خبریں

این آر سی کی فہرست جاری ہو نے کے ڈیڑھ سال بعد این آر سی کنوینر نے ہائی کورٹ سے کہا-حتمی فہرست آنا باقی

آسام میں سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہوئی این آر سی کی حتمی فہرست31 اگست 2019 کو شائع ہوئی تھی، جس میں 19 لاکھ لوگوں کے نام نہیں آئے تھے۔اب این آر سی کنوینر ہتیش شرما نے گوہاٹی ہائی کورٹ میں دائر ایک حلف نامے میں کہا ہے کہ وہ ضمنی فہرست تھی اور اس میں 4700 نااہل  نام شامل ہیں۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: آسام این آر سی کی حتمی فہرست جاری ہونے کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد آسام کے این آر سی کنوینر ہتیش شرما نے گوہاٹی ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ ہندوستان کے رجسٹرار جنرل (آرجےآئی)کی جانب سےاین آر سی کی حتمی فہرست کوابھی جاری کیا جانا باقی ہے۔

بدھ کواصل حلف نامے کی کاپی کی بنیاد پر انڈین ایکسپریس نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ 3 دسمبر کو داخل اس حلف نامے میں شرما نے کہا ہے کہ آرجےآئی حتمی فہرست کی اشاعت پرخاموش تھی۔انہوں نے 31 اگست، 2019 کو شائع  فہرست کو ضمنی این آر سی قرار دیا اور کہا کہ اس میں 4700نااہل  نام شامل ہیں۔

بتا دیں کہ سیدھے سپریم کورٹ کی نگرانی میں این آر سی کی فہرست31 اگست، 2019 میں شائع ہوئی تھی، جس میں 1906657 لوگوں کے نام نہیں تھے۔ کل 33027661درخواست گزاروں  میں سے 31121004 لوگوں کے نام شامل کیے گئے تھے۔

ریاستی سرکار کے اعدادوشمار کے مطابق، فہرست میں جن 19 لاکھ سے زیادہ  لوگوں کے نام شامل نہیں ہوئے تھے اس میں 5.56 لاکھ ہندو اور 11 لاکھ مسلمان تھے۔ایک پریس بیان میں اس وقت کےاین آر سی کنوینر پرتیک ہجیلا نے اسے حتمی فہرست کہا تھا۔

حالانکہ،آسام سرکار نے اگست 2019 کی فہرست کو غلط مانا تھا اورخامیوں سے پُراین آر سی بنانے کے لیے ہجیلا کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔ ریاستی سرکار کے ساتھ ان کے رشتے بگڑنے کے بعد انہیں پچھلے سال سپریم کورٹ نے ریاست سے باہر کر دیا تھا۔

اس سال ستمبر میں آسام سرکار نے کہا تھا کہ وہ 2019 میں آئے این آر سی میں شامل ناموں کے10 سے 20 فیصدی دوبارہ تصدیق کرانے کی اپنی مانگ پرقائم ہے۔تب سے این آر سی کا عمل رکا ہواہے اور ابھی این آر سی دفتر کو باہر رہے 19 لاکھ لوگوں  کوری جیکشن آرڈر جاری کرنے باقی ہیں۔

یہ آرڈر ملنے کے بعد ہی یہ لوگ فارنرس ٹربیونل میں ان کے باہر رہنے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔حلف نامے میں شرما نے جواب دیا کہ مطبوعہ  این آر سی میں ان کی جانب سےمعلوم تمام خامیوں سے اس سال فروری میں آرجےآئی کو مطلع  کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ انہوں نے ایک صحیح این آر سی کے حق میں اصلاحی تدابیر کے لیے ضروری ہدایات مانگے تھے جو کہ بے حد اہم  ہے کیونکہ این آر سی سیدھے قومی سلامتی  اور سالمیت سے وابستہ ہے۔حالانکہ آرجےآئی نے خامیوں  سے نپٹنے کے بارے میں کوئی ہدایت  نہیں دی ہے۔

انہوں نے لکھا، ‘اس کے بجائے این آر سی کے اپڈیشن کی رد پرچیوں اور آپریشن کے اختتام کے لیے ہدایات ملے ہوئے ہیں۔ہندوستان کا رجسٹرار جنرل بھی این آر سی کی حتمی اشاعت پر چپ ہے، جو اس پر کارروائی کی واحد اتھارٹی ہے اور آج تک ہندوستان  کے رجسٹرار جنرل کے ذریعے شہری ضابطہ ، 2003 کے تحت اصولوں کے کلاز7 کے مطابق حتمی  این آر سی کا شائع کیا جانا باقی ہے۔’

وہیں،آسام سرکار بنگلہ دیش کی بارڈر سے سٹے اضلاع میں 20 فیصدی نام اور باقی حصہ میں 10 فیصدی  ناموں کے دوبارہ تصدیق کی مانگ پر قائم ہے۔اس سے پہلے آسام کے پارلیامانی امور کے وزیر چندر موہن پٹواری نے اس سال اگست میں اسمبلی میں بتایا تھا کہ ریاستی سرکار نے اس بارے میں سپریم کورٹ  میں حلف نامہ داخل کیا ہے۔

