپنا شریک حیات  منتخب کرنے کااختیار دیتا ہے، مذہب چننے کی آزادی  دیتا ہے، دوسری طرف بی جے پی مقتدرہ حکومتیں آئین کی بنیادی قدروں کے برعکس  قانون بنا رہی ہیں۔

(علامتی  تصویر، فوٹو: رائٹرس)

(علامتی  تصویر، فوٹو: رائٹرس)

ملک میں بی جے پی کی ریاستی سرکاریں لو جہاد کے خلاف قانون بنانے جا رہی ہیں، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں ایسے قانون پاس بھی کر دیے گیے ہیں اور ہریانہ کی بی جے پی قیادت  والی منوہر لال کھٹر سرکار بھی اس سمت  میں بڑھ رہی ہے۔

بی جے پی کی مختلف ریاستی سرکاروں کے اس سمت میں بڑھتے قدم کی تمام دانشور طبقوں اوراپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ شادی ایک ذاتی معاملہ ہے اور اس کو روکنے کے لیے قانون لانا پوری طرح سے غیرآئینی  اورشخصی آزادی پر قدغن لگانے جیسا ہے۔

ان لوگوں کا الزام ہے کہ ملک  کو تقسیم کرنے اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے مقصد کے ساتھ بی جے پی نے ‘لو جہاد’کی اصطلاح بنائی ہے۔

یہ خدشات بے مطلب اور بے بنیاد نہیں ہیں۔ انہوں نے وہی کہا ہے جو ہندوستانی آئین  کی روح   ہے۔ ایک طرف تو ہندوستانی آئین بالغ شہریوں کو اپنا شریک حیات چننے کا اختیار دیتا ہے، مذہب  چننے کی آزادی  دیتا ہے، دوسری جانب  بی جے پی مقتدرہ سرکاریں آئین کی بنیادی قدروں  کے برعکس  قانون بنا رہی ہیں۔

بی جے پی کا یہ قدم آئین کے خلاف اورخالصتاًفرقہ وارانہ سیاسی اسٹنٹ ہے، جس کےذریعے سے وہ ہندو ووٹوں کا پولرائزیشن چاہتی ہے۔ اس کے نتائج مستقبل میں کافی خطرناک ہو سکتے ہیں۔

لو جہاد کیا ہے؟ اسے سمجھنا ہوگا۔ لو جہاد مبینہ طور پرمسلمان مردوں کے غیر مسلم عورتوں کو اسلام میں تبدیلی مذہب کے مقصد سے عشق کی شعبدہ بازی یا ڈھونگ کو کہا گیا ہے، لیکن لو جہاد کی کوئی سرکاری یاقانونی تعریف نہیں ہے۔

اس لفظ  کا استعمال  پہلی بار 2009 میں کیرل اور کرناٹک میں کیتھولک عیسائی تنظیموں کی جانب  سے مسلمانوں  کے خلاف کیا گیا، تبھی  سے یہ لفظ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔کیرل کےڈائریکٹر جنرل پولیس جیکب پنوج نے نومبر 2009 میں کہا تھا کہ ایسی  کوئی تنظیم نہیں ہے، جس کے ممبر کیرل میں لڑکیوں کو مسلم بنانے کے ارادے سے پیار کرتے تھے۔

کیرل ہائی کورٹ کے جسٹس کے ٹی شنکرن نےدسمبر 2009 میں پنوج کی رپورٹ کو نامنظور کرتے ہوئے نتیجہ نکالا کہ جبراًتبدیلی مذہب کےاشارے ہیں۔ عدالت نے مبینہ لو جہاد معاملوں میں دو ملزمین کی ضمانت عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چارسالوں  میں اس طرح کے تین سے چار ہزار معاملے سامنے آئے ہیں۔

کرناٹک سرکار نے 2010 میں کہا تھا کہ حالانکہ کئی خواتین نے اسلام کو اپنایا ہے، لیکن ایسا کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بند کوشش کی گئی ہویا لو جہاد رہا ہو، ایسےشواہد بالکل نہیں ہیں۔اتر پردیش میں لو جہاد کے بہت سارے مدعے وقت—وقت پر اٹھائے گئے، لیکن غیر مذہبی فریقوں کے بیچ شادی کامقصدمکمل طور پر تبدیلی مذہب ہو، ایسے ک پختہ ثبوت سامنے نہیں آئے۔

