خبریں

جامعہ تشدد کے ایک سال بعد بھی ایف آئی آر درج نہیں، اب امید بھی نہیں: وی سی

گزشتہ سال دسمبر میں شہریت قانون کے خلاف ہوئے مظاہرہ کے بعد دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس  میں گھس کر لاٹھی چارج کیا تھا، جس میں تقریباً 100 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ وہیں، ایک اسٹوڈنٹ کے ایک آنکھ کی روشنی چلی گئی تھی۔

دسمبر 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں کی گئی توڑ پھوڑ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

دسمبر 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں کی گئی توڑ پھوڑ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں دہلی پولیس کے حملے اور طلبا کی بے رحمی سے پٹائی کئے جانے کے واقعہ کے ایک سال بعد بھی اس معاملے میں یونیورسٹی کی جانب سے پولیس میں درج کرائی گئی شکایت اب تک ایف آئی آر میں تبدیل نہیں ہو پائی ہے۔

یونیورسٹی کی وائس چانسلر نجمہ اختر نے دی  وائر کو بتایا کہ اب (ایف آئی آر)کوئی امید نہیں ہے۔ اس کے بجائے ہم مستقبل پر توجہ مرکوز کرنا چاہیں گے۔بتا دیں کہ ٹھیک ایک سال پہلے جامعہ کے طلباشہریت قانون  (سی اےاے) کےخلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ 15 دسمبر 2019 کو طلبااحتجاج میں پرامن مارچ نکال رہے تھے کہ متھرا روڈ کے پاس اچانک دہلی پولیس نے انہیں روک لیا تھا۔

یونیورسٹی طلبا پر پولیس کی پرتشددکارروائی شروع ہوتے ہی پتھراؤ شروع ہو گیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ پتھراؤ کر رہے باہری لوگوں کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے، جو کیمپس میں گھس آئے تھے۔اس دوران پولیس اورپیراملٹری فورسز کی سفاکانہ  کارروائی میں لگ بھگ سو سے زیادہ طلبازخمی  ہو گئے تھے، جس میں سے ایک اسٹوڈنٹ کے ایک آنکھ کی روشنی چلی گئی تھی۔

یونیورسٹی کی جانب سےبعد میں تیار کی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پولیس یونیورسٹی کی دونوں لائبریری نئی اور پرانی میں گھسی تھی۔ لائبریری میں پڑھ رہے طلبا پر پولیس کے حملے کی تصویریں، ویڈیو اور سی سی ٹی وی فوٹیج اس کے ثبوت ہیں۔ اس کے باوجود پولیس ان الزامات کو خارج کرتی رہی ہے۔

اس حملے کے تین مہینے بعد رینوویشن ہونے پر لائبریری کو دوبارہ کھولا گیا۔یونیورسٹی نے لائبریری کی ملکیت کو پہنچے نقصان کے لیےوزارت تعلیم کو 2.66 کروڑ روپے کی ملکیت کے نقصان کا بل بھیجا تھا۔اس معاملے کی جانچ کے لیے  ایک اعلیٰ سطحی  اور جوڈیشیل کمیٹی کی تشکیل کی مانگ بھی کی گئی تھی۔ حالانکہ اس مورچے پر کوئی ترقی  نہیں ہوئی ہے۔

تشدد کے وقت دہلی پولیس کے خلاف کھلے طور پر بولنے والی وائس چانسلر اختر کا اب کہنا ہے کہ اس طرز پر سرکار کو سزادینے کے لیے اب بہت کچھ نہیں ہے۔ اب منفی باتوں  پر دھیان دینے کا کیا تک؟قابل ذکر ہے کہ 15دسمبر کےبعداختر نے حملے میں اپنی بینائی سے محروم ہونےوالے اسٹوڈنٹ محمد منہاج الدین سے بھی ملاقات کی تھی۔

