خبریں

آسام: ڈیڑھ سال تک ڈٹینشن سینٹر میں رکھے جانے کے بعد محمد نور حسین اور ان کی فیملی کو ہندوستانی قرار دیا گیا

گوہاٹی میں ایک رکشہ ڈرائیور کو ان کی اہلیہ اور بچوں سمیت جون 2019 میں غیر قانونی شہری  بتاتے ہوئے ڈٹینشن سینٹر میں بھیج دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کےایک وکیل کی عرضی پر ہائی کورٹ نے اس آرڈر کو خارج کرتے ہوئے معاملے کی پھرشنوائی کرنے کو کہا، جس کے بعد دونوں کوہندوستانی قراردیا گیا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/د ی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/د ی وائر)

نئی دہلی: تقریباً ڈیڑھ سال تک ‘غیرقانونی شہری ’کے طورپر ڈٹینشن سینٹر میں رکھنے کے بعد آسام کے محمد نور حسین اور ان کی فیملی  کو اب ہندوستانی قراردیا گیا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 34 سالہ  حسین، ان کی بیوی سہیرہ  بیگم (26) اور ان کے دو نابالغ بچوں کو فارنرس ٹربیونل (ایف ٹی)نے ہندوستانی ٹھہرایا ہے۔

محمد نور حسین آسام میں ادالگری ضلع کے لاڈانگ گاؤں کے رہنے والے ہیں اور گوہاٹی میں رکشہ چلاتے ہیں۔انہوں نے کہا، ‘ہمیں فخر ہے کہ ہم ہندوستانی ہیں۔ ہم آسام کے ہیں۔ انہوں نے ہم پر بنگلہ دیشی ہونے کا غلط الزام  لگایا تھا اور کہا تھا کہ ہم غیرقانونی ڈھنگ سے بارڈر پار کرکے آئے ہیں۔ یہ کیسے ممکن  ہو سکتا ہے؟ میں یہاں پیدا ہوا تھا۔’

حسین کے دادااور دادی کا نام 1951 کے این آرسی میں تھا، ان کے والداور دادا اور دادی کا نام 1965 کے ووٹرلسٹ میں بھی تھا۔وہیں بیگم کے بھی والدکا نام 1951 کے این آرسی اور 1966 کے ووٹر لسٹ میں تھا۔ فیملی کے 1958-59 سے زمین کے کاغذات ہیں۔ آسام میں ہندوستانی شہریت کی  پہچان کے لیے کٹ آف تاریخ 24 مارچ 1971 ہے۔

حالانکہ ان سب کے باوجود گوہاٹی پولیس نے حسین اور بیگم کی شہریت  پر یقین نہیں کیا اور سال 2017 میں اسے لےکر جانچ شروع کی۔حسین نے بتایا کہ وہ دونوں ہی اتنے پڑھے لکھے نہیں ہیں کہ دستاویز کو سمجھ سکیں اور آگے کی کارروائی کامنصوبہ بنا سکیں۔ ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وکیل کا انتظام کر سکیں۔

حسین نے کسی طرح ایک وکیل کو 4000 روپے دیا، وہیں ان کی اہلیہ  بناوکیل کے ٹربیونل میں پیش ہوئیں۔متاثرہ فیملی  کی پریشانیاں یہیں ختم  نہیں ہوئیں، حسین کے وکیل نے 28 اگست 2018 کو کیس چھوڑ دیا، جس کی وجہ سے انہیں فارنرس ٹربیونل میں کئی ساری شنوائی نہیں مل پائی۔

وکیل نے کہا کہ پولیس سے بچنے کے لیے وہ گوہاٹی چھوڑکر بھاگ جائیں، لیکن حسین نے ایسا نہیں کیا۔بعد میں ٹربیونل نے دونوں کو غیرملکی قرار  دیا اور جون 2019 میں انہیں گرفتار کر گوآلپاڑا کے ڈٹینشن سینٹر میں بھیج دیا گیا۔

بیگم نے بتایا کہ چونکہ ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے کوئی نہیں تھا، اس لیےانہیں اپنے بچوں (7 اور 5 سال) کو بھی اپنے ساتھ ڈٹینشن سینٹر لے جانا پڑا۔

بعد میں کچھ رشتہ داروں  کی گزارش پر گجرات کے انسانی حقوق کےوکیل امن ودود اس کیس کو گوہاٹی ہائی کورٹ لے گئے، جہاں عدالت نے ایف ٹی کے آرڈر کو خارج کر دیا اور پھر سے اس کیس کی شنوائی کرنے کو کہا۔ودود نے کہا کہ بہت سارے لوگ اس لیے بھی ‘غیرملکی’ ٹھہرائے جا رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس وکیل کی فیس بھرنے کے پیسے نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ کیس نہیں لڑ پاتے ہیں۔