خبریں

’ پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کی پیروی کر نے والوں کے لیے آدی واسی کسان نہیں ہیں

ایک جانب کارپوریٹس تمام اقتصادی شعبوں اور ریاستوں کی سرحدوں میں اپنے  کام کی توسیع  کے لیےآزاد  ہیں، وہیں ملک بھر کے کسانوں کےزرعی قوانین کے خلاف متحد ہونے پر بی جے پی ان کی تحریک  میں پھوٹ ڈالنے کی  کوشش کر رہی ہے۔

10دسمبر کو کسانوں کے مظاہرہ میں گرفتار کیے گئے سماجی  کارکنوں کےلیےاپنی حمایت کا اظہار کرتے مظاہرین۔ (فوٹو: د ی وائر)

10دسمبر کو کسانوں کے مظاہرہ میں گرفتار کیے گئے سماجی  کارکنوں کےلیےاپنی حمایت کا اظہار کرتے مظاہرین۔ (فوٹو: د ی وائر)

کسی بھی طرح کےاحتجاج یا مخالفت کو لےکر بی جے پی کے اولین ردعمل کا اب  بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مرکزی وزیر حملہ آورہوجاتے ہیں،مخالفت کرنے والوں کو اینٹی نیشنل، ماؤنواز، جہادی وغیرہ  کہا جانے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ اندازہ لگانا بھی آسان ہو گیا ہے کہ کس طرح میڈیا اس پروپیگنڈہ  کو بڑھا چڑھاکر پیش کرےگا۔

قابل ذکر ہے کہ 10 دسمبر یعنی یوم انسانی حقوق کے موقع پر بھارتیہ کسان یونین(ایکتا اگرہن)نے یواے پی اے، بالخصوص بھیما کورےگاؤں  اور شہریت قانون (سی اےاے)کےمظاہروں کے معاملے میں گرفتار کیے گئے کئی سماجی کارکنوں کو یاد کیا۔

کارکنوں  کی رہائی طویل عرصے سے اگرہن گروپ کی مانگ ہے، حالانکہ یہ کسان یونینوں کے اس کےمنیمم پروگرام کا حصہ نہیں ہے، جو نریندر مودی سرکار کی جانب سے لائے گئے تین نئےزرعی قوانین کو واپس لینے پرمرکوز ہے۔

امید کے مطابق بی جے پی نے اس موقع کو کسانوں کی تحریک میں ‘بایاں بازو، اینٹی نیشنل، ماؤنوازاور ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کی گھس پیٹھ کے بارے میں وارننگ دینے کے لیے استعمال کیا۔

حالانکہ کسانوں کی حمایت میں اپنے ایوارڈ لوٹانے والے ہزاروں سابق فوجیوں  کو ‘ایوارڈ واپسی گینگ’ کہنے کی ان کی ہمت ابھی نہیں ہوئی ہے، لیکن وہ شاید اس لیےکہ میڈیا نے سرکار کے ذریعےفوج  حامی امیج بنائے جانے کی کوشش  کی وجہ سے اس بات کو اتنی کوریج نہیں دی ہے۔

حالانکہ نتن گڈکری، روی شنکر پرساد اور پیوش گوئل جیسےمرکزی وزیروں  کو پرائم ٹائم میں جگہ دےکر میڈیا نے یہ بات تومشتہر کی ہے کہ بھارتیہ کسان یونین (اگرہن)نے جن کارکنوں کی رہائی کی مانگ کی ہے، ان کا کسانوں یا ان کے مدعوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

اس سے بھی بدتر یہ کہ میڈیا نے کسان یونینوں کے بیچ پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔

اس مظاہرہ کا نتیجہ جو نکلے، بی جے پی نے مختلف طبقوں کو اکیلا کرنے کا مقصد پورا کر لیا ہے۔ سنگھو بارڈر پر مخالفت کر رہے مظاہرین کا جامعہ کے طلبا کاان کے مظاہرہ  میں آنے کو لے کر بیزاری  ظاہر کرنا حاشیے کے لوگوں کے لیے ان کے نظریے کو دکھاتا ہے۔

اسی بیچ این ڈی ٹی وی کو دیے ایک انٹرویو میں نتن گڈکری نے بھارتیہ کسان یونین (اگرہن)کے ذریعے‘گڑھ چرولی کے کسی شخص’کی تصویر دکھانے پر اعتراض کیا، جس کا ‘کسانوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے’ اور جسے ‘گرفتار کیا گیا اور ضمانت نہیں ملی۔’

‘ضمانت نہ ملنے کو’الزام تراشی  کی طرح استعمال کرنے کی بے شرمی کو چھوڑ ہی دیتے ہیں کیونکہ کارکنوں کو یواے پی اے کے تحت حراست میں لینے کا بنیادی مقصد تو وہی ہے، بات کرتے ہیں کہ ‘گڑھ چرولی کے کسی شخص’نے آج تک کیا کیا کیا ہے۔

