ادبستان

ایک ہی چاند تھا سرِ آسماں

خصوصی تحریر: میرے الٰہ آباد کے اس مسلسل سفر میں فاروقی صاحب سے ہونے والی ملاقاتوں کا حاصل یہ ہے کہ میں نے انھیں ان مضامین کی فہرست تیار کرنے پر آمادہ کرلیا تھا، جو شائع نہیں ہوئے تھے۔ ان مضامین میں بڑی تعداد انگریزی تحریروں کی تھی جن میں اکثریت غالب اور عہدِ غالب سے متعلق تھی۔ میں جن مضامین کی بات کررہا ہوں، وہ سب ان کے موجودہ کمپیوٹر میں ہیں۔ اس کے علاوہ ای میل اور یو ایس بی میں جو ہوں گے، وہ الگ ہیں، اور وہ بھی بہت ہوں گے۔

Shamsur Rahman Faruqi. Photo: Twitter/@MayaramArvind

Shamsur Rahman Faruqi. Photo: Twitter/@MayaramArvind

اس تحریر کی ابتدا میں ہی یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے اپنے مخدومین کے انتقال کے فوراً بعد ان پر کبھی نہیں لکھا۔ بہت ساوقت گزرنے کے بعد بھی اگر لکھنے بیٹھا تو پھر یہ سوچ کر نہیں لکھا کہ جن لوگوں سے ذاتی مراسم ہوں، ان پر لکھنے میں کئی بڑی پیچیدگیوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ تحریر جس پر لکھا جارہا ہے، اس سے زیادہ وہ خود لکھنے والے کا اپنا خاکہ بن جاتا ہے، جو کسی بھی طرح مستحسن نہیں۔

رشید حسن خاں صاحب اور مخمور سعیدی صاحب پر کبھی کچھ نہ لکھنے کی وجہ یہی تھی۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب کا معاملہ مگر مختلف ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوگی جو مجھ سے بھی زیادہ ان کے قریب رہے ہوں مگر میرا خیال ہے کہ میں اس تحریر میں بعض ایسی باتوں پر روشنی ڈال سکوں گا جو ان پر لکھی جانے والی شاید کسی اور تحریر میں نہ ہوں۔

میں یہ کوشش بھی کروں گا کہ جن باتوں کا ذکر دوسرے لوگوں نے کیا ہے یا اغلب ہے کہ وہ کریں گے، یا پھر وہ باتیں جو سب کو معلوم ہیں، ان کو اس تحریر میں شامل نہ کیا جائے۔

شمس الرحمن فاروقی صاحب سے تفصیلی ملاقاتوں کا دوسرا دور میرے انجمن ترقی اردو (ہند) میں آنے کے بعد شروع ہوا، اور یہ عرصہ تقریباً آٹھ برس کو محیط ہے۔ اس ادارے سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کرنے کے بعد یہ بات میرے ذہن میں ہمیشہ رہی کہ اداروں کو ان تعصبات سے پاک ہونا چاہیے جو اشخاص کا وصف ہیں۔ علمی اداروں کے باب میں یہ ایک مشکل کام ہے مگر ہندستان میں تو ادارے ان تعصبات کے کینسر سے تباہ ہی ہوجاتے ہیں جو ان اداروں سے وابستہ افراد کے نظریات ہوتے ہیں۔

ادارے کے طور پر انجمن کے ’اشخاص‘ سے کیا رشتے ہوں، فاروقی صاحب کو لے کر خصوصاً یہ بات میرے ذہن میں مختلف وجوہ سے تھی۔ انجمن میں پہلے ہی دن میں نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ انجمن ترقی اردو (ہند) کا شمس الرحمن فاروقی سے رشتہ اردو کے ایک اہم ادارے کا اپنے وقت کے سب سے محترم لکھنے والے سے جن آداب کا متقاضی ہے، ان سب کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ اس باب میں سب سے اہم فاروقی صاحب اور انجمن میں پالیسی کی حد تک ہی سہی مگر اردو املا کا اختلاف تھا۔

انجمن نے بہت پہلے الٰہ آباد یونی ورسٹی میں عربی کے پروفیسر عبدالستار صدیقی کی صدارت میں اردو املا کی معیار بندی کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی، اس کی سفارشات اور فاروقی صاحب کے اصولِ املا میں بہت اختلاف تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ اضافت کا تھا جس کی انجمن میں سختی کے ساتھ پابندی کی جاتی ہے۔ انگریزی میں البتہ فاروقی صاحب Punctuation کی مکمل پابندی کے قائل تھے۔ عبدالستار صدیقی صاحب کے اصولِ املا کے سب سے بڑے مقلد رشید حسن خاں صاحب انجمن کی بہت سی کمیٹیوں کے رکن آخری وقت تک رہے، اور انجمن میں چوں کہ ان کا بہت احترام کیا جاتا تھا، اس لیے، انجمن کی اشاعتوں خصوصاً  ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ اور سہ ماہی ’اردو ادب‘ میں ممکن حد تک رشید صاحب کے اصولِ املا کی پابندی کی جاتی ہے۔

میرا قیاس ہے کہ بہ شمولِ دیگر وجوہ کے علمی اختلافات کے سبب بھی فاروقی صاحب اور انجمن کے درمیان ہمیشہ ایک محفوظ فاصلہ رہا تھا جس میں مَیں نے کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ طے کیا گیا کہ فاروقی صاحب کی جو تحریر بھی انجمن میں اشاعت کے لیے آئے گی، اسے پروف پڑھے بغیر اس لیے شائع کردیا جائے کہ پروف ریڈر نادانستہ ہی سہی، کہیں گستاخی کا مرتکب نہ ہوجائے۔ میری معلومات کی حد تک انجمن نے ایک ہی ارمغان (Festscrift) شائع کیا ہے، اور اپنی تمام حد بندیوں کے باوجود ’ارمغانِ فاروقی‘ اس معیار کا ہے کہ ہندستان میں تو کوئی ادارہ اب شاید ہی کسی اہلِ قلم کی خدمت میں اس نوعیت کا علمی نذرانہ پیش کرسکے۔

