خبریں

یوپی: بریلی پولیس نے کہا جبراً تبدیلی مذہب کےمعاملے میں مسلم نوجوانوں کو پھنسایا گیا

معاملہ بریلی ضلع کا ہے، جہاں پہلی جنوری کوایک24 سالہ خاتو ن  پر جبراًتبدیلی مذہب  کا دباؤ ڈالنے کے الزام  میں تین مسلم نوجوانوں  پر معاملہ درج کیا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جانچ میں تینوں نوجوانوں  پر لگائے گئے الزام غلط پائے گئے ہیں۔

(علامتی  تصویر،فوٹو: پی ٹی آئی)

(علامتی  تصویر،فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: اتر پردیش کی بریلی پولیس کا کہنا ہے کہ ایک 24 سالہ خاتون پر جبراًمذہب تبدیل کرانے کا دباؤ ڈالنے کے تین ملزم  مسلم نوجوانوں  کو غلط طریقے سے پھنسایا گیا۔تینوں مسلم نوجوانوں  کے خلاف ایک جنوری کو معاملہ درج کیا گیا تھا۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس روہت سنگھ سجوان نے اتوار کو بتایا کہ جانچ میں لڑکی  پر تبدیلی مذہب  کا دباؤ بنانے کا الزا م صحیح  نہیں پایا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لڑکی  نے ایک جنوری کو اپنی شکایت میں الزام  لگایا تھا کہ بریلی سے فریدپور آنے کے دوران نوگانوا موڑ پر ابرار، اس کے بھائی میسور اور ارشاد نے اس کواسکوٹی سے کھینچنے اورمذہب بدل کر نکاح کرنے کا دباؤ بنایا۔ تحریر میں یہ واقعہ  ایک دسمبر، 2020 کا بتایا گیا ہے۔

ایس ایس پی کے مطابق، شکایت معاملے کے ایک مہینے بعد درج کرائی گئی تھی، اس لیے پولیس کو شک ہوا اور جانچ میں لگائے گئے الزامات  کے کئی حقائق غلط ملے۔انہوں نے کہا کہ ایک دسمبر کو مبینہ واقعہ  کے دن ملزمین  کے موقع پر ہونے کے ثبوت  نہیں ملے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘حالانکہ پولیس کو پتہ چلا ہے کہ ملزم اس دن موقع پر نہیں تھے۔ پولیس کے ذریعےاکٹھا کئے گئے شواہد کے مطابق خاتون اور اس کےرشتہ داروں کے ذریعے تینوں ملزمین  پر لگائے گئے الزام  غلط ہیں اور اس معاملے کو قانون کے اہتماموں  کے مطابق خارج کیا جائےگا۔’

سجوان نے بتایا،‘نو ستمبر 2020 کو خاتون  ابرار نام کے نوجوان  کے ساتھ گھر سے نکلی تھی۔ اس کے بعد فریدپور پولیس تھانے میں اغوا کی شکایت درج کرائی گئی۔ خاتون  ابرار کے ساتھ لگ بھگ پندرہ دنوں تک دہلی کے تغلق آباد میں رہی اور پھر گھر لوٹ آئی اور جانچ میں اس کے بالغ (24 سال)ہونے کی تصدیق  ہوئی تھی۔’

پولیس کے مطابق، لڑکی  کے والدین  نہیں ہیں اور وہ اپنے ماموں  کے پاس رہتی ہے۔واقعہ  کے بعد اس کی شادی 11 دسمبر کو آنولاعلاقے  میں کر دی گئی۔انہوں نے کہا کہ حالانکہ ابرار پرخاتون  کے سسرال میں اسے دھمکائے جانے کے الزامات  کی جانچ کی جا رہی ہے۔

پولیس نے بتایا کہ الزام  ہے کہ کچھ دن پہلے لڑکی  کے سسرال جاکر ابرار نے اسے دھمکایا اور اسے جلد فریدپور آنے کو کہا اور ایسا نہ کرنے پر خمیازہ  بھگتنے کی دھمکی دی۔ اس الزام  کی جانچ کی جا رہی ہے اور اگر الزام  صحیح  پائے گئے تو ابرار کے خلاف کارروائی شروع کی جائےگی۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی جانب سے نومبر 2020 میں بل  کے ذریعے نافذ کیے گئے نئے قانون سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس کا استعمال مسلمانوں کو نشانہ  بنانے کے لیے کیا جائےگا۔

بتا دیں کہ گزشتہ 24 نومبر کو اتر پردیش سرکار ‘لو جہاد’ کو روکنے کے لیے شادی کے لیےتبدیلی مذہب پر لگام لگانے کے لیے‘قانون’لے آئی تھی۔اس میں شادی کے لیے فریب، لالچ دینے یا جبراً تبدیلی مذہب کرائے جانے پر مختلف اہتماموں کے تحت زیادہ سے زیادہ 10سال کی سزا اور 50 ہزار تک جرما نے کا اہتمام  ہے۔

اتر پردیش پہلی  ایسی  ریاست ہے، جہاں مبینہ  لو جہاد کو لےکر اس طرح کا قانون لایا گیا ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)