اختر نے کہا تھا، ‘میں اب بھی ان سےباقاعدگی سے بات کرتی ہوں۔ میں نے آج بھی انہیں فون کیا تھا کہ انہیں پی ایچ ڈی کرنی چاہیے۔’گزشتہ ایک سال میں جامعہ این آئی آرایف یونیورسٹی رینکنگ میں10ویں مقام پر رہی۔ یہ مقام پانے والی جامعہ پہلی اقلیتی یونیورسٹی ہیں۔ ہمارے اسٹوڈنٹ  بہت مضبوط ہیں۔

پولیس اہلکاروں  کی سفاکانہ  کارروائی کا معاملہ فی الحال عدالت میں ہے۔ اس واقعہ کو ایک سال گزر چکا ہے، لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شکایت کو اب تک ایف آئی آر کے طور پر درج نہیں کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ  اب ایف آئی آر کے اسٹیٹس کے بارے میں پوچھ تاچھ بھی نہیں کرتی۔

اختر نے کہا، ‘ہمیں جو کچھ بھی کہنا تھا، ہم نے متعلقہ وزارت کو بتا دیا تھا۔ ہم نے ان سے ضروری قدم اٹھانے کو کہا تھا اور اب گیند ان کے پالے میں ہے۔ ہماری واحد تشویش  یہی تھی کہ ایف آئی آر درج ہونی چاہیے، جو کہ پولیس نے نہیں کی۔ ہم عدالت گئے تھے لیکن کسی بھی فیصلے پر نہیں پہنچا گیا اس لیے ہم ایسی چیزوں کے پیچھے اپنا وقت برباد نہیں کرنا چاہتے، جن کےنتیجے ہی نہیں نکلے۔ ہم اب پوری طرح سے اپنے کام پر دھیان دے رہے ہیں۔’

اختر نے کہا، ‘اگر عدالت یہ طے کرنے میں اتناوقت لے رہی ہے کہ ایف آئی آر درج ہوگی یا نہیں تو اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔’

پولیس کا کیا کہنا ہے

واقعہ کے کئی ویڈیو سامنے آئے تھے، جس میں پولیس کو جامعہ کی لائبریری کے اندرطلبا پر حملہ کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کے دو مہینے بعد جانچ شروع کی گئی تھی۔جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی(جے ایم سی)کی جانب سےجاری کئے گئے ویڈیو میں پولیس کو طلبا پر حملہ کرتے، یونیورسٹی کے فرنیچر کے ساتھ ہی سی سی ٹی وی کیمرے توڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ دنگائیوں کی تلاش میں کیمپس میں گھسی تھی۔کیمپس میں تشددکے سلسلے میں دہلی پولیس کے رول کی جانچ دہلی پولیس کرائم برانچ سے سائبر سیل کو ٹرانسفر کر دیا گیا تھا، لیکن اب تک معاملے میں ایک بھی پولیس اہلکار کی پہچان نہیں کی گئی ہے۔

دہلی پولیس کے ترجمان  ایش سنگھل نے دی وائر سے بات چیت میں کہا کہ فسادات  کے تین معاملوں سمیت پانچ معاملے 15 دسمبر کو جامعہ میں ہوئے تشدد کے سلسلے میں درج کئے گئے تھے۔دیگر دو معاملوں میں جے این یو اسٹوڈنٹ شرجیل امام کو سیڈیشن اور 15 دسمبر 2019 کو جامعہ فسادات  کو اکسانے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ شرجیل پر الزام  ہے کہ انہوں نے 13 دسمبر کو اشتعال انگیز بیان دیا تھا، جس کے لیے ان پر معاملہ درج کیا گیا ہے۔

سنگھل نے کہا، ‘جہاں تک پولیس کی زیادتی کےالزام  کا سوال ہے۔ کئی عرضیاں  دائر کی گئی ہیں۔ معاملہ دہلی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔’کئی طلبا کا کہنا ہے کہ وہ حملے کے بعد سے ابھی تک ڈر کے سائے میں جی رہے ہیں۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)