ارمغانِ فاروقی، فوٹو بہ شکریہ: اطہر فاروقی

ارمغانِ فاروقی، فوٹو بہ شکریہ: اطہر فاروقی

یہ اردو اور انگریزی دونوں میں ہے، اور اس پر ہم نے بہت محنت کی تھی۔ ان کی ایک اور کتاب بھی انجمن سے شائع ہونی تھی جس کا مسودہ اردو اِن پیج سوفٹ ویئر کی پیچیدگیوں کا شکار ہوگیا تھا۔ ’اردو ادب‘ میں کبھی کوئی افسانہ یا شاعری شائع نہیں ہوئی، مگر میں نے اس بات کی بھی حامی بھرلی تھی کہ سہ ماہی ’اردو ادب‘ میں فاروقی صاحب کے افسانے اور شاعری بھی ہم شائع کردیا کریں گے۔ یہ فیصلہ ان کے اس برس لکھے گئے افسانوں کے ذیل میں ان کی اس تشویش کے پیشِ نظر کیا گیا تھا کہ یہ کہاں شائع ہوں۔

یہ شاید اس برس جولائی کی بات ہے۔ امید کہ ان کی تحریروں کی باقیات میں بہ ظاہر غیرمطبوعہ اور نامکمل تحریروں کا جو خزانہ ہے، اور جس کی کچھ تفصیل مجھے معلوم ہے، اور جس کا ذکر آگے درج کیا جائے گا، ان کے افرادِ خانہ کی توجہ سے انجمن شائع کرسکے گی۔

٭٭٭

فاروقی صاحب سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات ڈاک بھون میں 1993 کے شروع میں احمد محفوظ صاحب کی وساطت سے ہوئی۔ یہ ملاقات اس اعتبار سے بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ اچھی ملاقات نہیں تھی۔ میرے لیے تو اپنے نظریات بہت حد تک ذاتی نوعیت کی چیز رہے ہیں، مگر فاروقی صاحب کا معاملہ مختلف تھا۔ وہ جن نظریات کے حامی تھے، اردو دنیا میں اس حلقے کے وہ امام بھی تھے، اس لیے، وہ اپنے نظریات کی سختی سے پابندی اس طرح کرتے تھے کہ خصوصاً اردو والوں کے ساتھ اس باب میں وہ کسی طرح کے تکلف اور رعایت کے قائل نہ تھے۔

اُس زمانے میں یہ خیال مجھ پر کچھ زیادہ ہی حاوی تھا، کہ اگر کسی ایسے شخص سے ملاقات ہو جس کے نظریات سے میں واقف ہوں، اور وہ مجھ سے مختلف ہوں تو ابتدا میں ہی اپنے مسلک کا اعلان کردیا جائے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فاروقی صاحب کے سامنے بولنے کی ہمت ان سے مختلف نظریات رکھنے والوں کو تو دور، ان کے مقلدین کو نہ بھی ہوتی تھی مگر میں نے جرأت کرکے انھیں بتادیا کہ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا ممبر ہوں نیز پارٹی اور اس سے بھی زیادہ پارٹی والوں سے میرا ہر طرح کا رشتہ 2004 میں ختم ہوگیا۔ یہ اطلاع ان کے لیے سخت تکدر کا سبب ہوئی۔ وہ اُس زمانے میں بہت بڑے افسر بھی تھے۔

اس طرح کی بات کہنا آسان ہے کہ ہم نے فلاں کے سامنے یہ کہہ دیا یا وہ کردیا مگر یہ سب کرنا جتنا مشکل ہے، اس کا اندازہ صرف ان ہی کو ہے جنھوں نے واقعتا کبھی اس قسم کی جرأت کی ہو۔ اتفاق سے اسی وقت ایک افسر آئے جن سے فاروقی صاحب سخت ناراض تھے۔ اس افسر کے جانے کے بعد ان کی فطری شرافت کا اظہار ہوا۔ کہنے لگے نظریات چھوڑو، یہ بتاؤ کہ پڑھا کیا ہے؟ پھر جب بات شاعری کی شروع ہوئی تو کہنے لگے کہ آپ تو خود کو ترقی پسند کہہ رہے تھے پھر آپ نے ان سب شاعروں کو کیوں پڑھا؟

میں نے قدرے جسارت سے کہا کہ میں کسی بھی’منشور‘ کو پوری طرح نہیں مانتا، اس لیے سرخوں میں بھی معتوب ہوں۔ اس سے ان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ کچھ دن کے بعد انھوں نے کمالِ شفقت سے مجھے خط لکھا اور گھر پر کھانے کی دعوت دی۔ ہاسٹل میں رہنے والے طالبِ علم کو دعوت دے کر کون کھانے پر بلاتا ہے، اس کا احساس مجھے تھا۔ احمد محفوظ صاحب پھر ساتھ تھے۔ اس دن اتفاق سے ان کے گھر کے تقریباً تمام لوگ موجود تھے، اور وہ لمبی دوپہر خوش گپیوں میں گزری۔ کوئی نظریاتی بات یا یوں کہیے کہ ایسی بات جس میں نظریاتی تصادم ہو، نہیں ہوئی۔ پھر ایک اور ملاقات ہوئی جس میں ان کا انٹرویو ریکارڈ کیا گیا۔

یہ وہی انٹرویو تھا جس میں انھوں نے — 1993 میں — یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں میں برسرِ کار اساتذہ کو جاہلوں کی چوتھی نسل کہا تھا، یہ جملہ بہت مشہور ہوا۔ آج بھی یہ سننے کو مل جاتا ہے۔ یہ انٹرویو لاہور کے مشہور انگریزی روزنامے The Nation میں چھپا تھا۔ اس انٹرویو میں — اپنے خیال میں صحافتی دیانت داری کے تحت— جو گستاخی میں نے کی، وہ نیشنل اردو رائٹرز ایسوسی ایشن سے فاروقی صاحب کی وابستگی سے متعلق سوال تھا۔ یہ تنظیم ایمرجنسی میں سنجے گاندھی نے بنائی تھی، اور جس میں فاروقی صاحب بھی بڑے عہدے دار تھے، انھوں نے اس سوال کا برا نہیں مانا، اور جواب دیا۔

