فکر و نظر

’لو جہاد‘ کی تاریخ: کیسے ایک خطرناک اور فرضی خیال کو سنگھ پریوار نے آگے بڑھایا

کرناٹک میں‘مورل پولیس’کا کام کرنے سے لےکر اتر پردیش کے مظفرنگر میں فسادات بھڑ کانے تک‘لو جہاد’کا راگ چھیڑ کر ہندو رائٹ ونگ تنظیموں نے اپنے کئی مقاصد کی تکمیل کی ہے۔

‘لو جہاد’کے خلاف عہد لیتے وشو ہندو مہاسنگھ کے ممبر۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

‘لو جہاد’کے خلاف عہد لیتے وشو ہندو مہاسنگھ کے ممبر۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

ہندوستان میں‘لو جہاد’کا پریت ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔پچھلی بار 2013 میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسے پورے جتن سے ایک سیاسی مدعے کے طور پر اٹھایا تھا، تب اس کا نتیجہ اتر پردیش کے مظفرنگر میں فسادات میں 62 لوگوں کی موت اور اس کے بعد 50000 سے زیادہ مسلمانوں کی نقل مکانی  کے طور پر نکلا تھا۔

پورے مغربی اتر پردیش کی مذہبی بنیاد پر پولرائزیشن کرکے رکھ دینےوالے فسادات سے پہلے کےمہینوں میں ریاست کی بی جے پی اکائی نے تجربہ کے طور پر‘لو جہاد’مہم چلائی اور خطے کی  سماجی ہم آہنگی کو خراب کر دیا۔

سابق وزیر اعظم چرن سنگھ کی قیادت  میں1970کی دہائی سے ایک کسان کمیونٹی کے طور پر ساتھ آنے والے جاٹ اور مسلمان ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے۔ نتیجے کے طور پر سامنے آیا سماجی انتشارآج بھی بھگوا پارٹی کو سیاسی فائدہ پہنچا رہا ہے۔

یہ وہ وقت تھا، جب گجرات کے باہر کوئی خاص پہچان نہ رکھنے والے امت شاہ کو پارٹی کی جانب سے اتر پردیش انتخاب  کا انچارج  مقرر کیا گیا۔ ان کی قیادت سے توانائی حاصل کرکےبی جے پی کارکن مبینہ‘لو جہاد’کے خلاف مہم چلانے کے لیےمغربی  اتر پردیش کے گاؤں گاؤں گئے۔

‘لو جہاد’کا استعمال سنگھ پریوارکی جانب سے پہلے سے ہی ساحلی کرناٹک میں، جو تاریخی طور پر ہندوتوا کی تجربہ گاہ رہا ہے، ہندوؤں اور مسلمانوں کا پولرائزیشن کرنے کے لیے کیا جا رہا تھا۔

بی جے پی کارکنوں اور سنگھ پریوار سے وابستہ دیگر لوگوں نے جاٹوں اور مسلمانوں کے بیچ عدم اعتماد کا ماحول پیدا کیا۔ وہ  گاؤں میں گئے اور انہوں نے جاٹ کمیونٹی کے بڑےبزرگوں کے ساتھ بیٹھکیں کیں۔ ان کا مقصد بوڑھے لوگوں کی قدامت پسند سوچ اور کسی بھی طرح کے محبت کے رشتے کو لےکر ان کے روایتی مخالفت  کااستعمال کرنا تھا۔

سوشل میڈیاپرنوتشکیل اور بے حدچھوٹے سسٹم سے لیس ہوکر ان کارکنوں نے یہ دعویٰ کیا کہ کچھ مدرسوں کو ہندو عورتوں کا مذہب تبدیل کروانے کے لیےدہشت گرد تنظیموں اور اسلامی ممالک سے پیسہ مل رہا ہے۔انہوں نے اس کہانی کو اس طرح سے پیش کیا کہ یہ مدرسے ‘اچھے دکھنے والے نوجوان مسلمانوں’کی پہچان کرتے ہیں اور انہیں ہندو عورتوں کا پیچھا کرنے کی ٹریننگ دیتے ہیں۔

ہندوتووادی کارکنوں کے مطابق، یہ مدرسے ان جوان مسلمان لڑکوں کو جدید طریقے سے کپڑے پہننے کی ٹریننگ دیتے ہیں اور انہیں موبائل فون کی دکانیں کھولنے اور موٹربائیک خریدنے کے لیے پیسے دیتے ہیں،جس کا استعمال وہ ہندو لڑکیوں کو پھنسانے کےلیے کرتے ہیں۔