شرما نے لکھا کہ اگست 2019 میں این آر سی کی اشاعت کے بعد این آر سی کے عمل  سے وابستہ کچھ ضلع  سربراہوں  (ڈی آرسی آر)نےاس وقت کے  ریاستی کنوینر سے کچھ لوگوں کےناموں میں تبدیلی کی مانگ کی تھی۔کل10199 درخواست دیے گئے تھے جن میں سے 5404 رزلٹ کو ’ری جیکٹ’ سے ایکسپٹ ’میں بدلنے کے لیے تھے اور 4795 رزلٹ کو’ایکسپٹ ’سے ری جیکٹ’ میں بدلنے کے لیے تھے۔

قابل ذکر ہے کہ 4795اپیلوں میں سے 1032 نام ہٹانے کے لیے تھے کیونکہ وہ ڈاؤٹ فل فارنرس(ڈی ایف)، ڈاؤٹ فل ووٹر (ڈی وی)،فارنرس ٹربیونل (پی ایف ٹی)پر زیر التوا معاملوں والے افراد اور ان خانوں کے نسلوں کے زمرے میں آتے تھے۔ باقی3763 درخواست دوسری وجوہات سے ہٹانے کے لیے تھے۔

شرما نے پہلے ہی اکتوبر میں این آر سی کے ضلع انچارجوں کو 1032 ناموں کو ہٹانے کے لیے لکھا تھا۔ شرما نے لکھا تھا کہ 3763 ناموں پر کارروائی کی ہندوستان  کے رجسٹرار جنرل کی منظوری کے آگے تصدیق  کے بعد غور کیا جائےگا۔

دوبارہ تصدیق کرنے کی کارروائی  شروع کے لیے ہندوستان  کے رجسٹرار جنرل کی منظوری کی ضرورت ہے اوراگر رضامندی  ہو تو ایسےتصدیق  کے لیےہندوستان  کے رجسٹرار جنرل کے ذریعےرقم کی فراہمی  کی ضرورت  ہوگی۔

حلف نامے میں شرما نے تفصیل  سے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہجیلا کی مدت  کار کے دوران کس طرح سے این آر سی کے عمل کے مختلف مرحلوں میں خامیاں تھیں۔ جیسے کہ زمرے میں نہ ہونے کے باوجود لوگوں کو اصل باشندوں کے خانےمیں ڈال دیا گیا، تصدیق کے کاموں  کومحنت  سےمکمل نہیں کیا گیا، تصدیق کرنے والے  اہلکاروں  میں سے کچھ کی نیت شک سے بالا ترنہیں تھی اور دیگر کے ساتھ اعلیٰ حکام  کے ذریعے معیار کی جانچ میں کمی۔

غورطلب ہے کہ 2019 میں این آر سی کی فہرست کی اشاعت کے بعد سے ہی اس پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ سوال اٹھانے والوں لوگوں میں سب سے پہلے ریاست  کی مقتدرہ پارٹی بی جے پی  رہی تھی۔بتادیں کہ31 اگست کو حتمی فہرست کی اشاعت  کے بعدبی جے پی  نے کہا تھا کہ وہ این آر سی کی اپ ڈیٹ ہوئی فہرست پر بھروسہ نہیں کرتی ہیں۔

بی جے پی آسام کے صدر رنجیت کمار داس کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ این آر سی کی حتمی فہرست میں سرکاری طور پر پہلے بتائے گئے اعدادوشمار کے مقابلے باہر کیے گئے لوگوں کی بہت چھوٹی تعداد بتائی گئی ہے۔

اس کے بعد ریاست کے سینئر رہنما اوروزیر خزانہ ہمنتا بسوا شرما نے بھی کہا تھا کہ این آر سی کی حتمی فہرست میں کئی ایسے لوگوں کے نام شامل نہیں ہیں جو 1971 سے پہلے بنگلہ دیش سے ہندوستان آئے تھے۔

اس کے بعد ایک دوسرے موقع پر انہوں نے کہا تھا، ‘بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس پر بھروسہ نہیں ہے کیونکہ جو ہم چاہتے تھے اس کے برعکس ہوا۔ ہم سپریم کورٹ کو بتائیں گے کہ بی جے پی اس این آر سی کو خارج کرتی ہے۔ یہ آسام کے لوگوں کی پہچان کا دستاویز نہیں ہے۔’

اس این آر سی کی حتمی فہرست سے ناخوش لوگوں میں آسام پبلک ورکرس (اے پی ڈبلیو) نام کی غیر سرکاری تنظیم بھی ہے، جو سپریم کورٹ کی نگرانی کے تحت آسام میں این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے عدالت میں عرضی گزار تھی۔

اےپی ڈبلیو کا کہنا تھا کہ این آر سی کی حتمی فہرست کے عمل  کوصحیح  طریقے سے پورا نہیں کیا گیا تھا۔ اس سال کی شروعات میں بھی این آر سی کنوینر شرما نے کہا تھا کہ اس فہرست میں نااہل  لوگوں کے نام جڑ گئے ہیں۔