اس انٹرویو کا اردو متن اب بھی کبھی کبھی شائع ہوجاتا ہے۔ محمد عمر میمن نے اپنی معروف سنک میں اسی اردو متن سے اس کا انگریزی ترجمہ کرکے اسے Annual of Urdu Studies میں شائع کیا تھا۔ اس کے کچھ روز بعد فاروقی صاحب ریٹائر ہوکر الٰہ آباد چلے گئے۔

کچھ دن بعد پھر مجھے ان کا خط ملا کہ وہ مختلف ملکوں کا ویزا لینے کے لیے دہلی آرہے ہیں۔ سب سے پہلے ہم امریکی سفارت خانے گئے تو اندازہ ہوا کہ دنیا واقعتا کیسی ہے، اس کا فاروقی صاحب کو کچھ بھی اندازہ نہ تھا۔ وہ 1958 میں سرکاری نوکری میں آگئے تھے۔ ان کی نوکری بھی کچھ ایسی تھی کہ باہر کی دنیا کی بدصورتی کا انھیں براہِ راست کوئی تجربہ اس عہد ے پر رہتے ہوئے کبھی نہ ہوا ہوگا جس پر وہ 1993 تک متمکن رہے۔ اپنا ویزا لینے پہلی بار وہ کسی سفارت خانے گئے تھے۔ اس سے پہلے ان کے ماتحت افسران یہ کام کرتے تھے۔ امریکی سفارت خانے کے باہر اس زمانے میں جو بھیڑ ہوتی تھی اس کے ساتھ کچھ دیر کھڑے ہوکر انھیں ایک نئی دنیا سے شاید پہلی بار واقفیت ہوئی۔

ویزا کے لیے سفارت خانے کے اندر جانے سے پہلے دوست اور اعزا، خصوصاً نئے شادی شدہ جوڑوں میں ہندستانی نژاد امریکی بیوی اپنے ہندستانی شوہر کو جس طرح سمجھاتی تھی، وہ سب میرے لیے بھی دل چسپ تھا مگر فاروقی صاحب کے لیے بالکل نیا تھا۔ لائن میں عام لوگوں کے ساتھ لگنے کا کوئی تصور بھی ظاہر ہے کہ ان کے ذہن میں نہ تھا۔ فاروقی صاحب اس دن جس اذیت سے گزرے، وہ ناقابلِ بیان ہے۔

ایک میل یا اس سے بھی زیادہ لمبی لائن۔ ان کا ویزا فارم اس لیے نامکمل تھا کہ ان کے پاس مطلوبہ رقم کا ڈیمانڈ ڈرافٹ نہیں تھا جو میں نے انھیں بتائے بغیر سفارت خانے کے باہر سے ہی بلیک میں خرید لیا جہاں اس طرح کے ڈرافٹ تیار شکل میں بک رہے تھے! لنچ سے ذرا پہلے فاروقی صاحب اندر جاپائے۔ پھر لنچ ہوگیا، اور وہ باہر آگئے۔ لنچ کے بعد ان کا فارم جمع ہو پایا، اور کئی دن کے بعد انھیں پہلا ویزا ملا۔

میں نے پیش کش کی کہ اب آپ کسی اور سفارت خانے نہ جائیں، میں آپ کے ویزا فارم جمع کرانے کی کوشش کروں گا۔ اس زمانے میں یہ ممکن تھا مگر انھیں کئی ممالک کے ویزے لینے تھے جس میں پندرہ دن تو لگے ہوں گے۔ اس درمیان وہ گھر پر ہی اختلاج کی کیفیت سے گزرتے رہے۔

یونی ورسٹی کی تعلیم کے بعد میں اپنے وطن واپس لوٹ گیا۔ میرے لیے وہ بہت ذہنی انتشار کا زمانہ تھا۔ میں نے کسی نوکری کے لیے درخواست نہیں دی تھی۔ ویسے بھی جو ڈگری میرے پاس تھی اور اس سے جو نوکری مل سکتی تھی، اس کی صلاحیت مجھ میں نہیں تھی، اس لیے خاموشی کے ساتھ دہلی میں تقریباً دس برس اور جے این یو میں آٹھ برس برباد کرکے گھر لوٹ گیا۔

اسی زمانے میں اخترالایمان پر ایک ڈاکیومنٹری بنائی جس کے لیے میں نے اردو کے کسی عالم سے مشورہ نہیں کیا تھا۔ اس فلم کے لیے فاروقی صاحب کا انٹرویو لینا چاہتا تھا مگر وہ اس لیے ممکن نہیں ہوسکا کہ وہ الٰہ آباد میں تھے۔ اس ڈاکیومنٹری کی وجہ سے تو نہیں مگر ایک ایسی بات سے وہ مجھ سے ناراض ہوگئے جس میں میری اس زمانے کی سادگی کے سوا اگر کسی بات کا دخل تھا تو اردو کی ادبی گروہ بندی تھی جس کامیں حصہ ہی نہ تھا۔ میں نے صفائی دینے کی کوشش نہ کی اور پھر فاروقی صاحب سے ملاقاتیں بند ہوگئیں۔

اچانک بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور مجھے، جب میں اپنے وطن میں ہی تھا، ایک عجیب اتفاق کے نتیجے میں ایک نوکری مل گئی۔ ایک برس بعد وہ نوکری جاتی رہی پھر میں نے کوئی ایک برس قومی اردو کونسل میں گزارا۔ وہاں فاروقی صاحب آتے تھے مگر میں ان سے کبھی ملا نہیں۔ اس نوکری کو بھی جانا ہی تھا۔ کچھ دن بعد مگر مجھے ایک دوسری نوکری پہلی نوکری کے تجربے کی وجہ سے مل گئی تھی جو میں نے انجمن میں آنے تک کی۔

اس ملازمت کو شروع کرنے کے کچھ دن بعد کسی نے کہا کہ فاروقی صاحب آپ کے بارے میں معلوم کر رہے تھے۔ میں نے کہا کہ وہ مجھ سے ناراض ہیں،اس لیے، میں ان سے نہیں ملتا۔ دو تین دن کے بعد ان صاحب کا پھر فون آیا کہ فاروقی صاحب کہہ رہے ہیں کہ میں ان سے فوراً ملوں، وہ مجھے سے بالکل ناراض نہیں ہیں۔

