فکر و نظر

نیو انڈیا میں ریڈیکلائزیشن یعنی روز مرہ کی دہشت گردی

ہندوستان  میں ایک نیا ریڈیکلائزیشن شکل لے چکا ہے۔ اس کو روزمرہ کی دہشت گردی کہہ سکتے ہیں۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس کو’اسلامی دہشت گردی’کے برعکس ہندوؤں میں وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

‘ہندوستان  کے مسلمانوں میں دنیا کے مسلمانوں کے مقابلے انتہا پسندی کم ہے۔ اس لیےہندوستان میں آئی ایس آئی ایس جیسی دہشت گرد تنظیم کا خطرہ نہیں۔’

سال2014 کے بعد جو سرکار بنی تھی اس کے وزیر داخلہ  راجناتھ سنگھ نے 11 نومبر، 2017 کو یہ بیان دیاتھا۔اس کے ایک سال بعد ہندوستان ٹائمس کے ایک پروگرام میں ہندوستانی مسلمانوں کو شاباشی دیتے ہوئے انہوں نے کہاتھا کہ برین واش کی تمام کوششوں کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں نے ریڈیکلائزیشن نہیں ہونے دیا ہے۔

ریڈیکلائزیشن لفظ  کا ٹھیک ٹھیک ہندی ترجمہ نہیں ہے۔ اسے انتہا پسندی اور دہشت گردی، دونوں سے ہی جوڑکر دیکھا جاتا رہا ہے۔دونوں ہی رجحان فطری طور پر مسلمانوں سے جوڑ دیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایک فیاض گارجین کی طرح وزیر داخلہ جب مسلمانوں کو کیریکٹرسرٹیفکیٹ دے رہے ہوں، تو کسی اخبار، کسی ٹی وی چینل کو اسے ہوبہو رپورٹ کرنا بھی فطری ہی لگتا ہے۔

لیکن جس مطلب میں ریڈیکلائزیشن لفظ کا استعمال کیا جاتا رہا ہے، اسے دھیان میں رکھتے ہوئے ایمانداری یہ ہوتی کہ ہندوستان کے وزیر داخلہ، اگر وہ ہندوستان کے وزیرداخلہ تھے تو یہ قبول کرتے کہ ہندوستان میں واقعات اور اعدادوشمار کے حساب سے کہا جا سکتا ہے کہ ریڈیکلائزیشن دراصل ہندوؤں کا ہو رہا ہے۔ اور یہ ریڈیکلائزیشن بھی خاص طرح کا ہے۔

ریڈیکلائز ہوئے ہندو کسی انڈرگراؤنڈ، غیر قانونی تنظیم کی رکنیت لےکر گھر سے بھاگ نہیں نکلتے ہیں۔ وہ کہیں غائب نہیں ہو جاتے ہیں۔ وہ عام زندگی بسرکرتے ہوئے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں کھلے عام شامل رہتے ہیں۔انہیں کسی ایک دہشت گردانہ  کارروائی میں حصہ لےکر پولیس اور فوج سے بچنا نہیں پڑتا کیونکہ وہ ان کی حفاظت اور نگرانی میں دہشت گردانہ  کارروائی کو انجام دیتے ہیں۔

ہندوستان  میں ایک نیا ریڈیکلائزیشن شکل لے چکا ہے۔ اسے روزمرہ کی دہشت گردی کہہ سکتے ہیں۔ اس کی دوسری خاصیت یہ ہے کہ اس کو‘’اسلامی دہشت گردی’کے برعکس ہندوؤں میں وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔

اس میں گھر اورمحلے کے نوجوان شامل ہوتے ہیں جو ‘ایکشن’ میں حصہ لیتے ہیں۔ باقی عوام اس ‘ایکشن’ کو سوشل میڈیا پر نشر کرتی ہے اور اس سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ وہ خون سے اپنے ہاتھ گندے نہیں کرتی لیکن خون میں اس طرح، بنا ہرے پھٹکری، شامل ہو جاتی ہے۔

روزمرہ کی  اس دہشت گردی کو پولیس اور اسٹیٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور اس میں شامل لوگ الگ الگ سطح کے انتخابات میں کھڑے ہوتے ہیں اور ہندوؤں کی حمایت  سےمقننہ میں پہنچتے ہیں۔ایسے ریڈیکل ابھی الگ الگ سطح پر ہندوستان کے آئینی عہدوں  پر ہیں۔ اس لیے یہ دہشت گردی مین اسٹریم کی دہشت گردی ہے۔