اس کے بعد وہاٹس ایپ کے ذریعے کئی فرضی ویڈیوفارورڈ کرکے اس بے تکے خیال  کا پروپیگنڈہ  کھڑا کیا گیا۔اس مہم کا اثر ایسا تھا کہ 2012 کےآخرمیں مغربی اتر پردیش کی ایک کھاپ پنچایت نے خواتین کے موبائل فون رکھنے پر ہی مکمل پابندی لگا دی۔

آخر سنگھ پریوارکی جانب سےپھیلائے گئے افواہوں کے مطابق مسلم نوجوانوں کے ذریعے چلائے جا رہے موبائل فون کی دکانیں ہی ہندو خواتین  اور مسلمان  مردکے پہلی بار ملنے کی جگہیں تھیں۔اس کے بعد مغربی اتر پردیش اور ہریانہ کےآپس میں ملے ہوئے جاٹ اکثریتی  علاقوں کی کئی اورکھاپ پنچایتوں نے اس فیصلے کی حمایت کی۔

اس طرح سے 2013 کے مظفرنگر فرقہ وارانہ فسادات سے پہلے عدم اعتماد کا بیج بو دیا گیا تھا۔

ایسے میں ایک موٹر سائیکل کو لےکر ہندو اور مسلم مردوں کے بیچ ہوئے ایک چھوٹے سے جھگڑے کو، جس میں ایک مسلمان  کی جان چلی گئی تھی، ایک بڑے پیمانے کے دنگے کا روپ لینے میں کوئی وقت نہیں لگا، جس نے اس علاقے کو کئی دنوں تک آگ میں جھونکے رکھا۔

کیسے بنا ‘لو جہاد’فساد پھیلانے کا مؤثر ہتھیار

کوال گاؤں میں اس جھگڑے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ایک مسلم بھیڑ نے دو جاٹوں کی پیٹ پیٹ کر جان لے لی، جو ان کے مطابق مسلمان کےقتل  کے لیے ذمہ دار تھے۔لیکن، جیسے جیسے دن گزرتا گیا، سنگھ پریوار نے ایک پرانا ویڈیو پھیلانا شروع کر دیا، جس میں طالبان کے ممبروں  کو ایک شخص کی پیٹ پیٹ کر جان لیتےہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔

دعویٰ کیا گیا کہ یہ کوال گاؤں میں لنچنگ کے واقعہ  کا ویڈیو ہے۔اس فرضی ویڈیو کو اس افواہ کے ساتھ پھیلایا گیا کہ مسلمانوں کو اپنی بہن کا پیچھا کرنے سے روکنے پر دو جاٹوں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا۔

فرقہ وارانہ کشیدگی کو بھڑ کانے کے لیے سنگھ پریوار نے مارے گئے دو جاٹ نوجوانوں کےآخری رسومات  کے لیے بڑی ریلی کاانعقاد کیا۔ آخری رسومات سے لوٹتے ہوئے ٹریکٹر اور موٹرسائیکلوں پر سوار بھیڑ کوال گاؤں کی مسلمان  بستیوں میں گھس گئی۔

انہوں نے مسلمانوں کے گھروں اوردکانوں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ پاٹ کی اور علاقے کی مسجدوں کو جلا ڈالا۔ اس دوران وہ-جاؤ پاکستان ورنہ قبرستان، ہندو ایکتا زندہ باد اور ایک کے بدلے ایک سو کے نعرے لگاتے رہے۔

یہ منصوبہ  اب بھی نامکمل تھا۔ جیسے جیسے فرضی ویڈیو کو چاروں طرف پھیلایا جا رہا تھا، بی جے پی کی لو جہاد’مہم کے کافی اثر  میں آ چکے کچھ جاٹ رہنماؤں نے ایک مہاپنچایت یعنی جاٹ کمیونٹی کے ایک عام اجلاس کی مانگ کی، جس کا طے شدہ  ایجنڈہ ‘حملہ آور مسلمانوں سے جاٹ کے وقارکی حفاظت’کرنا تھا۔