وہ دہلی آئے ہوئے تھے۔ میں نے فون کیا تو لگا نہیں کہ ان کے دل میں کوئی بات ہے۔ میں جاکر ملا تو محسوس ہوا کہ کچھ ہوا ہی نہیں تھا…اور پھر میں ان سے ملنے لگا۔ یہ تقریباً دس بارہ برس کا عرصہ ہے۔ میری نوکری کا کوئی تعلق نہ تو اردو دنیا سے تھا، اور نہ ہی مسلمانوں سے، اس لیے پھر کبھی کوئی پیچیدگی نہیں ہوئی۔

میں 2012 میں انجمن ترقی اردو (ہند)سے وابستہ ہوگیا۔ فاروقی صاحب جب بھی دہلی آتے تو ان سے کئی بار ملاقات ہوتی۔ شام کو اگر ان کے گھر (یعنی ان کی بیٹی کے گھر جہاں ان کا قیام ہوتا تھا)دعوت ہوتی تو اس میں حاضری کا شرف مجھے بھی حاصل ہوتا۔ دعوتوں کا یہ سلسلہ ان کی طبیعت کی فیاضی اور اگلے وقتوں کی قدروں پر دلالت کرتاتھا مگر ان دعوتوں میں شاید ہی کبھی میں نے کسی ’اردو والے‘ کو دیکھا ہو۔

ان کے بہت قریب رہنے والے اردو کے اہلِ قلم سے بھی وہاں بھی ملاقات نہیں ہوئی۔ اس سے یہ اندازہ بھی مجھے ہوا کہ اردو سے باہر کتنی بڑی دنیا سے فاروقی صاحب کے مراسم تھے۔ فون پر تو ان سے مستقل بات کرنے کا اعزاز مجھے حاصل تھا۔ ان آٹھ برسوں میں صرف ایک دفعہ کو چھوڑکر جب وہ الٰہ آباد میں ہی سخت علیل ہوگئے تھے، وہ انجمن کے ہر پروگرام میں شریک ہوئے۔ 2012 کے بعد سہ ماہی ’اردو ادب‘ میں فاروقی صاحب کی جتنی تحریریں شائع ہوئیں، ان کی تعداد ان تمام تحریروں سے زیادہ ہیں جو گزشتہ پچاس برسوں میں اس   مجلے میں چھپی ہوں گی۔

  جون 2019 میں کچھ ایسا ہوا کہ مجھے مارچ 2020 تک بار بار الٰہ آباد جانا پڑا۔ یہ ہر ہفتے کا معمول تھا۔ کئی بار ہفتوں وہاں رُکنا ہوتا۔ اس درمیان فاروقی صاحب سے بہت ملاقاتیں ہوئیں۔ وقت کوئی ہو۔ چائے تو ضرور ہی پی جاتی، اور اکثر ایک دفعہ سے زیادہ۔ کھانے کا وقت ہو تو یہ طے تھا کہ میں بھی کھانا ان کے ساتھ ہی کھاؤں گا۔

فاروقی صاحب سول لائنس کے ہیسٹنگس روڈ کی بڑی کوٹھی میں رہتے تھے جس کی مکانیت کا بڑا حصہ ان کی لائبریری پر مشتمل تھا۔ کوٹھی کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد لان پار کرکے اندر جانے کا ایک راستہ سیدھے لائبریری میں کھلتا تھا جس میں دونوں طرف کتابوں کی الماریاں تھیں۔ الماریوں کے اوپر بھی کتابیں تھیں۔ درمیان میں کانفرنس روم کے طرز کی لمبی میز تھی جس کے دونوں طرف کرسیاں تھیں۔

کمرے کے ایک کونے پر فاروقی صاحب کے مطالعے کی وہ میز جس پر کمپیوٹر نے جگہ بنالی تھی، ہے اور دوسری طرف ایک صوفہ۔ میں ہمیشہ اسی دروازے سے ان کے گھر میں داخل ہوا اور اکثر لائبریری میں بیٹھا رہتا۔ مجھے اوپر کی منزل پر جو لائبریری ہے اس کا صحیح اندازہ نہیں مگر سنا ہے کہ جیسی لائبریری نیچے ہے ویسی ہی اوپر بھی ہے۔ نیچے کی منزل میں، جس کمرے میں بھی جانے کا مجھے اتفاق ہوا، اس میں بھی ہر طرف کتابیں ہی ہوتی تھیں۔

کوٹھی کی یہ زمین الٰہ آباد کے پہلے ایڈمنسٹریٹر (یہ ایک مخصوص عہدہ تھا جو کچھ برسوں بعد ختم ہوگیا) سید حامد کے دور میں انھوں نے خریدی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ سرکاری زمین تھی مگر اس وقت وہاں آبادی نہ تھی۔ اس زمانے میں پکی سڑک جہاں بھی ہوگی، وہاں سے فاروقی صاحب کی درخواست پر ان کی کوٹھی تک سڑک کی تعمیر اور سڑک پر بجلی کے کھمبے محمود بٹ (جو سلمان رُشدی کے ماموں تھے) کے زمانے میں ان کے ایک آرڈر پر چند دن میں لگ گئے تھے۔ محمود بٹ کے ایڈمنسٹریٹر کے زمانے کو الٰہ آباد کے لوگ اب بھی یاد کرتے ہیں۔ بٹ کا دو لائن کا وہ آرڈر جو سڑک کی تعمیر اور بس وہیں تک بجلی کے کھمبوں کے نصب ہونے سے متعلق تھا، جہاں فاروقی صاحب کوٹھی بنا رہے تھے، فاروقی صاحب کو زبانی یاد تھا۔