اس دہشت کو میڈیا اور صنعتی دنیاکی حمایت حاصل ہے بلکہ ان کے ذریعے اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور فروغ دیاجاتا ہے۔پچھلے ایک ہفتے میں مدھیہ پردیش کی 5 جگہوں سے خبریں آئی ہیں۔ یہ ایسے ہی ریڈیکل ہندوؤں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی خبریں ہیں۔

موٹر سائیکل پر سینکڑوں ریڈیکل ہندو مسلمان اکثریتی محلوں، گاؤں میں جلوس نکالتے ہیں، گالی گلوچ کرتے ہیں، اینٹ پتھر پھینکتے ہیں اور مسلمانوں کے گھر، ان کی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔وہ مسجدوں کے سامنے جھنڈ میں جمع ہوکر بیہودہ حرکتیں کرتے ہیں۔ مسجد پر چڑھ کر توڑ پھوڑ، مذہبی علامتوں کی توہین کرتے ہیں۔

یہ چار سال پہلے اتر پردیش کے کاس گنج میں 26 جنوری کو ہوا تھا۔ اسی طرح کے ایک ریڈیکل ہندو گروپ نے زبردستی مسلمان محلے میں گھس کر ترنگے کے ساتھ ‘میٹنگ’ کرنے کی کوشش کی۔ اس میں بھی گالی گلوچ،توڑ پھوڑ کی گئی۔ پھر یہ ایک طریقہ کار بن گیا۔

اب رام مندر کے لیے چندے کے نام پر مسلمان اکثریتی  علاقوں میں یہی کیا جا رہا ہے۔ اعتراض  کرنے پر مارپیٹ، توڑ پھوڑ عام بات ہے۔مسلمانوں کو کھلے عام گالی دینا ہندوتہذیب  کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ ورنہ رام نومی کے جلوسوں یا کانوڑیوں کے قافلوں میں مسلمانوں کی توہین  کرتے ہوئے نعرے اور گانے کیوں؟

اس طرح کے ویڈیو دیوالی کے وقت دیکھے گئے، جن میں ایسے ریڈیکل ہندو گروپ پٹاخے اور آتش بازی کے سامان بیچنے والے مسلمانوں کی دکانوں میں گھس کر انہیں دھمکا رہے ہیں۔آج کل اندور کا ایک اور ویڈیو گھوم رہا ہے جس میں رام مندر چندے کا ایک پوسٹر بلوندر نے کیسریا نام کے اپنے ریستوراں سے ہٹا دیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ریڈیکل ہندو گروپ نے اس کے ریستوراں میں بری طرح توڑ پھوڑ کی۔

آپ چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو کوئی دہشت گردی نہیں ہے۔ آپ بنا بم اور پستول کے اس لفظ  کی تصویر نہیں بنا پاتے۔لیکن یہی تو ہندوستان کی خدمات ہیں: دہشت گردی  کے ایک ایسے ایڈیشن کی تشکیل ، جس میں دہشت پھیلانے والے کو کم سے کم خطرہ ہو اور شاید ہی کبھی اس کی قیمت دینی پڑے۔

عام طور پر دہشت گرد گروپوں میں شامل لوگوں کی اوسط عمر تین سے پانچ سال کی ہوتی ہے۔ ان میں کئی دہشت پھیلانے کے لیے خود کو ہی قربان کر دیتے ہیں۔ان کی کوئی گھریلو اور سماجی زندگی نہیں ہوتی۔ سماج اور اسٹیٹ سے بچتے پھرتے ہیں۔ لیکن ہندوؤں میں دہشت گردی  کو روزانہ کی باقی سرگرمیوں  کی طرح عام بنا دیا گیا ہے۔

