خبریں

دہلی فسادات : پولیس کے انکار کے بعد کورٹ نے ایف آئی آر درج کر کے غیر جانبدارانہ جانچ کر نے کا حکم دیا

دہلی فسادات  میں ملزم ایک شخص نے اپنے پڑوسیوں کے ذریعے ان کے گھر پر حملہ کرنے کاالزام لگایا تھا۔ پولیس نے ایسا کوئی جرم ہونے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ خود کو بچانے کے لیےملزم یہ الزام لگا رہا ہے۔

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نےپولیس کو حکم دیا ہے کہ دہلی فسادات  کے سلسلے میں ان کی جانب سے بند کیے گئے ایک معاملے میں ایف آئی آر درج کرکےغیرجانبدارانہ جانچ کریں۔دہلی پولیس نے ملزم کے خلاف ویڈیو ریکارڈنگ دستیاب ہونے کے باوجود معاملے میں جانچ بند کر دی تھی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق گزشتہ23 نومبر کو میٹروپولٹین مجسٹریٹ فہد الدین کی جانب سے دیا گیا حکم دہلی کے یمنا نگر باشندے سلیم سے جڑا ہے، جنہوں نے الزام لگایا ہے کہ اس سال 24 فروری کو ان کے پڑوسیوں سبھاش تیاگی اور اشوک تیاگی نے ان کے گھر پر حملہ کیا تھا اور گولی چلائی تھی۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ پڑوسی نے نصیر نام کے ایک شخص کو گولی بھی ماری تھی۔

پولیس نے کورٹ کو بتایا کہ فسادات کو لےکر سلیم خود ملزم ہیں اور انہیں 19 مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ دہلی پولیس نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود کو بچانے کے لیےیہ جھوٹی شکایت درج کرائی ہے۔ فی الحال سلیم ضمانت پر باہر ہیں۔

اس سلسلےمیں جانچ کے بعد پولیس نے دعویٰ کیا کہ‘کوئی بھی قابل دست اندازی جرم انجام دیا گیا، ایسا پایا گیا ہے اور اس لیے سلیم کی شکایت پر ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تھی۔’اس طرح جانچ بھی بند کر دی گئی تھی۔

حالانکہ کورٹ نے دہلی پولیس کی ان دلیلوں کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ پر دستیاب مواد، بالخصوص مبینہ واقعےکا ویڈیو فوٹیج کو دیکھ کر پتہ چلتا ہےکہ یہاں پر ‘قابل دست اندازی جرم ہوا ہے’اور ان الزامات کی پولیس کے ذریعے جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد کورٹ  نے جعفرآباد پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او کو ہدایت دی کہ وہ الزامات کی بنیاد پر جلد سے جلد متعلقہ دفعات میں ایف آئی آر درج کریں اور یہ یقینی کریں کہ معاملے میں غیرجانبدارانہ جانچ کرکےحتمی  رپورٹ بنا دیری کیے کورٹ میں سونپے۔

انہوں نے یہ بھی کہا شمال مشرقی دہلی کے ڈی ایس پی، جن کے دائرہ اختیار میں جعفرآباد آتا ہے، جانچ کی نگرانی کریں گے۔ سلیم کی شکایت میں نریش تیاگی، اتم تیاگی اور سپریم ماہیشوری کے بھی نام ہیں، جو کہ فسادات کے دوران 48 سالہ پرویز کے قتل  معاملے میں ملزم ہیں۔

ایف آئی آر کاآرڈر دیتے ہوئے کورٹ نے کہا، ‘یہ الزام سنگین ہیں اور شکایت گزارکے جینے کے حق کے تحفظ سے جڑے ہوئے ہیں۔ قانون کے یکساں تحفظ سے شکایت گزارکو محض اس بنا پر انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے خلاف کچھ ایف آئی آر درج ہیں اور جانچ افسر کو لگتا ہے کہ الزام جھوٹے ہیں اور شکایت گزار نے خود کو بچانے کے لیے ایسا کیا ہے۔ یہ نتیجہ  ایف آئی آر اور آزادانہ  اور غیرجانبدارانہ جانچ کے بنا نکالے گئے ہیں۔’