میرے الٰہ آباد کے اس مسلسل سفر میں فاروقی صاحب سے ہونے والی ملاقاتوں کا حاصل یہ ہے کہ میں نے انھیں ان مضامین کی فہرست تیار کرنے پر آمادہ کرلیا تھا، جو شائع نہیں ہوئے تھے۔ ان مضامین میں بڑی تعداد انگریزی تحریروں کی تھی جن میں اکثریت غالب اور عہدِ غالب سے متعلق تھی۔ میں جن مضامین کی بات کررہا ہوں، وہ سب ان کے موجودہ کمپیوٹر میں ہیں۔ اس کے علاوہ ای میل اور یو ایس بی میں جو ہوں گے، وہ الگ ہیں، اور وہ بھی بہت ہوں گے۔

انھوں نے کوئی بیس برس پہلے تمام کام کمپیوٹر پر ہی کرنا شروع کیا تھا، اس لیے، یہ تحریریں گزشتہ بیس برس کی ہیں۔ انھوں نے ایک سے زیادہ ای میل آئی ڈیز ان بیس برسوں میں استعمال کیں، اس لیے، دونوں یا تینوں ای میل آئی ڈیز کو غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان تحریروں میں ایک مکمل مقالہ وہ ہے جو انھوں نے کیمبرج یونی ورسٹی کی دعوت پر لکھا تھا مگر بعد میں یونی ورسٹی کے خسیس رویے کی وجہ سے انھوں نے کیمبرج جانے سے انکار کردیا تھا، اس لیے وہ کہیں شائع نہیں ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ میں نے انھیں اردو میں نامکمل تحریروں کی فہرست تیار کرنے کے لیے بھی راضی کرلیا۔

جب یہ فہرست بنی تو ہوش اُڑ گئے۔ مختلف اوقات میں لکھی گئی تقریباً بیس ایسی اردو تحریریں نکل آئیں جو غالب سے متعلق تھیں۔ انگریزی تحریروں کی تعداد جیساکہ عرض کیا گیا، اس سے بھی زیادہ تھی۔ انگریزی تحریروں کا متن سنگل اسپیس میں تین سو صفحات کے قریب تھا، اور یہ فہرست کسی بھی طرح اس لیے مکمل نہیں کہی جاسکتی کہ ہر فائل اور ہر فولڈر کو کھول کر دیکھنے کے بعد اس میں قابلِ ذکر اضافہ یقینی ہے۔

اردو تحریروں میں قومی اردو کونسل کے اردو انسائیکلوپیڈیا کے لیے فاروقی صاحب کے ہاتھ کے لکھے ہوئے 149 صفحات کی وہ تحریر بھی ہے جو اردو زبان کی تاریخ سے متعلق ہے، اور جس کے مندرجات ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ سے قطعی مختلف اس لیے ہیں کہ جو وہ ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ میں لکھ چکے تھے، اس کی تکرار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یہ پروجیکٹ قومی اردو کونسل نے اس وقت شروع کیا تھا جب وہ اس کے نائب صدر تھے، اور ان کی مدت ختم ہونے کے بعد غالباً یہ پروجیکٹ بھی بند ہوگیا۔

پھر معلوم ہوا کہ اس درمیان میں ایسی بہت سی چھوٹی بڑی تحریریں بھی ہیں جو کمپیوٹر پر اردو میں لکھی گئیں مگر اِن پیج کے مختلف ورژن اتنے پیچیدہ ہیں کہ انھیں کسی ایک ورژن میں منتقل کرنا مشکل ہے، وہ ان کے علاوہ ہیں۔ اُردو تحریروں کے بارے میں طے ہوا کہ نوشاد کامران کی مدد سے انھیں یکجا کرکے انجمن سے شائع کیا جائے گا۔ نوشاد نے الٰہ آباد یونی ورسٹی سے ہی اردو میں پی ایچ ڈی کی ہے، اور انھیں فاروقی صاحب کے یہاں نیاز حاصل تھا۔

فاروقی صاحب نے وہ لغت جس پر وہ کام کر رہے تھے، اس کو بھی اِن پیج کے کسی ایسے ورژن میں ٹائپ کیا تھا کہ وہ صرف اسی کمپیوٹر پر کھل سکتا تھا جس میں اِن پیج کا وہ مخصوص ورژن ہو جو کافی مہنگا ہے اور دہلی میں کسی کے پاس نہیں۔ یہ انھیں پاکستان سے کسی نے بھیجا تھا۔

انجمن میں خاص طور پر یہ ورژن خریدا گیا اور طے ہوا کہ انجمن کے ایک ماہر عبدالرشید صاحب کچھ دن الٰہ آباد جاکر رہیں تاکہ یہ کام ایک ہی ورژن میں منتقل ہوجائے اور انجمن اسے شائع کردے۔ یہ کتاب انھوں نے انجمن کو بھیجی تھی مگر جب فائل نہ کھل سکی تب جاکر یہ عقدہ کھلا کہ اِن پیج کے مختلف ورژن میں ان کی بہت سی نامکمل تحریریں ان کے کمپیوٹر میں ہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ رشید صاحب الٰہ آباد جاتے اچانک مارچ 2020 میں لاک ڈاؤن ہوگیا۔

’اردو ادب‘ کا اپریل تا جون 2020  کا جو شمارہ شائع ہوا، اس میں تمام تر احتیاط کے باوجود کئی ایسی چیزیں شائع ہوگئیں جو فاروقی صاحب کے لیے تکلیف کا سبب بنیں۔ میں اس کی کوشش کرتا تھا کہ ایسا کچھ نہ ہو جس سے انھیں تکلیف پہنچے مگر پھر بھی کبھی کبھی کچھ ایسا ضرور اس لیے ہوجاتا تھا کہ میں فاروقی صاحب کے طویل ادبی سفر سے اس طرح واقف نہ تھا کہ مجھے ان تمام مباحث کا علم ہو جو ’شب خون‘ کے زمانے میں یا ’شب خون‘ یا پھر خود فاروقی صاحب کی ذات کی وجہ سے تلخی کے دائرے میں آتے تھے۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ مدیر کے طور پر کئی ایسی چیزیں شائع کرنا بھی میری مجبوری ہوجاتی تھی جن کی عدمِ اشاعت مجھے لگتا تھا کہ مناسب نہیں۔ اپریل سے جون کے ’اردو ادب‘ کے شمارے میں شائع جن تحریروں نے فاروقی صاحب کی طبیعت کو مکدر کیا، ان میں دو تحریریں دو ایسے لکھنے والوں کی تھیں جن سے ماضی میں فاروقی صاحب ناراض رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ میں ان تنازعات سے واقف نہ تھا۔ ایک اور مصنف پر ان کے سخت اعتراض کی وجہ اپنی کم علمی کی وجہ سے میری سمجھ میں نہ آئی تھی۔