مہیش راؤت۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

مہیش راؤت۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

بھیما کورےگاؤں  معاملے میں گرفتار کیے گئے سب سے کم عمر کے مہیش راؤت نے ٹس سے پڑھائی کی ہے اور گڑھ چرولی میں پی ایم رورل ڈیولپمنٹ فیلو کے بطور کام کیا ہے۔

انہوں نے سورج گڑھ کے کسانوں کو کارپوریٹ کان کنی کے خلاف لڑنے میں مدد کی تھی، جو ان کے مقدس مقامات  پر قبضہ کر رہے تھے۔ ایسا کب ہوتا ہے کہ 300 گرام سبھائیں کسی ایسےشخص، جو کسانوں اور گاؤں سے جڑا ہوا نہ ہو، کے حق میں تجویز پاس کرتی ہیں؟

دسمبر 2017 میں میں نے مہیش کے ساتھ ایک بیٹھک میں حصہ لیا تھا، جسے انہوں نے سابق نوکرشاہ بی ڈی شرما کے ذریعے شروع کیے گئے بھارت جن آندولن کی طرف سے فاریسٹ رائٹ ایکٹ کی  ایک دہائی اور پیسا قانون کی  دو دہائی مکمل  ہونے کے موقع پر منعقد کیا تھا۔

یہ دونوں ہی قانون آدی واسی اور جنگل کے دیگرروایتی باشندوں کے لیے اہم جیت تھیں۔ فاریسٹ رائٹ ایکٹ کا بنیادی مقصد ہی سرکار کو یہ یاد دلانا تھا کہ محفوظ جنگلوں کے اندر کھیتی کرنے والے آدی واسی ‘تجاوزات کرنے والے’ نہیں بلکہ کسان ہیں، جن کی زمین کو سرمایہ اور اس کے بعد کے قوانین  سے غلط طرح سے جنگل کی سرحدوں میں باندھ دیا گیا تھا۔

وہ بیٹھک پوری طرح سے قانونی تھی۔ مہاراشٹر اوردیگر ریاستوں سے آئے ہوئے کسانوں نے ان قوانین کے ساتھ اپناتجریہ شیئر کیا تھا اور بتایا کہ اسے کیسے بہتر طریقے سے عمل میں لایا جائے۔

اس  بات سے انکارکرکے کہ آدی واسی کسان بھی ہیں، بی جے پی سرکار اسی نسل پرست تعصب کو غذا فراہم  کر رہی ہے کہ آدی واسی یا تو صرف شکار کر سکتے ہیں یا پھر کھیت میں مزدوریا شہری مزدور ہو سکتے ہیں۔

غورطلب ہے کہ 83 ورشیہ اسٹین سوامی، جو گرفتار کیے گئے سب سے عمردراز شخص ہیں، نے اپنی پوری زندگی  کسانوں کی مدد کرتے ہوئے گزاری  ہے۔

کسانوں کے مدعوں کے ساتھ ان کا پہلا تجربہ1970 کی دہائی کا ہے، جب پاؤلو فریئرے کی‘پیڈگوجی آف د ی آپریسڈ’سےمتاثرہوکر انہوں نے اور بنگلور میں انڈین سوشل انسٹی ٹیوٹ ٹریننگ سینٹر کے ان کے ساتھی جے سوئٹس نے چھوٹے کرایہ داروں کو سرکار کی جانب سے اعلان شدہ‘لینڈ ٹو دی ٹلر’(سرکار کے ذریعے زمین کا اختیار بدلنا)پروگرام کو سمجھانے میں مدد کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔

امید کے مطابق، چرچ اور سرکار دونوں نے غریبوں کا ساتھ دیے جانے کی اس جدوجہد کو منظوری نہیں دی، حالانکہ دونوں ہی اس کے اپنے سرکاری پالیسی میں ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔

اس کے بعد غریبوں کی خدمت کرنے کی اپنی خوخواہش کی وجہ سےجھارکھنڈ پہنچے اسٹین نے زبان  اور لوگوں کی کھیتی کسانی سےمتعلق  پہلوؤں کو سیکھنے کے لیے دو سال گاؤں میں گزارے۔

جھارکھنڈ جیسی  ریاست میں سینچائی کے مسائل جیسے کسانوں کی عام پریشانیوں کے ساتھ باہریوں کےزمین پر قبضہ اور سرکار کے ذریعہ زمین پر قبضہ  بڑے مسائل  ہیں۔

اسٹین نے یہاں زمین کو لےکر ہو رہی جدوجہدمیں حصہ لیا اور ایک نقل مکانی مخالف‘وستھاپن ورودھی جن آندولن کے بانی رکن بنے۔ کچھ عرصہ  پہلے وہ سرکارکے ذریعےصنعت کاروں کو دینے کے لیے بنائے گئے لینڈ بینک کے لیے لے لی گئی عام لوگوں  کی زمین کے اعدادوشمارکواکٹھا کر رہے تھے، ساتھ ہی ماؤنواز ہونے کے فرضی الزامات میں گرفتار کیے گئے آدی واسی نوجوانوں کے لیےمقدمے باز ی  کی تیاریوں میں مصروف  تھے۔

