فکر و نظر

اترپردیش میں ’لو جہاد‘ اور یوگی آدتیہ ناتھ سے ایک ملاقات

یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا تھا کہ مسلم لڑکیاں خود ہی ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے بہ رضاو رغبت مذہب تبدیل کرتی ہیں۔

یوگی آدتیہ ناتھ/ فوٹو: پی ٹی آئی

یوگی آدتیہ ناتھ/ فوٹو: پی ٹی آئی

ہندوستان کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں بین مذہبی شادیوں، جس کو’لو جہاد’ کا نام دیا گیا ہے، کے خلاف قانون سازی کے بس 48گھنٹوں کے اندر ہی جس طرح پولیس نے ایک مسلم جوڑے کو نکاح کی تقریب کے دوران حراست میں لےکر ان کو پولیس اسٹیشن میں مبینہ طور پر ایذیتیں دیں، اس سے ہلکا سا  اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں اس قانون کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کو کس طرح ہراساں و پریشان کیا جائےگا۔

لگتا ہے کہ مسلمانوں کو شادی یا نکاح کی تقریب منعقد کرنے سے قبل اب پولیس سے باضابطہ اجازت لینی پڑے گی اور یہ یقین بھی دلانا پڑے گا کہ دلہن کسی دوسرے مذہب کی نہیں بلکہ مسلمان ہی ہے۔

جہاں ایک طرف اب حکومتی اداروں نے مسلمان لڑکوں کی دیگر مذاہب کی لڑکیوں کے ساتھ شادی پر سخت موقف اختیار کرکے قانون سازی تک کر ڈالی، وہیں دوسری طرف ہندو تنظیموں کی طرف سے باضابطہ مسلم لڑکیوں کے اغوا اور ہندو نوجوانوں کے ساتھ ان کی شادیاں کرنے کے واقعات کو صرف نظر کرتی آئی ہیں۔ 2017میں جب اتر پردیش کی صوبائی اسمبلی کے لیےانتخابات کا بگل بج گیا تو موجودہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے انتخابی حلقہ گھورکھپور اور خوشی نگر کے دورے کے دوران مسلم خواتین کے اغوا اور پھر ان کو ہندو مذہب قبول کروانے کے کئی واقعات میری نوٹس میں آئے۔

اس سے دو سال قبل لوک سبھا کے انتخابات کے موقع پر آدتیہ ناتھ نے واضح طور پر دھمکی دی تھی کہ ‘اگر وہ (مسلمان) ہماری (ہندو)ایک لڑکی لے جائیں گے، تو ہم ان کی 100 لڑکیاں لے جائیں گے۔’ ان کا اشارہ اس پروپیگنڈہ کی طرف تھا، جس میں مسلمان نوجوانوں پر الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو اپنے دام محبت میں پھنسا کر ان کے ساتھ شادیاں رچاتے ہیں‘ اور اس کو’لو جہاد’ کا نام دیا گیاہے۔ مقامی افراد نے بتایا کہ صوبہ کے اس مشرقی حصے میں ایک طرح سے’ریورس لو جہاد’جاری ہے۔

ایک خاتون ساتھی رپورٹر شویٹا ڈیسائی کے ساتھ اس علاقے کے کئی دیہی علاقوں کی خاک چھاننے کے بعد معلوم ہوا کہ مسلم لڑکیوں کے اغوا اور غائب کر دیے جانے کی سینکڑوں واردادتیں پولیس اسٹیشنوں کی فائلوں میں بند ہیں۔ معلوم ہوا کہ کہ ان لڑکیوں کا ‘شْدھی کرن’ کرکے ان کی شادیاں ہندو نوجوانوں کے ساتھ کرا دی جاتی ہیں۔بنگالی پٹی بنجاریہ گاؤں کی 17 سالہ آسیمہ نے بتایا کہ اغوا کرنے کے بعد اس پر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا‘ مگر وہ کسی طرح ان کے چنگل سے بھاگ گئی۔