ایسی ہی ایک تحریر کچھ وقت پہلے ڈاکٹر جاوید رحمانی جو آسام کی ایک یونی ورسٹی میں اردو کے استاد ہیں، کی تھی جو انھوں نے ’اردو ادب‘ ]اکتوبر تا دسمبر 2018 – جنوری تا مارچ 2019[ کے لیے ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ سے متعلق میری تحریر کے حوالے سے لکھی تھی۔ جاوید رحمانی صاحب کو ایسی علمی شرارتیں کرنے کا شوق ہے جو بدتہذیبی کے دائرے میں تو داخل نہیں ہوتیں مگر لوگ اکثر ان سے پریشان ہوجاتے ہیں۔

فاروقی صاحب کی جاوید رحمانی سے ناراضگی بھی دیر تک کبھی نہیں رہی، اس لیے، جب میں نے وہ تحریر فاروقی صاحب کو اس درخواست کے ساتھ بھیجی کہ وہ اس پر اپنا ردِّعمل بھیج دیں تو جاوید رحمانی اور پروفیسر مرزا خلیل بیگ کی تحریر کے ساتھ اسے شائع کر دیا جائے۔ پروفیسر بیگ کا ردِّعمل بھی میرے مضمون ]مطبوعہ سہ ماہی ’اردو ادب‘، جولائی تا ستمبر 2018[ پر تھا مگر اصل میں وہ بھی ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ سے متعلق تھا۔ میری درخواست پر فاروقی صاحب نے اپنا ردِّعمل لکھ دیا تھا جسے ان دونوں تحریروں کے ساتھ ’اردو ادب‘ ]اکتوبر تا دسمبر 2018 – جنوری تا مارچ 2019[ کے شمارے میں شائع کردیا گیا۔

اپریل-جون 2020 کے ’اردو ادب‘ کے شمارے کی اشاعت کے بعد مجھے یہی مناسب لگا کہ کچھ روز خاموش رہا جائے۔ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد میں الٰہ آباد گیا تو سوچا کہ میں فاروقی صاحب کو فون کرکے یہ بتا ضرور دوں کہ میں الٰہ آباد میں ہوں مگر اس موذی وبائی بیماری کی وجہ سے میں ان سے ملنے سے پرہیز ہی کروں گا۔ اُن دنوں وہ خود بھی احتیاط کر رہے تھے۔ پھر میں نے انھیں ایک ای میل لکھ کر پہلی دفعہ کسی کتاب پر مضمون لکھنے کی فرمائش کی۔

یہ وِنود کمار ترپاٹھی بشر کا دوسرا شعری مجموعہ تھا۔ پہلا مجموعہ جو انجمن سے شائع ہوا، فاروقی صاحب نے اسے دیکھا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ترپاٹھی صاحب کے یہاں بیان کی ندرت تو بہت ہے لیکن وہ اگر اردو عروض کا بھی کچھ مطالعہ کرلیں تو اچھا ہے۔ دوسرے مجموعے میں میری معلومات کی حد تک کوئی عروضی خامی نہ تھی۔ شامت تو مگر میری پھر بھی آنی ہی تھی۔ اب فاروقی صاحب اس طرح کے ای میل لکھنے کا برا مان گئے، اور فون کرکے پھر ڈانٹا اور کہا کہ جب وہ دہلی آئیں تو مسودہ لے کر میں خود حاضر ہوجاؤں، اور اسی سفر میں وہ کتاب پر مضمون لکھ دیں گے۔

میں دہلی آیا اور آتے ہی بخار کی زد میں آگیا۔ بخار تھا کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ مجھے خوف ہوا کہ کوئی مصیبت تو نہیں آنے والی ہے۔ فاروقی صاحب دہلی میں تھے، اور میں ایک کے بعد دوسرا ٹیسٹ کرا رہا تھا۔ اور لوگوں سے ملنے میں ہرممکن پرہیز بغیر کسی کو یہ بتائے کہ میں طویل عرصے سے بخار میں مبتلا ہوں، اس لیے بھی کر رہا تھا کہ جب ڈاکٹروں کو وجہ سمجھ میں نہیں آرہی تو پھر مزاج پرسی کرنے والوں کے کیا آئے گی۔ فاروقی صاحب کو یہ سب مگر علم تھا۔ انھوں نے اس بخار کو جگر کی حدت سے تعبیر کیا، اور حکیم پروفیسر سیّد ظل الرحمن صاحب مدظلہٗ سے مشورے پر زور دیا، اور میں نے حکیم صاحب کی تجویز کردہ ادویات کچھ روز کھائیں۔ پھر جگر کے ہی ایک فزیشین کو دکھایا۔

٭٭٭

فاروقی صاحب کا فون آیا کہ میں کل واپس الٰہ آباد جارہا ہوں، اور مجھے ہلکا بخار ہے، اور اگلی دفعہ جب وہ دہلی آئیں گے تب ترپاٹھی صاحب کی کتاب پر لکھ دیں گے۔ دو تین روز بعد پتا چلا کہ وہ کووڈ میں مبتلا ہیں، اور آئی سی یو میں ہیں۔ اچانک آئی سی یو سے ان کا فون آیا کہ تم چپ چاپ آکر مجھے یہاں سے نکال کر لے جاؤ۔ یہاں بہت برا حال ہے۔ تب تک میرا بخار تو اتر گیا تھا جس کی وجہ کسی ڈاکٹر کی سمجھ میں نہ آئی مگر نقاہت بہت تھی۔ کووڈ کے ٹیسٹ میں نے ایک دفعہ سے زیادہ بار کرائے جن میں کچھ نہ نکلا۔