تاریخی  طور پر ایسی مہاپنچایتوں میں مسلمانوں کی بھی تھوڑی بہت نمائندگی ہوا کرتی تھی، لیکن اب کی بار ایسا نہیں تھا۔کوال تشدد کے بعد بلائی گئی مہاپنچایت میں مؤثر بھارتیہ کسان یونین کے رہنما نریش اور راکیش ٹکیت کے ساتھ بی جے پی کے حکم سنگھ، سنگیت سوم، سریش رانا جیسے کئی اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔

انہوں نے مل کر‘اپنی عورتوں’کی عزت  بچانے کی اپیل کی۔اس مہاپنچایت کو بہنوں ، بیٹی بچاؤ مہاسمیلن کا نام دیا گیا۔جیساآخری رسومات کے جلوس کے ساتھ ہوا تھا، مہاسمیلن میں شامل ہوئے لوگوں نے واپس لوٹتے وقت مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائی کی۔

مسلم رہنماؤں نےاس تشدد کےجواب میں اپنی اپنی پنچایتیں کیں۔ اگلے کچھ دنوں میں فرقہ وارانہ تشدددھیرے دھیرے مظفرنگر اور پاس کے اضلاع میں پھیل گیا جسےاس وقت کی سماجوادی پارٹی کی قیادت  والی ریاستی سرکار روکنے میں بری طرح سے ناکام رہی۔

وشو ہندو پریشدرہنما اشوک سنگھل نے تب اس تشدد کو جائزٹھہرایا تھا ‘جب سماج کے لیے اتر پردیش کے دیہی علاقوں میں لو جہادیوں کے ذریعےہندو عورتوں اور لڑکیوں کی عزت آبرو خراب کرنے کو برداشت کر پانا ممکن نہیں رہ گیا، تب بہنوں ، بیٹی بچاؤ مہاپنچایت کے طور پر حالات کو ٹھیک کرنے کی مہم وجود میں آئی۔’

سیاسی نتائج

‘لو جہاد’مہم کا نتیجہ ہندوستان کی سب سے بڑی تبدیلی آبادی میں سے ایک کے طور پر سامنے آیا۔

اس وقت فرنٹ لائن میگزین میں کام کرتے ہوئے جب میں نے مغربی اتر پردیش کے فساد متاثرہ  کئی گاؤں کا دورہ کیا، تب سماجی اقتصادی ڈھانچے میں تبدیلی کو صاف دیکھا جا سکتا تھا۔

سال2013 میں مظفرنگر کے ایک فساد متاثرہ علاقے  میں تعینات پولیس۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

سال2013 میں مظفرنگر کے ایک فساد متاثرہ علاقے  میں تعینات پولیس۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

ہندواکثریتی  گاؤں میں، مسلمان اپنے گھروں اورملکیت کو چھوڑکر بھاگ گئے تھے اور کہیں اور جاکر بس گئے تھے۔ ایسے ہی، زیادہ تر مسلم اکثریتی گاؤں میں، حالانکہ ان کی تعداد کم تھی، ہندوؤں کی ایک بڑی آبادی بھاگ گئی تھی۔

کوال اور اس جیسے کئی اور گاؤں میں جبکہ ہزاروں مسلمانوں کو پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہونا پڑا تھا، جاٹوں اور سینیوں نے غیرقانونی ڈھنگ سے تمام مسلمانوں کی زمینوں اور گھروں پر قبضہ کر لیا تھا۔پولرائزیشن کچھ ایسا تھا کہ 2014 کے پارلیامانی انتخاب میں بی جے پی نے مذہبی بنیادپررائے دہندگان کو کامیابی سے بانٹ کرمغربی اتر پردیش کی تمام سیٹیں جیت لیں، جہاں پہلے اس کی موجودگی صفر تھی۔

چرن سنگھ کے بیٹے اجیت سنگھ کی قیادت والے راشٹریہ لوک دل کا انتخابی نقشے سے نام ونشان مٹ گیا، جبکہ یہ علاقہ ان کا گڑھ مانا جاتا تھا۔

آر ایس ایس حمایتی مہم

ٹھیک اسی وقت جب مظفرنگر فسادات کی عبارت لکھی جا رہی تھی، ستمبر، 2013 میں آرایس ایس نے کئی صحافیوں کو ایک عام سے دکھنے والے عنوان ‘کچھ حقائق: مسلم مرد/ہندوعورت’ والا ایک ای میل بھیجا۔اس ای میل میں73 نامی لوگوں کی فہرست بنائی گئی تھی، جو مسلم تھے اورجنہوں نے ہندو عورت سے شادی  کی تھی۔ لیکن اس میں کہیں بھی‘لو جہاد’کا کوئی ذکر نہیں تھا۔

اس فہرست میں فلمساز کے آصف، مظفر علی، سپر اسٹار شاہ رخ خان،عامر خان، ہندستانی کلاسیکل آرٹسٹ استاد علی اکبر خان اور استاد ولایت خان کے نام تھے، جنہوں نے ہندو عورتوں سے شادی کی ہیں۔اس ای میل میں کہا گیا تھا، ‘ایک مہاراشٹرین براہمن ڈاکٹر/ماڈل آدیتی گووترکر نے ڈاکٹر مفضل لکڑاوالا سے شادی کی۔ ان کی ایک بیٹی کیارا اور ایک بیٹاذہان ہیں۔ گووترکر نے شادی کے بعد کے اپنے نام سارا مفضل لکڑاوالا کے نام سے مسز انڈیا مقابلہ میں حصہ لیا اور اس کی فاتح رہیں۔ وہ دونوں اب الگ ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر مفضل نے بعد میں میجر جنرل ٹی کے کول کی بیٹی پرینکا سے شادی کر لی۔’

اس جانب صاف اشارہ کرتے ہوئے کہ مسلم ایک سے زیادہ بار شادی کر سکتے ہیں، اس میں آگے کہا گیا، ‘کلاسیکل سنگر علی اکبر خان نے کئی شادیاں کیں۔ ان کی ایک بیوی راج دلاری دیوی تھیں، جو خود ایک سنگر تھیں۔ ان کی بیٹی انیسہ ٹی وی پروڈیوسر راجیو چودھری کے ساتھ شادی کرچکی ہیں۔حیران کن طور پر علی اکبرخان اور ان کی مسلم بیوی زبیدہ  نے اپنے بیٹوں کو ہندو نام دیا: آشیش، دھیانیش اور پرنیش۔ ان میں سے آشیش نے خود کو ہندواعلان کیا اور اپنی مسلم بیوی فیروزہ دہلوی سے الگ ہو گئے۔ آشیش کے بیٹے کا نام فراز اور بیٹی کا نام نصرت ہے۔ دھیانیش کی بیٹی سہانا ایک ہندو (شری گپتا)سے شادی کرچکی ہیں۔ دھیانیش کے بیٹے کا نام شیراز خان ہے۔’

اس فہرست میں آگے کہا گیا، ‘سنگر سنیدھی چوہان نے 18 سال کی عمر میں کوریوگرافر احمد خان کے بھائی بابی خان کے ساتھ بھاگ کر شادی کی۔ ان کے گھروالوں نے اس شادی کو کبھی بھی قبول نہیں کیا اور ان سے رشتہ توڑ لینے کی دھمکی دی۔ ایک سال بعد دونوں الگ ہو گئے اور سنیدھی لوٹ کر اپنے گھروالوں کے پاس آ گئیں۔ وہ اب ایک ہندو سے شادی کرچکی ہیں۔’

اسی طرح کی باتیں آگے کہی گئی تھیں۔

کہاں سے پیدا ہوایہ خیال

سنگھ پریوار نے تب سے وقت وقت پر اپنے فائدے کے لیے لو جہاد مہم کا اسٹریٹجک طریقے سے استعمال کیا ہے۔ حالانکہ، ایک سیاسی تصور کے طور پر یہ خیال پہلے پہل ساحلی کرناٹک کے جنوبی کنڑا ضلع اور شمالی کیرل کے کچھ حصوں میں ایک رائٹ ونگ تنظیم  ہندو جن جاگرتی سمیتی کی مہم میں سامنے آیا۔

ہندو جن جاگرتی سمیتی حال کے دنوں تک کھل کر خود کو سناتن ادارے سے جوڑتی تھی، جو 2009 گوا بم دھماکے جیسے کئی دہشت گردانہ معاملوں میں نامزد ہے اور کمیونسٹ رہنماگووند پنسارے، سماجی  کارکن نریندر دابھولکر اور ایپی گرافسٹ اور لنگایت عالم ایم ایم کلبرگی اورصحافی  گوری لنکیش کے قتل  سے جس کے تار جڑے بتائے جاتے ہیں۔