صرف اس ایک گاؤں میں نو ایسے خاندان تھے، جن کی لڑکیوں کو اغوا کرکے بعد میں زبردستی شادیاں کر وا ئی گئی تھیں۔ چوپیہ رام پور گاؤں میں زبیدہ اب امیشا ٹھاکر کے نام سے ایک ہندو خاندان میں اروند ٹھاکر کی بیوی بن کر زندگی گزار رہی تھی۔آسمانی اور گلابی رنگ کی ساڑھی زیب تن کیے، ماتھے پر تلک اور مانگ میں سندور کو دیکھ کر یقین نہیں آرہا تھا کہ کہ لڑکی کبھی زبیدہ رہی ہوگی۔ اس کو بس 13سال کی ہی عمر میں اغوا کیا گیا تھا۔ سڑک کی دوسری طرف ہی اس کی ننہال ہے، جن کے لیے زبیدہ مر چکی ہے۔

  اس کے ماموں  عبداللہ کا کہنا تھا کہ اغوا کے کئی ہفتوں بعد ان کی بیٹی کو بھری پنچایت میں پیش کرکے زبردستی ہندو بنایا گیا۔ پولیس نے تو پہلے رامیشور ٹھاکر اور اس کے دو بیٹوں کے خلاف نابالغ لڑکی کو اغوکرنے کے الزام میں رپورٹ درج کی تھی۔ مگر بعد میں اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ عبداللہ کا کہنا تھا کہ طاقتور ٹھاکر خاندان کے خلاف لڑنے کی ان میں ہمت نہیں تھی۔ پنچایت میں ٹھاکر خاندان نے جعلی دستاویزات پیش کرکے بتایا کہ لڑکی کی عمر 21سال ہے اور اس نے برضا و رغبت ہندو دھرم قبول کیا ہے۔

اس کا کہنا تھا  اس کے بعد ڈھول باجے کے ساتھ پورے گاؤں اور پاس کے قصبہ میں جلوس نکال کر زبیدہ کے تبدیل مذہب کا جشن منایا گیا۔ اپنے تین سالہ بیٹے کو گود میں لئے زبیدہ یا امیشہ نے میری ساتھی رپورٹر کو بتایا کہ وہ اب زندگی کے ساتھ سمجھوتہ کر چکی ہے، کیونکہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔اس کا کہنا تھا کہ وہ اب ہندو ریتی رواج اپنانے اور سیکھنے کی کوشش کر رہی ہےتاکہ اس کی ازدواجی زندگی اب کسی طرح ٹھیک طرح سے چلے۔

پولیس ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ  اس علاقہ میں 389 نابالغ مسلمان لڑکیوں کے غائب ہونے کی وارداتیں ہوئی تھیں۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ بھارت کمار یادو نے بھی تسلیم کیا کہ کوئی بھی فیملی بہ رضا و رغبت لڑکی دوسرے مذہب میں بیاہ کے لیے نہیں دے سکتی‘ مگر کیس درج ہونے کے بعد اور لڑکی کی بازیابی کے بعد اس کی جو حالت ہوتی ہے، وہ اکثر اغوا کاروں کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتی ہے برعکس اس کے کہ وہ اپنی فیملی میں جا کر الگ تھلگ یا تنہائی کا شکار ہو کر مزید عذاب جھیلے۔

یاد رہے کہ مشرقی اتر پردیش کا یہ علاقہ کافی پسماندہ اور بدحالی کا شکار ہے۔پرسان حالی کا یہ عالم ہے کہ اکتوبر 2016 حبیب انصاری نے اپنی بیٹی نوری کے اغوا میں ملوث چار ہندو لڑکوں کے خلاف کیس واپس لینے کی عرضی کورٹ میں دائر کی۔ دو سال قبل نوری کو گوری سری رام گاؤں سے اغوا کرکے اجتماعی زیادتی کا شکار بنایا گیا تھا۔ نوری نے مجسٹریٹ کے سامنے ہندو واہنی تنظیم سے وابستہ چار افراد کی شناخت بھی کی، جن میں ایک نابالغ لڑکا بھی تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ خود آدتیہ ناتھ کے کارکنوں نے ہی انصاری پر کیس واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا، جس کے بعد اس کو گاؤں میں دوبارہ رہنے اور کھیتی کرنے کی اجازت مل گئی۔

