خبریں

سپریم کورٹ نے اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا اور کارٹونسٹ رچتا تنیجہ کو توہین عدالت کے نوٹس بھیجے

گزشتہ11 نومبر کواسٹینڈاپ کامیڈین کنال کامرا نےخودکشی کے لیےاکسانےکےمعاملے میں صحافی ارنب گوسوامی کی ضمانت کے سلسلےمیں سپریم کورٹ اور اس کے ججوں کے خلاف کئی ٹوئٹ کیے  تھے۔ اسی بارے میں کارٹونسٹ رچتا تنیجہ نے بھی ٹوئٹ کیے تھے۔ اٹارنی جنرل نے دونوں کے خلاف کارروائی کی منظوری دی ہے۔

کنال کامرا اور رچتا تنیجہ۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/پی ٹی آئی/ٹوئٹر)

کنال کامرا اور رچتا تنیجہ۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/پی ٹی آئی/ٹوئٹر)

نئی دہلی:سپریم کورٹ نے اپنے خلاف مبینہ ہتک آمیزٹوئٹ کرنے کے معاملے میں اسٹینڈاپ کامیڈین کنال کامرااور کارٹونسٹ رچتا تنیجہ کو جمعہ  کو وجہ  بتاؤ نوٹس جاری کیا ہے۔جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس آر سبھاش ریڈی اور جسٹس ایم آر شاہ کی بنچ نے دونوں کو الگ الگ نوٹس جاری کر چھ ہفتے میں جواب دینے کی ہدایت  دی۔

حالانکہ بنچ نے ہتک  کے دیگر معاملوں میں دونوں کو شنوائی کے دوران پیش ہونے سے چھوٹ دے دی۔عدالت نے مبینہ ہتک آمیز ٹوئٹ کےمعاملے میں کامرا اور تنیجہ کے خلاف ہتک کی کارر وائی کرنے کے لیے دائرعرضیوں پر جمعرات  کو فیصلہ محفوظ  رکھا تھا۔

اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے کامراکے خلاف مجرمانہ ہتک کی کارر وائی شروع کرنے پر رضامندی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹوئٹ‘بدنیتی’کے تحت کیے گئے تھے اور یہ وقت ہے جب لوگ سمجھیں کہ عدالت پر ڈھٹائی سے حملہ کرنے پر عدالت ہتک ایکٹ1971 کے تحت سزا ہو سکتی ہے۔

اسی طرح اٹارنی جنرل نے تنیجہ کے خلاف بھی ہتک عزت کی کارر وائی شروع کرنے پر رضامندی دی تھی۔ انہوں نے کہا تھاسپریم کورٹ کو بدنام کرنے اور عدلیہ کے تئیں  لوگوں کے بھروسے کو کم کرنے کے مقصد سے اس طرح کے ٹوئٹ کیے گئے۔

قابل ذکر ہے کہ کسی شخص کے خلاف ہتک کی کارر وائی شروع کرنے کے لیے عدالت کو ہتک سے متعلق ایکٹ1971 کی دفعہ15کے تحت اٹارنی جنرل یا سالیسیٹر جنرل کی رضامندی لینی ہوتی ہے۔سپریم کورٹ کی مجرمانہ ہتک عزت کے لیے 2000 روپے تک کا جرمانہ لگایا جا سکتا ہے اور چھ مہینے تک کی قید ہو سکتی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے ان سے جواب مانگا ہے کہ آخر کیوں ان کے خلاف ہتک  کی کارر وائی شروع نہیں کرنی چاہیے؟بنچ نےگزشتہ جمعرات کو عرضی گزاروں میں سے ایک کی جانب  سے پیش وکیل  نشانت آر کاتنیشورکر کی عرضی  پرشنوائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ کامرانے عدلیہ  کی تنقید میں کئی ٹوئٹ کیے۔

کاتنیشورکر نے عدالت میں کہا، ‘یہ سب ٹوئٹ قابل مذمت  ہیں اور ہم نے اٹارنی جنرل سے ہتک کی کارروائی شروع کرنے کے لیےرضامندی کی  مانگ رکھی ہے۔’

انہوں نے معاملے میں کامرا کے خلاف مجرمانہ ہتک عزت کی کارر وائی شروع کرنے کی منظوری دینے والے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال کے خط  کو پڑھا۔بنچ نے وکیل سے کھلی عدالت میں کامرا کے مبینہ توہین آمیزٹوئٹ کو نہیں پڑھنے کو کہا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ وہ پہلے ہی اس معاملے پر وینوگوپال کے خط کو پڑھ چکے ہیں۔

بنچ نے اس بات پر بھی دھیان دیا تھا کہ اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے رچتا تنیجہ کے خلاف قانون کے طالبعلم  آدتیہ کشیپ کی عرضی پر بھی رضامندی دی تھی۔

ویڈیو کانفرنسگ کے ذریعے ہوئی شنوائی میں سینئر وکیل  پی ایس نرسمہا نے عدالت کو بتایا،‘ٹوئٹ میں معاملے پر کوئی چرچہ نہیں کی گئی ہے لیکن یہ عدالت کے وقارکو کمتر کرنے والے ہیں۔ ہمارے پاس اٹارنی جنرل کی صاف رائے ہے، جہاں ان کا خیال  ہے کہ پہلی نظر میں  عدالت کی توہین  ہوئی ہے۔’

بتا دیں کہ پچھلے مہینے اٹارنی جنرل کی جانب سےکامراکے خلاف ہتک  کی کارر وائی شروع کرنے کی منظوری دینے کے بعد کامرا نے کہا تھا کہ اس کی اپنے ٹوئٹس کو واپس لینے یا معافی مانگنے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔کامراکے خلاف کارر وائی کے لیے قانون کے ایک طالبعلم  سکند باجپائی نے اٹارنی جنرل کو خط لکھا تھا۔

کامرا نے کہا تھا، ‘میں نے جو بھی ٹوئٹ کیے وہ سپریم کورٹ کے ایک‘پرائم ٹائم لاؤڈاسپیکر’(ارنب گوسوامی)کے حق میں دیے گئےجانبدارانہ  فیصلے کے لیے میرا نظریہ تھا۔’انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے دیگر معاملوں میں ذاتی آزادی کے معاملوں پرخاموشی  بنائے رکھی۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں سال 2018 میں خودکشی کے لیے اکسانے کے ایک معاملے میں ری پبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف  ارنب گوسوامی کوعبوری ضمانت دے دی تھی۔اس پر ردعمل دیتے ہوئے کامرا نے سلسلےوار کئی ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ اس ملک  کا سپریم کورٹ سب سے بڑا مذاق بن گیا ہے۔

کنال کامرانے 11 نومبر کو کچھ ٹوئٹ کیے تھے، جس میں انہوں نے بھگوا رنگ میں رنگی سپریم کورٹ کی ایک تصویر پوسٹ کی تھی، جس میں سپریم کورٹ کے اوپر بی جے پی کا جھنڈا لگا تھا۔

بتا دیں کہ کامراکے خلاف عرضیوں میں سے ایک قانون کے اسٹوڈنٹ  شری رنگ کٹنیشورن نے دائر کی، جس کا کہنا ہے کہ کامرا نے 11 نومبر کو یہ ٹوئٹ کرنے شروع کیے تھے، جب سپریم کورٹ 2018 کے خودکشی  معاملے میں بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف صحافی  ارنب گوسوامی کی عرضی پرشنوائی کر رہی تھی۔

دراصل بامبے ہائی کورٹ نے خودکشی  معاملے میں گوسوامی کی عبوری ضمانت کی عرضی  خارج کر دی تھی، جس کے خلاف گوسوامی نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔اسی طرح کارٹونسٹ رچتا تنیجہ کے خلاف بھی ہتک کی  کارر وائی کی مانگ کی گئی تھی۔ یہ معاملہ بھی ارنب گوسوامی اور سپریم کورٹ سے جڑا ہوا ہے۔

مبینہ توہین آمیز کارٹونوں میں سے ایک بیچ میں کھڑے ارنب گوسوامی بی جے پی کی جانب  اشارہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ‘تو جانتا نہیں میرا باپ کون ہے؟’ یہ ٹوئٹ اسی دن کیا گیا تھا جس دن اٹارنی جنرل نے کامرا کے خلاف ہتک  کی کارر وائی کو منظوری دی تھی۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)