ہندو جن جاگرتی سمیتی ساحلی کرناٹک کے شہری علاقوں میں مختلف النوع ثقافتی  پہریداری کی مہم میں متحرک رہی ہے۔

یہ تب سرخیوں میں آئی جب اس کے کارکنوں نے ہندوستانی تہذیب کی مغربیت کے خلاف اپنی  مہم کے تحت پارکوں، پبوں اور کالجوں میں جوڑوں پر حملہ کرنے کے  کئی واقعات کو انجام دیا۔سال2007 کے آتےآتے تک اس نے اسی مہم کو فرقہ وارانہ  رنگ دے دیا، جب اس کےرہنماؤں نے کئی اجلاس میں لو جہ

ہندو جن جاگرتی سمیتی کی جانب سے جاری ایک پوسٹر۔

ہندو جن جاگرتی سمیتی کی جانب سے جاری ایک پوسٹر۔

اد’ لفظ کا استعمال کرنا شروع کیا اور اس کو آگے بڑھانا شروع کیا کہ مسلمان ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہندو عورتوں کو پھنساتے ہیں،ان سے شادی کرتے ہیں اور انہیں ایک اسلامی منصوبہ کے تحت اسلام میں داخل کرتے ہیں۔ اس تنظیم کے مطابق ان کا اصلی مقصد ہندوستان میں ہندوؤں کو اقلیت  بنا دینا ہے۔

اپنی ویب سائٹ پر ہندو جن جاگرتی سمیتی نے مسلم نوجوانوں کو شکار پر نکلے ‘سیکس وولف’کے برابر بتایا۔ بنا کسی ثبوت کے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ صرف کرناٹک میں ہی 30000 عورتوں کا اسلام میں داخل کروایا جا چکا ہے، جبکہ جنوبی کنڑا میں ہر روز لگ بھگ تین عورتیں‘لو جہاد’ کا شکار ہوتی ہیں۔

لیکن اپنے دعووں کے حق میں کوئی بھی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سےہندو جن جاگرتی سمیتی مہم اس طرح سے پروان نہیں چڑھ سکی، جیسی سنگھ پریوار کی خواہش تھی۔لیکن سال 2009 کے کرناٹک ہائی کورٹ کے آرڈر نے اس اصطلاح کو قانونی جوازدینے کا کام کیا، جس میں ‘لو جہاد مہم’ کی کرناٹک اور کیرل پولیس کے ذریعہ مشترکہ جانچ کرانے کے لیے کہا گیا۔

یہ آرڈر ایک بالغ خاتون، جس نے کورٹ میں خود کہا تھا کہ اس نے مسلم مردسے شادی کی اور اپنی خواہش سے اسلام قبول کیا، کے گارجین کے ذریعے دائر کیے گئے ‘ہیبیس کارپس’کی عرضی  کے جواب میں آیا تھا۔جنوبی کرناٹک کے چماراج نگر کی اس خاتون کے بیان کے باوجود، اسے کورٹ کے ذریعے جانچ رپورٹ آنے تک اپنے گھروالوں کے ساتھ رہنے کی ہدایت  دی گئی۔

اس سے بھی زیادہ حیران کن طور پرکورٹ نے اس اس عرضی  کو ریاست بھر کی گمشدہ عورتوں کے معاملوں سے جوڑ دیا۔ کورٹ کا کہنا تھا کہ یہ گمشدہ عورتیں بھی‘لو جہاد’کا شکار ہو سکتی ہیں۔ایک رائٹ ونگ  ٹیب لائیڈ نے کورٹ کے آرڈر کے بعد پہلی بار ‘لو جہاد’کی اصطلاح  کا استعمال کیا، جسے کرناٹک کے کئی دیگر روزناموں نے لپک لیا اور اس طرح سے اس تصور کو لوگوں کے بیچ پہنچانے کا کام کیا۔

اسی وقت کےآس پاس ہندو جن جاگرتی سمیتی نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ مسلم یوتھ فورم اور کئی دیگر اسلامک ویب سائٹیں نوجوانوں کو ‘لو جہاد’کی تربیت  دے رہے ہیں، اپنی فرقہ وارانہ مہم کو اور تیز کر دیا۔

ان الزامات کی جانچ کیرل پولیس نے کی اور اسے ان الزامات میں کوئی دم نظر نہیں آیا۔ بعد میں کیرل ہائی کورٹ نے یہ کہا کہ بین مذہبی  شادیاں عام بات ہے اور اسے جرم کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہائی کورٹ نے جانچ بھی بند کرا دی۔