میں اس قسم کی جرأت فاروقی صاحب کے معاملے میں نہ کرسکتا تھا کہ انھیں ’اسپتال سے‘ اور وہ بھی آئی سی یو سے ڈسچارج کرالاؤں۔ ان کا بہت خیال کرنے والے جاں نثار افرادِ خانہ ان کا دہلی میں ہر طرح خیال کریں گے، اور اس صورت میں کوئی تدبیر ضرور نکال لیں گے، یہ مجھے یقین تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ شاید ڈاکٹر کے مشورے کے خلاف اسپتال کے بدترین حالات کی وجہ سے انھوں نے گھر پر ہی علاج کرانے کو ترجیح دی۔ میں نے اس وقت فوراً اس واقعے کا ذکر کسی سے نہ کیا مگر بعد میں ان کی بیٹی باراں فاروقی صاحبہ کو یہ بات بتا دی تھی۔

بعد میں باراں صاحبہ نے فاروقی صاحب سے ایک دن میری فون پر بات کرائی۔ وہ ہوش میں آگئے تھے، اور مجھ سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پھر آہستہ آواز میں بتایا کہ ان کا ایک افسانہ کہیں شائع ہوگیا ہے۔ انھیں بہ خوبی یاد تھا کہ میں نے آئی سی یو سے انھیں ڈسچارج نہیں کرایا۔ نقاہت کے ساتھ مگر ہنستے ہوئے بس اتنا کہا کہ تم نے ریاکاری کی ہے۔

’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ پر میرا انگریزی مضمون وہ دیکھ چکے تھے اور اس کو شائع شدہ شکل میں دیکھنے کے خواہاں تھے۔ جب باراں صاحبہ نے میری بات کرائی تو میں نے انھیں مضمون کی اشاعت کے بارے میں بتایا تو خوش ہوئے اور کہا رسالہ بھیجو۔

مجھے ان کی حالت کا اندازہ تھا مگر اُن کے ذہن کی اس قوت پر ایک مرتبہ پھر رشک آیا کہ وہ کیسی غیرمعمولی ہے، اور اس سے زیادہ اس پر تعجب ہوا کہ علم کس طرح ان کی زندگی کا واحد محور و مرکز ہے۔ ہفت روزہ ’ہماری زبان‘ میں بھی ایک مضمون وزیر خانم جو ’کئی چاند تھے سرِِ آسماں‘ کا مرکزی کردار ہے، صفحہ اوّل پر شائع ہوا تھا، وہ بھی IIC Quaterly کے ساتھ— جہاں میرے مضمون کا انگریزی قالب سہ ماہی Summer-Autumn, 2020 کے مشترکہ شمارے میں شائع ہوا تھا— میں نے انھیں بھجوا دیا۔ ان کی صحت کی خبریں نکھل کمار سے اس لیے لیتا رہا کہ اس حالت میں ان کے گھر والوں کو پریشان کرنا اچھا نہیں لگا۔

گزشتہ 25 دسمبر کی صبح میں اپنے ڈاکٹر کے کلینک میں تھا کہ اچانک کسی اخبار نے فون کرکے مجھ سے اس خبر کی تصدیق کرنے کو کہا کہ فاروقی صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ پھر اس کے بعد ایک دوست نے بمبئی سے یہی سوال کیا۔ میں نے پھر نکھل کمار کو زحمت دی۔ انھوں نے جب اس خبر کی تصدیق کی تو پھر میں نے محمود فاروقی صاحب کو ٹیکسٹ کرکے تدفین کا وقت پوچھا جس کا اس مشکل وقت میں بھی انھوں نے جواب دیا۔ نکھل کمار کا خیال تھا کہ ہم الٰہ آباد چلیں۔ تدفین کا وقت شام 6 بجے طے تھا، اور اس وقت تقریباً بارہ بج رہے تھے، فلائٹ اگلے دن سے پہلے نہ تھی، ٹرین بھی کم سے کم آٹھ گھنٹے لیتی، اور تدفین شام کے چھے بجے تھی یعنی ان کے آخری دیدار کی کوئی صورت نہ تھی۔

٭٭٭

میری درخواست پر فاروقی صاحب نے چشتیہ سلسلے پر میرے ایک مختصر نوٹ جو مشکل سے دو سو الفاظ کا ہوگا، کے علاوہ انگریزی میں کلامِ موزوں پر بھی میرے ایک نوٹ کی تصحیح کی تھی۔ مجھے اس سوال کا جواب کوئی اور نہیں دے سکا تھا کہ انگریزی شاعری میں کسی کلام کے موزوں ہونے کا معیار کیا ہے۔ اس پر کئی دفعہ میں نے فاروقی صاحب سے بات کی۔ ایک دن کہنے لگے کہ اب بات تو تمھاری سمجھ میں آگئی ہے لیکن اگر اسے لکھ کر مجھے بھیج دو تو میں دیکھ لوں گا، اور یہ تحریر تمھارے کام آئے گی۔

مادہ تاریخ سے متعلق بھی جب دہلی کی کتابوں کے ترجمے کا کام شروع کیا، تو میرے انگریزی میں لکھے نوٹ کی انھوں نے اصلاح کی۔ یہ بھی دو تین پیراگراف ہی تھے۔ اسی طرح Canonisation سے متعلق بھی ان سے کئی دفعہ بات ہوئی تو کہنے لگے اس پر ایک سیمینار اس طرح کرلو کہ تاریخ نویسی موضوع ہو جو انجمن نے مارچ 2019 میں کیا۔

انجمن کا یہی وہ اکیلا جلسہ تھا جس میں اپنی خرابیِ صحت کی وجہ سے فاروقی صاحب شرکت نہ کرسکے تھے۔ ’اردو تاریخ نویسی اور معیاری بندی کا تصور‘ کے موضوع پر پانچ ہزار الفاظ کے مضمون کو انھوں نے کاٹ کر 1200 الفاظ تک میں The Canon of Language تک اس لیے محدود کردیا کہ اردو تاریخ نویسی کے باب میں جو کچھ میں نے لکھا تھا، اس سے انھیں سخت اختلاف تھا مثلاً دکنی کو قدیم اردو کہنا وغیرہ۔ میں دکنی کو ایک مستقل بالذات زبان تصور کرتا ہوں نہ کہ اردو کی قدیم شکل۔

