خبریں

کسانوں کی تحریک کو بدنام کر نے کی کوشش بی جے پی کا آزمودہ نسخہ ہے

کسان مخالف قوانین کے خلاف سڑکوں پر اترے کسانوں کو‘خالصتانی’قراردینا بی جے پی  کے اسی پروپیگنڈہ  کی اگلی کڑی ہے، جہاں اس کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ‘دیش ورودھی ’، ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ’ یا ‘اربن نکسل’بتا دیا جاتا ہے۔

بھارتیہ کسان یونین(بی کےیو)کی قیادت میں کسانوں کے ذریعےغازی پور بارڈرپر دفعہ144نافذ کرنے کے بعد مظاہرہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

بھارتیہ کسان یونین(بی کےیو)کی قیادت میں کسانوں کے ذریعےغازی پور بارڈرپر دفعہ144نافذ کرنے کے بعد مظاہرہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

مودی سرکار پر سوال اٹھانے والےمظاہرین کو بدنام کرنے کی کڑی میں بی جے پی کی پروپیگنڈہ ٹیم کا حالیہ نشانہ دہلی کی سرحدوں پر دھرنے پر بیٹھے کسان ہیں۔

ہو سکتا ہے،اب انہیں بی جے پی کی پروپیگنڈہ ٹیم کے ذریعےقبل میں دیگرعوامی تحریکات اور کارکن پر ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ،’‘جناح کی اولاد’سے لےکر‘اربن نکسل’ہونے کے جوالزام لگائے گئے تھے، ان کی سچائی زیادہ نزدیک سے سمجھ آئے۔

بی جے پی کی پروپیگنڈہ ٹیم کا یہ آزمودہ نسخہ ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں یہ اور بھی آسان ہو گیا ہے۔ اس میں مدعے کا جواب دینے اور لوگوں کی بات سننے کی بجائے مظاہرہ کرنے والوں یا مودی سرکار پر انگلی اٹھانے والوں پر تمام طرح کے الزام لگاکر انہیں بدنام کر دیا جاتا ہے۔

ایک بار اسے شروع کر دیا، تو باقی کام ان کی ساتھی میڈیا سنبھال لیتی ہے۔ لیکن اس بار معاملہ کچھ الگ ہے۔ایک طرف کسانوں کی طاقت کے آگے جھک کر مودی سرکار نے ان سے بات تو شروع کر دی ہے، لیکن دوسری طرف اس کی پروپیگنڈہ سیل نے انہیں بدنام کرنے کی مہم شروع کر دی ہے۔

اس میں کسانوں کے مظاہرہ کوخالصتانی قرار دیےجانے سے لےکر، اس پر ماؤنواز اورغیرسماجی عناصریا مودی مخالفین کے ذریعے قبضے میں کر لیے جانے کےالزام لگنا شروع ہو گئے ہیں۔اتنا ہی نہیں، وہ کسانوں سےوابستہ چھوٹے کاروباریوں کو کسانوں کا استحصال کرنے والا بچولیا بتا رہی ہے اور کسانوں کے آندولن کو ان کاروباریوں کے ذریعے اسپانسربتا رہی ہے۔

اس میں بی جے پی کی آئی ٹی سیل سے لےکر ان کے چھوٹے بڑے رہنما اور کئی طرح کے لوگ لگے ہوئے ہیں۔ اس میں ان کا بھونپو یا ساتھی میڈیا کہیں تو بہتر ہوگا، بھی شامل ہو گیا ہے۔اس طرح کے الزام لگانے کی شروعات مودی سرکار کی  پہلی مدت کار میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی(جے این یو)کے طلبا کو ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ’ قرار دےکر کی گئی تھی۔

اس وقت میڈیا کے ذریعے پورے ملک میں یہ بھرم پھیلایا گیا کہ جے این یو کے طالبعلم وہاں پڑھنے کے بجائے ملک مخالف سرگرمیوں میں لگے ہیں اور انہوں نے ایک میٹنگ کرکے اس میں ‘بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے’کے نعرے لگائے۔

کمال کی بات ہے کہ دہلی پولیس اور تمام ایجنسیاں مرکز کی بی جے پی سرکار کے پاس ہونے کے باوجود آج تک وہ اس معاملے میں کچھ بھی ثابت نہیں کر پائی ہے۔لیکن آج بھی بی جے پی کے ترجمان میڈیا ڈبیٹ کے دوران اور اپنےخطابات میں ان الزامات کو پورے زورو شور سے دہراتے نظر آئیں گے۔ اتنا ہی نہیں، ان کا ساتھی میڈیا بھی اسے وقت وقت  پر دہراتا رہتا ہے۔

اس کے بعد گائے کےگوشت کے نام پرمسلمانوں اور دلتوں کوسرعام ہلاک کیا گیا اور جئے شری رام کا نعرہ ایک سیاسی  نعرہ بن گیا۔ جو اس کے خلاف بولنے لگے انہیں‘ہندو ورودھی’ کہا جانے لگا۔پھر جوسماجی سیاسی کارکن  اوردانشور آدی واسی اور دلتوں کے حق میں بولتے اور کارپوریٹ کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، انہیں ‘اربن نکسل’ کہنے لگے۔

سب سے زیادہ حملہ سی اےاے مخالف مظاہرے اور کشمیر میں دفعہ370 ہٹائے جانے کی مخالفت کر رہی سیاسی پارٹیوں ، کارکنوں اور کمیونٹی کو جھیلنا پڑا۔اسی دور میں جے این یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کو ان کے کیمپس میں گھس کر بری طرح پیٹا گیا۔ کئی طلبا پر یو اے پی اے جیسے کڑے قانون لگاکر انہیں جیل میں ڈالا گیا؛ اس میں کئی  اب بھی جیل میں ہیں۔

سدھا بھاردواج جیسی مزدوروں اور آدیواسیوں کے بیچ کام کرنے والی کارکن بھی پچھلے دو سال سے جیل میں ہیں۔ ابھی دو ماہ پہلے ہی 83 سالہ ا سٹین سوامی کو بھی ان قوانین کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا۔

کسانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آج جب وہ مودی سرکار پر کارپوریٹ لابی کے دباؤ میں تین زرعی بلوں کو لاکر کسانوں اور کسانی کو ختم کرنے کا الزام لگا رہے ہیں اور انہوں نے بھی شاہین باغ کی طرح سڑک پر ڈیرہ ڈال دیا ہے، تب ہی ان پر تمام الزام  لگنا شروع ہوئے۔

انہیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اگر بنیا براہمن کی پارٹی کے نام سے جانی جانے والی بی جے پی موقع آنے پر آڑھتیوں کو بدنام کرنے سے نہیں چوک رہی۔

اتنا ہی نہیں، جہاں ملک میں 50فیصد لوگ سیدھے سیدھے کسانی کے کام میں لگے ہے اور کم سے کم 20فیصد لوگ ان سے جڑے ہیں، وہ اتنے بڑے طبقے کی تحریک پر تمام طرح کی تہمت لگانے سے باز نہیں آ رہی، تو اس نے تعداد کے طورپر چھوٹے طبقوں  کے ساتھ کیا نہیں کیا ہوگا۔

کسانوں پر بانٹنےوالی  طاقتوں سے جڑے رہنے کےالزام  لگاکر بی جے پی کی پروپیگنڈہ  ٹیم نے یہ ثابت کر دیا کہ قبل میں بھی دوسری کمیونٹی  پر اس طرح کے جو الزام  لگائے تھے، وہ حقائق  پرمبنی  نہ ہوکر ان کے پروپیگنڈہ  کا حصہ تھے۔

کسان یہ نہیں کہہ سکتے کہ بی جے پی کی پروپیگنڈہ ٹیم کے ذریعےدیگر مظاہرین، کارکنوں اورکمیونٹی پر لگائے الزام تو صحیح ہوں گے! لیکن وہ ہمارے بارے میں غلط بول رہی ہے۔کسانوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ آج تک اس طرح کے گمراہ کن پروپیگنڈہ  میں الجھا کر ہی انہیں آپس میں بانٹا گیا اور ان کے اصل مدعوں کو حاشیے پر ڈالا گیا۔

اس لیے ہی مودی سرکار ملک کے غریبوں کی بھوک اور کسانی سے جڑے عوام مخالف قوانین کو لانے کی ہمت کر پائی۔ اتنا ہی نہیں، ان کے ووٹ سے ایم پی  بننے والے رہنما اس دوران یا توپارلیامنٹ میں چپ بیٹھے رہے یا اس کی  حمایت  میں کھڑے تھے۔

اگر کسان بی جے پی کی پروپیگنڈہ  ٹیم کی اس سازش کو سمجھ پائی، تو وہ ان کے مظاہرہ  کی پہلی سب سے بڑی جیت ہوگی۔ اس کے بعد کا راستہ انہیں صاف دکھنے لگےگا۔

(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد کے کارکن ہیں۔ )