دلچسپ طریقے سے 2012 میں بی جے پی کی اتر پردیش اکائی کی جانب سے‘لو جہاد’ کو ایک سیاسی حکمت عملی کے طور پر اٹھائے جانے تک اس بار مغربی اتر پردیش میں جہاں پدری وقار اورذات  برادری کا احساس  اندرتک موجود ہے ہندو جن جاگرتی سمیتی نے ‘لو جہاد’پر نرم رویہ اپنائے رکھا۔

مغربی اتر پردیش میں‘لو جہاد’مہم ساحلی کرناٹک کے مقابلے کہیں زیادہ وسیع تھا۔ یہاں سنگھ پریوار کارکنوں نے اس تصور کا استعمال ہندوتوو کے پرانے پروپیگنڈہ  کو طول دینے کے لیے کیا، جو مسلمانوں کو گئو کشی، بچہ پیدا کرنے کی ہوسناک مشین، مجرموں اور کالا بازاریوں کے طور پر پیش کرتا ہے۔

اس صحافی نے مظفرنگر میں سنگھ کے کئی کارکنوں سے بات کی، جو اس خیال کو آگے بڑھا رہے تھے کہ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ کافروں کے ساتھ شادی  کرکے ان کے ساتھ جسمانی رشتہ بنانا، انہیں جنت میں لےکر جائےگا اور اگر قابو میں نہیں کیا گیا، تو مسلمان جلدی ہی تعداد میں ہندوؤں کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔

اس طرح کی بے بنیاد افواہیں 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بھی پھیلائی گئی تھیں۔آج موجودہ حالت میں‘لو جہاد’اپنے پہلے کےغیررسمی اوتار سے کہیں بڑی تقسیم کاری مہم  ہے۔اس خیال نے ہندو مردوں جو زندگی بھر خود اپنے گہرے پیٹھے ہوئے،کثیر النسلی خوف سے جوجھتے رہتے ہیں کو صف بند کرنے کی سب سے بااثر ہندوتوا کی حکمت عملی کے طور پر تبدیل  کر لیا ہے۔

ان میں سے زیادہ تر کو ‘لو جہاد’میں اس حقیقت سے انکار کرنے اور مسلمانوں اور ہندو دونوں ہی کمیونٹی  کی خواتین کے خلاف اپنے عدم تحفظ کو سمت دینے کا امکان  نظر آتا ہے۔

توجہ ہٹانے کے لیے بی جے پی نے بنایا ایجنڈہ

اتر پردیش، مدھیہ پردیش، ہریانہ اور کرناٹک کی بی جے پی سرکاروں نے ‘لو جہاد’کے پروپیگنڈہ کو ہوا دےکر اس مشتعل پدری  فرقہ وارانہ سیاست کو نئی اونچائی تک تک لے جانے اورمحکمہ جاتی کرنے کا کام کیا ہے۔

اس کے خلاف قانون بنانے کا اعلان  ہو، یاسیاسی بیانات میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے اس توہین آمیز خیال کو اٹھانا یاقتل کے ایک بہیمانہ معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینا ان سب نے ‘لو جہاد’ کو مسلسل چرچہ میں رہنے والاموضوع  بنا دیا ہے بھگوا پارٹی ایک پوری طرح سے اکثریتی  سماج پر اپنا شکنجہ کسنے اور اس پر اپناکنٹرول بنائے رکھنے کے اپنے آزمائے فارمولے پر لوٹ آئی ہے۔

جس تیزی سے بی جے پی کی قیادت  والی سرکاریں ایک ساتھ اس مسئلے کو اٹھا رہی ہیں، اس سے صاف ہے کہ یہ سب پہلے سے طے ہے۔

اس کی وجہ سے کم سے کم، فی الحال کچھ وقت کے لیے، اپنے دور اقتدار کے سب سے مشکل دور سے گزر رہی مرکز کی مودی سرکار بڑھتی وبا، اقتصادی بحران اور کافی تیزی سے بڑھ رہی بےروزگاری سے نپٹنے میں ناکام رہنے کی چوطرفہ ناکامیابیوں کی طرف سے عوام کی توجہ بھٹکانے میں کامیاب رہی ہے۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