بہرحال، یہ ایک پیچیدہ بحث ہے جو اب شاید کبھی اس لیے نہ ہوسکے گی کہ اردو ایسا عالم تو اب پیدا نہ کرسکے گی جو اس بحث کو آگے بڑھائے۔ یہ نوٹ شاید لاک ڈاؤن میں ہی انھوں نے مجھے بھیجا تھا۔ ’بزمِ آخر‘ کا ایک انگریزی ترجمہ مجھے بہت خراب لگا۔ جب فاروقی صاحب کے ایما پر میں خود اس کا ترجمہ کرنے بیٹھا تو پسینے آگئے۔ بڑی مشکل سے یہ کام مکمل ہوا جس کی سند میں نے بیدار بخت سے لی کہ وہی ایک دلّی والے اب ایسے بچے ہیں جو اس نوعیت کے انگریزی متن کی اصلاح کرسکتے تھے، اور میری ان تک رسائی تھی۔

یہ متن بیدار صاحب کے دیکھنے کے بعد میں نے فاروقی صاحب کو بھیجا۔ انھوں نے متن دیکھا تو پورااس لیے ہوگا کہ اس کے بغیر وہ واپس نہ کرتے مگر کہیں قلم نہیں لگایا تھا، البتہ مترجم کے نوٹ میں انھوں نے حاشیے پر اپنے مشورے درج کیے تھے۔ اس احتیاط کی ایک اور وجہ بھی ہوسکتی ہے جسے اس موقع پر زیرِبحث لانا مناسب نہیں۔ میرے ایک اور مضمون کے مندرجات سے انھیں چوں کہ سخت اختلاف تھا، اس لیے، اس پر بھی بات کرنے کا یہ موقع نہیں۔

افسوس کہ میرا نہ تو کوئی علمی کام ہے، اور نہ ہی کسی علمی کام کا کوئی منصوبہ میرے پیشِ نظر ہے، اس لیے، میں ان کے علم سے کچھ زیادہ فائدہ نہ اٹھا سکا۔ اوپر جن تحریروں پر اصلاح کا ذکر کیا، وہ کسی بھی طرح تین چار ہزار الفاظ سے زیادہ نہ ہوں گے۔ اپنی کسی اردو تحریر پر ان سے اصلاح کرانے کا شرف مجھے حاصل نہیں ہوا مگر جب بھی کوئی الجھن ہوتی تو بلاتکلف فون کرکے پوچھ لیتا۔

’شب خون‘ کے ہر شمارے میں الفاظ کی تعداد کم سے کم 50-60 ہزار ہوتی ہوگی، اور اردو کا کوئی لکھنے والا چار پانچ ہزار الفاظ سے کم الفاظ کا مضمون لکھنا گناہ سمجھتا ہے۔ ’شب خون‘ میں چھپنے والی اکثر تحریروں کو وہ تقریباً نئے سرے سے ہی لکھتے تھے۔ اس اعتبار سے انھوں نے ہزاروں لوگوں کے لاکھوں الفاظ اور اس سے بھی زیادہ اشعار کی اصلاح کی ہوگی۔

160891079

فاروقی صاحب سے جن موضوعات پر اکثر میری بات ہوتی تھی، ان میں مذہب اس لیے اہم تھا کہ ہم سب کی زندگی میں اس کی مرکزی اہمیت ہے۔ مذہب کی منفی اہمیت بھی مرکزی ہی ہے۔ فاروقی صاحب نے مذاہب کا اور خصوصاً اسلام کا براہِ راست مطالعہ بھی بہت کیا تھا، اور مذاہب کے اسرار ان پر منکشف نہ ہوئے ہوں اس کا سوال نہیں اٹھتا مگر مذہب کے حساس معاملات پر ایک حد کے بعد گفتگو مناسب نہیں۔ فاروقی صاحب کے مذہبی نظریات کے باب میں جتنا مجھے معلوم ہے یا جو لکھا جاسکتا ہے وہ یہ کہ وہ اقبال کی طرح حنفی المسلک مگر غیر مقلد تھے، اور مجتہد کی منزل سے بہت آگے۔ موت مذہب کے دائرے کے باہر بھی ایک حقیقت ہے خواہ اس کا نام کچھ بھی ہو۔

٭٭٭

سال2017 میں اسلم پرویز صاحب کی کتاب بہادر شاہ ظفر کے انگریزی ترجمے کی اشاعت کے بعد فاروقی صاحب ہی نے مجھے دہلی سے متعلق کتابوں کے ترجمے کی تحریک دی۔ ان کی آنکھوں کا حال بھی بہت خراب تھا۔ اس لیے میں اس نوعیت کی تمام تحریریں جو کسی کی بھی ہوں، اور ان پر فاروقی صاحب کی رائے لینی مقصود ہو، 20 فونٹ سائز میں 2.5 اسپیس کے ساتھ متن کا پرنٹ آؤٹ اور ہمیشہ وہی مواد یو ایس بی میں انھیں بھیجتا جسے وہ عام طور پر ای میل کے ذریعے واپس کردیتے تھے۔ عام طور پر انگریزی میں ان کی اصلاح اس نوعیت کی ہوتی کہ وہ MS Word میں دوسرے رنگ سے اسے کرتے تاکہ اس کی نشان دہی میں آسانی ہو۔ Track Change Mode کو انھوں نے ان تحریروں میں جو مجھے بھیجیں، کبھی استعمال نہیں کیا۔

٭٭٭

بعد میں کسی نے ان کی تدفین کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی مگر نکھل کمار نے محمود فاروقی صاحب کا جو ٹیکسٹ میسج مجھے بھیجا اس تحریر کے اختتام کے لیے اس سے بہترالفاظ نہیں ہوسکتے:

S R Faruqi will be laid to rest at 6 pm on Friday 25th December at the Ashok Nagar Navada Qabristan next to his beloved Jamila

            یہ ایک ہی نشست میں قلم برداشتہ لکھے ہوئے چند صفحات ہیں جن کی حیثیت ایک نیازمند کے نذرانہ عقیدت سے زیادہ کچھ نہیں۔

(اطہر فاروقی ، انجمن ترقی اردو (ہند) کے جنرل سکریٹری اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔)