خبریں

عبادت گاہوں کی آڑ میں سرکاری زمین پر تجاوزات نہیں کر سکتے: دہلی ہائی کورٹ

دہلی کے نیو پٹیل نگر میں دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ذریعےچار مندروں کو توڑنے کے فیصلے کے خلاف دائر عرضی پر شنوائی کے دوران دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ کئی معاملوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مندر  یادیگر عبادت گاہوں  کی آڑ میں سرکاری زمین پر دعویٰ کیا جاتا ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ڈی ڈی اے (دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی)جیسی اتھارٹی  یہ یقینی بنانے کے لیے ہیں کہ غیرقانونی تجاوزات کے ذریعے سرکاری  زمین پر عبادت گاہ  نہ بنائے جائیں۔جسٹس پرتبھا ایم سنگھ نے ‘عبادت  گاہ  کی آڑ میں’سرکاری زمین  پر تجاوزات  کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بڑی تعداد میں معاملوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مندر یا دیگر عبادت گاہوں  کی آڑ میں سرکاری زمین پر دعویٰ کیا جاتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ غیراخلاقی جماعتوں کی ایسی کوششوں کی حوصلہ شکنی  کی جانی چاہیے، کیونکہ سینکڑوں لوگ عبادت گاہ  کی آڑ میں زمین  کو پوری طرح سے غیرمنظم تجاوزات میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

عدالت نے کہا، ‘اتھارٹی  کی ذمہ داری ہے کہ وہ  یقینی بنائیں کہ اس طرح سے سرکاری زمین  پرعبادت گاہ  نہ بنائے جائیں۔ اس سے بھی زیادہ، موجودہ معاملے میں اس عرضی  کےالتوا رہنے کی وجہ سے ایک انفرااسٹرکچر پروجیکٹ پوری طرح سے رکی رہی۔ یہ عوامی  مفادکے بھی برعکس  ہوگا۔’

ہائی کورٹ  نے دہلی کے نیو پٹیل نگر واقع چار مندروں کو توڑنے سے دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی(ڈی ڈی اے)کو  روکنے کی اپیل  کرنے والی عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا، ‘اس فطرت  کو ہائی کورٹ یادیگر عدالتوں نے باربار نامنظور کیا ہے۔’

جسٹس سنگھ نے کہا کہ یہ زمین سرکاری  ہے اور مدعی  کسی بھی طرح  کی راحت کا حقدار نہیں ہے۔ جج نے عرضی گزار پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ لگایا، جسے دہلی ہائی کورٹ (مڈل انکم گروپ) لیگل ایڈ سوسائٹی میں جمع کرایا جائےگا۔

یہ مقدمہ سوامی اونکار نند کا چیلا ہونے کا دعویٰ کرنے والے شخص بال بھگوان نے دائر کیا تھا۔ سوامی اونکار نند نیو پٹیل نگر میں چار مندروں کو چلاتے تھے۔مدعی نے دلیل دی کہ اس زمین پر 1960 کی دہائی سے مندر ہے اور سوامی اونکار نند کا 1982 میں انتقال ہونے کے بعد سے یہ  ان کے قبضے میں ہے۔ ڈی ڈی اے نے دعویٰ کیا کہ پوری زمین  سرکاری ہے اور اس پر مدعی  کا غیرقانونی  قبضہ ہے۔ اتھارٹی نے یہ بھی کہا کہ اس تنازعہ کی وجہ سے3000 لوگوں کے رہنے کے لیے متعینہ پروجیکٹ میں رکاوٹ  آ رہی ہے۔

اس نے کہا کہ مدعی کا زمین  پر کوئی حق  نہیں ہے اور اس زمین کو کٹھ پتلی کالونی کے باشندوں  کی بازرہائش کے لیے 1982 میں دیا گیا تھا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)