اس دہشت گردانہ مہم میں شامل ہونے والوں کی سماجی اور سیاسی زندگی اور لمبی اور محفوظ  ہو جاتی ہے۔ وہ زیادہ قابل احترام عہدوں  پر پہنچ سکتے ہیں۔آپ ایک اخلاق کو اس کے گھر سے کھینچ کر مار ڈالتے ہیں۔قاتلوں کی حمایت  میں عوامی میٹنگ  ہوتی ہے اور اس میں مقتدرہ پارٹی  کے رہنما شامل ہوتے ہیں۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے قتل میں شامل یا اس کی حمایت کرنے والا کوئی ایک انتخاب  لڑکر اسمبلی یا لوک سبھا میں پہنچ جائے۔ نفرت اور قتل کا مبلغ  نائب وزیر اعظم  ہی نہیں وزیراعظم  کی گدی تک پہنچایا جا سکتا ہے۔دہشت گردی کی آسان سی تعریف ہے۔ کوئی کام دہشت گردی  کے خانے میں تب ڈالا جاتا ہے جب اس کا مقصد کسی ایک گروپ  یا بڑے  سماج کو خوف زدہ  کرنا، دہشت میں مبتلاکرنا ہوتا ہے۔

اس کا لازمی عنصر اپنی برتری  میں یقین ہی نہیں بلکہ اپنے چاروں طرف دشمنوں  کا تصور بھی ہوتا ہے جنہیں برباد کرکے اپنااقتدارقائم  کرنا ہے۔ اس لیےدہشت گرد ی سیریل  ہوتی ہے۔ وہ واقعہ  نہیں مسلسل  چلنے والا عمل ہے۔

ایک ہی جنید کو چلتی ٹرین میں قتل  کیا گیا لیکن اس کی دہشت ہزاروں، لاکھوں جنید جیسے لوگوں کو محسوس ہوئی۔ پونے میں جب کھلے عام ایک مسلمان محسن کو مار ڈالا جاتا ہے تو اس کا پیغام  ہر شہر کے مسلمان نوجوان کو ملتا ہے۔

جب ایک مسجد کے اوپر چڑھ کر اس کی بے حرمتی کی جاتی ہے تو بتلایا جاتا ہے کہ ہندوستان بھر کی مسجدوں کے ساتھ یہ کیا جا سکتا ہے۔کئی لوگ کہیں گے کہ انہیں دہشت گرد کہنا کچھ زیادہ ہے، زیادہ  سے زیادہ  انہیں لفنگے یا ہلڑباز کہہ سکتے ہیں۔ لیکن جب پورے ہندوستان میں ایسے لفنگے یا ہلڑبازوں کے گروہ پھلنے پھولنے لگیں، جن میں ہمارے گھر پریوار، آس پاس کے لوگ بے ہچک شامل ہوں تو ماننا پڑےگا کہ انہیں اپنے سماج کی حمایت کی یقن دہانی ہے۔

یعنی ہندو دماغ کا بڑے پیمانے پر ریڈیکلائزیشن ہوا ہے جو ان کاموں سے شرمندہ ہونا تو دور، ان پر فخر محسوس کرتا ہے۔ہندو سماج کو اپنے اندر بڑھتے ہوئے ریڈیکلائزیشن پر فکر ہونی چاہیے۔ اس کا دل ودماغ نفرت  سےمسخ  ہو رہا ہے اور وہ دھیرے دھیرے خودغرض ہوتا جا رہا ہے۔

بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کے ہندو سماج کی تاریخ  جب لکھی  جائےگی تو اس کے رہنماؤں کے طور پر کن کی گنتی ہوگی؟ اس سماج کے تنظیموں  میں کن لوگوں کو جگہ ملے گی؟ان صدیوں کے ہندوؤں کے بارے میں بعد کے وقتوں میں لکھا جائےگا کہ یہ تشدد اور قتل  کی تہذیب میں یقین کرنے والے لوگ تھے۔ یہ نفرت  اور قتل کو منظم کرنے والوں کو اپنا رہنما مانتے تھے۔

جیسے بیسویں صدی کی جرمن کمیونٹی  کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں ریڈیکلائزیشن کا ہی نتیجہ ہٹلر تھا، ویسا ہی آج کے ہندو سماج کے بارے میں بعد کے وقت میں لکھا جائےگا۔ 2014 اور 2019 کے انتخابات کے نتیجے ایک ریڈیکلائزیشن کی وجہ سے ہی ممکن ہوئے۔

لیکن ریڈیکلائزیشن کی ایک خاصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شکاروں کے دماغ سے تاریخ کاشعورمٹا دیتا ہے اور ان میں بھرم پیدا کرتا ہے کہ وہ  تاریخ  کے مالک  ہیں۔آخر میں زمانہ ان پر ہنستا ہے لیکن تب تک اس سماج کا اور اس کی وجہ سے باقی سماجوں کاحال  چکناچور ہو چکا ہوتا ہے۔

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی  میں پڑھاتے ہیں۔)