بھیما کورےگاؤں  معاملے میں گرفتار ہوئے کارکنوں میں سے کسی بھی ایک کا نام لیجئے اور ان کا زمین اور کسانوں کے مدعوں سے کوئی نہ کوئی تعلق ملےگا سدھا بھاردواج چھتیس گڑھ  میں غریبوں کی زمین اور زندگی کےلیےقانونی لڑائیاں لڑنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ گوتم نولکھا پنجاب میں انسانی حقوق کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔

جہاں تک سی اے اے کی آئینی حیثیت کے لیے اس کی مخالفت کرنے کے لیے گرفتار کیے گئے دہلی کے طلبایا کشمیریوں کی بات ہے، تو وہ بھی شہریوں کی  ایک بڑی جدوجہد کا حصہ ہیں، جہاں وہ مختلف مذاہب،علاقوں  کے الگ الگ لوگوں جیسے، کارکن، طلباور خواتین کی شہریت اور جینے اور روزگارکے حقوق  کے لیے کھڑے ہیں۔

مرکز کےزرعی قوانین کے خلاف کسانوں کامظاہرہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

مرکز کےزرعی قوانین کے خلاف کسانوں کامظاہرہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

گزشتہ 10 دسمبر کی تقریب  میں بانٹے گئے ایک لیف لیٹ میں کہا گیا تھا کہ موجودہ سرکار کی سب سے بڑی حصولیابی یہ ہے کہ اس نے نوجوانوں کو فحش شو، ڈرگس جیسی چیزوں سے ہٹاکرملک کے بارے میں سوچنے کی طرف مائل کر دیا ہے۔

بی جے پی ‘ون نیشن، ون مارکیٹ’ لانا چاہتی ہے، لیکن اسی وقت لوگوں کے مظاہرہ کو الگ حصوں میں بانٹ دینا چاہتی ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس کے متضاد رویے کے مطابق، ایک طرف سرکار دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ لڑائی صرف پنجاب کے کسانوں کی ہے اور باقی پورے ملک کے کسان زرعی قوانین سے خوش ہیں؛ وہیں دوسری طرف جب تمام علاقوں کے کسان کچھ خصوصی مدعوں کو لےکر ساتھ آتے ہیں، تب ان پر تقسیم کو بڑھانے کاالزام  لگتا ہے اور دہلی میں آنے کے لیے انہیں پولیس سے بچ کر نکلنا پڑتا ہے۔

جس طرح سے امبانی، اڈانی اور ٹاٹا جیسے کارپوریٹس مختلف سیکٹر میں کان کنی ، زراعتی کاروبار سے لےکر ہوائی اڈوں تک اپنے پاؤں پسار رہے ہیں، تب بھی لوگوں سے یہ کہا جا رہا کہ ان کارپوریٹس کے ذریعے چھتیس گڑھ یا جھارکھنڈ جا رہےنقل مکانی کے خلاف لڑائی پنجاب اور ہریانہ میں ہو رہی جدوجہد  سے الگ ہے۔

جیسا کہ کئی مطالعے،یہاں تک کہ کسانوں کے ورلڈ آرگنائزیشن جیسے وایا کیمپیسینا، نے اشارہ کیا ہے کہ موجودہ وقت میں زمین پرقبضہ سیدھے زمین کو زراعتی کاروبارکو بیچنے کی شکل میں نہیں ہوتے بلکہ طویل مدتی  لیز یا کانٹیکٹ فارمنگ کے طور پر سامنے آتے ہیں، جہاں کاشتکار عالمی سطح پر سپلائی چین کا صرف ایک نقطہ محض  بن کر رہ جاتے ہیں۔

اس بیچ زراعت کو لےکر کئی‘بحرانی داستانوں’کے ذریعے یہ بات پھیلائی جا رہی ہے کہ بڑے زراعتی کاروبار اپنی کانٹیکٹ فارمنگ کے ذریعے لاکھوں چھوٹے اور مجھولے کسانوں سے کہیں زیادہ باصلاحیت ثابت ہوں گے۔

یہ میڈیا کے لیے سب سے صحیح  وقت ہو سکتا ہے جب وہ ماحولیاتی تبدیلی اورزراعت پر اس کے اثرات ، کسانی کے اور پائیدار ماڈل ، عالمی فوڈ چین سپلائی کے مسائل، جو کووڈ 19 کی وجہ سے کچھ کم ہوئی ہیں، کے بارے میں چرچہ کر سکتا ہے۔

لیکن اس کے بجائے ہمارے سامنے شہری بی جے پی ترجمان  آتے ہیں، جو کسانی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، پر کسان مظاہرہ  کو لےکر شکوک کا اظہار کرتے ہیں اور اصل میں کسانوں اورہندوستانی زراعت  کی پریشانیوں  سے وابستہ  کارکنوں  پر سوال اٹھاتے ہیں۔

(مضمون نگارماہر سماجیات ہیں۔)

 (اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)