جانچ ایجنسیوں نے بھی مانا کہ کچھ مردوں کے مکروفریب کے چھٹ پٹ معاملے تو تھے، لیکن بڑی  سازش کے ثبوت نہیں ملے۔ سیاسی پروپیگنڈہ  کو اس میں جوڑکر دیکھنا صحیح تجزیہ  کرنا نہیں ہوگا۔سال2017 میں کیرل ہائی کورٹ  نے اپنے ایک فیصلے میں لو جہادکی بنیاد پر ایک مسلم مردسے ہندو خواتین کی شادی  کو منسوخ قراردیا۔

تب مسلمان شوہر کی جانب  سے ہندوستان  کی سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی گئی تھی، جہاں عدالت نے لو جہاد کے پیٹرن کے قیام کے لیےتمام یکساں  معاملوں کی جانچ کرنے کے لیے این آئی اے کو ہدایت  دی تھی، جس کی ابھی کوئی رپورٹ شائع نہیں ہوئی ہے۔

یہ تصور کئی لوگوں کے لیےسیاسی تنازعہ  اور سماجی تشویش کاباعث بنا ہوا ہے۔ حالانکہ 2014 تک کسی منظم  لو جہاد کے خیال کو ہندوستان میں مین اسٹریم میں بڑے پیمانے پر سازش کے طورپر نہیں مانا گیا تھا۔اگر اس معاملے کو سیاسی نفع—نقصان سے آزاد رکھا جائے تو یہ مان لینا چاہیے کہ لو جہاد جیسا کوئی تصور وجودمیں نہیں ہے اور نہ ہی یہ موڈس آپرینڈی(طرزعمل)ہندوستان جیسےملک میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

جہاں تک لو جہاد پر اسپیشل قانون بنانے کی بات ہے تو یہ مکمل طور پر ایک سیاسی  پروپیگنڈہ یاسازش  کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ ملک میں لو جہاد کے مصدقہ اعدادوشمارنہیں ہیں اور نہ ہی کوئی تعریف  ہے۔

وہیں اگر کوئی شخص غلط حلف نامہ پیش کرتا ہے، عمر ، مذہب چھپاتا ہے، شادی شدہ ہونے کی بات چھپاکر شادی کرتا ہے، اغوا کرتا ہے، بھروسے کی مجرمانہ توہین کرتا ہے تو یہ جرم کے خانے میں آتا ہے اور اس کے لیے آئی پی سی کی مختلف دفعات  میں سزا کے کافی اہتمام ہیں۔

دو مذہب یا کاسٹ یاخاص طبقہ کے ماننے والے بالغ جوڑےاگر بنا مذہب بدلے شادی کرنا چاہتے ہیں تو قانونی طور پر وہ اسپیشل میر ج ایکٹ 1954 کے تحت شادی کر سکتے ہیں۔اس کے لیے انہیں گھر کی رضامندی کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ وہ اپنے—اپنے مذہب کے ساتھ میاں بیوی  کے طور پر زندگی بسر کر سکتے ہیں۔

ایک تصور یہ بھی ہے سماج کو بین کمیونٹی شادی کے ساتھ الگ الگ مذاہب کے بیچ کی شادی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، جس سے سماج میں کاسٹ سسٹم اور مذہبی تعصب کمزور ہوگا اورانسان  کا ایک دوسرے کے کاسٹ اور مذہب کے لیے احترام بڑھےگا۔

ویسے بھی دیکھا جائے تو یہ کاسٹ  اور مذہب کی بیڑیاں متوسط طبقہ اور نچلے متوسط طبقہ  کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ امیر گھرانوں کے لڑکے—لڑکیاں کسی مذہب، کاسٹ اور سماج میں شادی  کریں تو بھی عام طور پرکوئی مدعا نہیں بنتا۔

یا غریب طبقہ  ایسا کہتا ہے تو بھی کوئی خصوصی شادی کی وجہ نہیں بنتی۔ متوسط طبقہ یا نچلے متوسط طبقہ کے لیے کئی سماجی معیاربنے ہوئے ہیں۔ اس طرح کا غیر واجب سیاسی  اورسماجی ڈسکورس وہیں سے شروع ہوتا ہے۔

ہندوستان  پہلے سے ہی مذہبی عدم رواداری  کے دور سے گزر رہا ہے۔اگر اس بے بنیاد مدعے کو ہوا دی گئی تو حالات اور زیادہ سنگین ہوں گے۔بے شک بی جے پی کو اس کا سیاسی فائدہ مل سکتا ہے، لیکن اخوت ، امن وسکون اورہم آہنگی  کو بہت نقصان ہوگا۔

(مضمون نگار راجستھان ہائی کورٹ میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ہیں۔)