اس سے قبل پولیس نے صرف نابالغ لڑکے کو ملز م بنا کر دیگر افراد کے نام ایف آئی آر سے خارج کردیے تھے۔اس گاؤں میں مسلم بستی کے ارد گرد دیوارکھڑی کرکے ان کو  دیگر مکینوں سے الگ تھلگ کردیا گیا تھا۔

دہلی واپس آکر ایک دن پارلیامنٹ کے اجلاس کے دوران میں نے آدتیہ ناتھ کو جو ممبر پارلیامنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ گھورکھپور کے سب سے بڑے مندر کے مہنت بھی تھے، سینٹرل ہال کے ایک کونے میں اکیلے سوپ اور ٹوسٹ نوش فرماتے دیکھا۔ میں نے بیٹھنے کی اجازت طلب کی ان سے اس ریورس لو جہاد کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔  انہوں نے یہ تو تسلیم کیا کہ ہندو واہنی ان کی قیادت میں کام کرتی ہے، مگر اغوا اور دیگر وارداتوں میں اس کے ملوث ہونے سے انکار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لڑکیاں خود ہی ہندو لڑکوں سے شادیاں کرکے بہ رضاو رغبت مذہب تبدیل کرتی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ اکثر وبیشتر مسلمانوں کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں‘ہندوستان میں تقریباً 17کروڑ مسلمان بستے ہیں اور ان سب کو ختم کیا جا سکتا ہے‘ نہ پاکستان کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہندو بنایا جا سکتا ہے۔ کیا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ اس ملک میں ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ پْرامن زندگی گزار سکیں؟ تو انہو ں نے کہا، ”ہندو کبھی متشدد نہیں ہوتا ہے“۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان آبادی جہاں بھی پانچ فیصد سے اوپر ہوتی ہے، پریشان کن ہوتی ہے۔

تاریخی حوالے دے کر وہ کہنے لگے ”ہندو حکمرانوں کے کبھی توسیع پسندانہ عزائم نہیں رہے ہیں‘ مگر اب وہ بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ کیونکہ ان کا مذہب، تہذیب و تمدن مسلمانوں اور عیسائیوں کی زد میں ہیں‘ اور ان مذاہب کے پیشوا اور مبلغ‘ہندوؤں کو آسان چارہ سمجھتے ہیں“۔ ٹوسٹ کا آخری لقمہ حلق میں اتارتے ہوئے آدتیہ ناتھ جی نے کہا، ‘مسلمان ہندو دھرم کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور ہماری رسوم پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ دوسرا ہر روز پانچ وقت مساجد سے اذان کی آوازیں آتی ہیں، مگر جب ہندو کے کسی جلوس میں بھجن یا اشلوک ڈی جے پر گائے جا رہے ہوں تو وہ تشدد پر اتر آتے ہیں،  وہ ہندوؤں کو نیچ اور غلیظ سمجھتے ہیں“۔

لوک سبھا کی کارروائی شروع ہونے جا رہی تھی۔ مسلسل کورم کی گھنٹی بجائی جا رہی تھی۔ وہ ایوان میں جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، مگر جاتے جاتے کہا،’مسلمانوں کو  دیگر اقلیتوں سکھوں، جین فرقہ اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری تسلیم کرتے ہوئے چین سے رہنا سیکھنا چاہیے۔ مجھے یا د آیا کہ کئی برس قبل ہندو انتہا پسندوں کے ایک اور اہم لیڈر پروین بائی توگڑیا نے بھی کچھ یہی الفاظ ایک انٹرویو کے دوران میرے گوش گزار کیے تھے۔ آدتیہ ناتھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے حلقے میں پرامن زندگی گزار رہے ہیں، اور ان کے گئو شالامیں کئی درجن مسلمان ملازم گائے کی خدمت کرتے  رہتے ہیں۔

اس ملاقات کے چند روز بعد ہی وہ ہندوستان کے سب سے بڑے صوبہ کے وزیرا علیٰ مقرر ہوئے اور فی الوقت وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے تیسرے بڑے لیڈر ہیں، جو وزارت اعظمیٰ کی کرسی حاصل کرسکتے ہیں۔