خبریں

امریکہ: تشدد کے خطرے کی وجہ سے ٹوئٹر نے ڈونالڈ ٹرمپ کو مستقل طور پر بین کیا

امریکی پارلیامنٹ کیمپس میں ہوئےتشدد کے بعد ٹوئٹر نے‘آگے اور تشدد کے خطرے کے مدنظر’ ڈونالڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ مستقل  طور پر بند کر دیا ہے۔ اس سے پہلے فیس بک اور انسٹاگرام بھی ٹرمپ کے اکاؤنٹ بلاک کر چکے ہیں۔

(فوٹو السٹریشن: رائٹرس)

(فوٹو السٹریشن: رائٹرس)

نئی دہلی: ٹوئٹر نے اعلان  کیا ہے کہ اس نے ڈونالڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹ کو ‘آگے اورتشددبھڑکنے کے خطرے’کی وجہ سے مستقل طور پربین کر دیا ہے۔کیلی فورنیا سے چلنے والے سوشل میڈیا کمپنی کا یہ غیرمعمولی  قدم ٹرمپ کے اس ٹوئٹ کے بعد سامنے آیا کہ وہ 20 جنوری کو امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کریں گے۔

ٹوئٹر نےجمعہ کو ایک بیان میں کہا، ‘ڈونالڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹ سے حال ہی میں کیے گئے ٹویٹ کے تجزیے کے بعد اور بالخصوص ٹوئٹر پر اور اس کے باہر کی جا رہی ان کی تشریح کے تناظر کو دیکھتے ہوئے ہم نے آگے اور تشددکے مد نظر اکاؤنٹ پر مستقل طور پر روک لگا دی ہے۔’

بین کے وقت ٹرمپ کے 8.87 کروڑ فالوور تھے اور وہ 51 لوگوں کو فاولو کر رہے تھے۔ ٹرمپ نے اس قدم کے لیے ٹوئٹر کی مذمت کی ہے۔ٹرمپ نے ٹوئٹر کی جانب سےمستقل طور سے بین کیے جانے کے بعد کہا کہ انہیں اور ان کے حامیوں کو چپ نہیں کرایا جا سکتا۔

ٹوئٹر پر پربین ہونے کے کچھ گھنٹوں بعد ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا، ‘مجھے ایسا ہونے کا اندازہ تھا۔ ہم دوسری سائٹوں سے بات کر رہے ہیں اور اس پر جلد ہی بڑااعلان  کریں گے اور ہم جلدہی اپنا خود کا پلیٹ فارم بنانے کے امکانات پر بھی غور کر رہے ہیں۔ ہم چپ نہیں بیٹھیں گے۔’

ڈونالڈ ٹرمپ۔ (فوٹو: رائٹرس)

ڈونالڈ ٹرمپ۔ (فوٹو: رائٹرس)

انہوں نے کہا، ‘ٹوئٹر اظہار رائے کی آزادی  کے بارے میں نہیں ہے، یہ صرف انتہا پسندبایاں محاذ کے خیالات کو بڑھاوا دینے والا پلیٹ فارم ہے، جہاں دنیا کے سب سے خطرناک لوگوں کو آزادی کے ساتھ اپنی بات رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ آپ ہم سے جڑے رہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘جیسا کہ میں طویل عرصے سے یہ کہتا آیا ہوں کہ ٹوئٹرآزادانہ آوازوں کو بین کرنے کے معاملے میں کافی آگے بڑھ چکا ہے اور آج رات ٹوئٹر کےملازمین نے اس پلیٹ فارم سے میرا اکاؤنٹ ہٹانے کے لیے ڈیموکریٹس اور انتہاپسند بایاں محاذ کے ساتھ تال میل بٹھا لیا۔’

ٹرمپ نے کہا کہ ٹوئٹر بھلے ہی نجی کمپنی ہو لیکن بنا سرکار کے دفعہ230 کے تحفہ کو  وہ طویل عرصے تک نہیں ٹک پائیں گے۔ڈونالڈ ٹرمپ کے علاوہ ٹوئٹر نے ان کے سابق قومی سلامتی صلاح کار مائیکل فلن اور ٹرمپ حامی اٹارنی سڈنی پاویل کے اکاؤنٹ پر بھی پابندی  لگا دی۔

غورطلب ہے کہ تین دن پہلے ہی ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل بلڈنگ (امریکی پارلیامنٹ)میں گھس کر تشدد کیا تھا، جس میں پانچ لوگوں کی موت ہو گئی۔کیپٹل بلڈنگ پر حملے کے بعد سوشل میڈیا کمپنیوں پر نفرت پھیلانے والےجرائم پر کارروائی کرنے کا بےحد دباؤ بنا ہوا ہے اور اس میں کیواینان اکاؤنٹس کے صفائی  کی بات بھی ہے۔

ٹوئٹر نے کہا ہے کہ ان اکاؤنٹس کو مستقل طور پربین کریں گے جو صرف اور صرف کیواینان مواد کو شیئر کرنے کے لیے ہیں۔

کیواینان ایک ایسی سوچ اور بھروسےکا نام ہے، جس کا جنم انٹرنیٹ پر ہوا ہے اور اس میں یقین کرنے والے لوگ یہ مانتے ہیں کہ ٹرمپ خفیہ طریقے سے ملک کے دشمنوں اور شیطان کی پوجا کرنے والے ان لوگوں سے لڑ رہے ہیں جو بچوں کے جنسی استحصال کا ریکٹ چلاتے ہیں۔

فیس بک بھی کر چکا ہے بین

اس سے پہلے فیس بک کےبانی  مارک زکربرگ نے ایک غیرمعمولی قدم کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ نومنتخب صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری تک ڈونالڈ ٹرمپ فیس بک اور انسٹاگرام استعمال نہیں کر پائیں گے۔

زکربرگ نے ایک پوسٹ میں کہا تھا، ‘ہمارا ماننا ہے کہ صدر کو اس وقت اس منچ کا استعمال کرتے رہنے کی اجازت دینے کا خطرہ بہت بڑا ہے۔ اس لیے ہم نے ان کے فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹ کو بلاک کیے جانے کی مدت کوبڑھاکر غیر متعینہ کر دیا ہے۔ ان کا اکاؤنٹ اقتدارکے پرامن ٹرانسفر ہونے تک کم سے کم آئندہ  دو ہفتےتک بند رہےگا۔’

ایساممکنہ طور پر پہلی بار ہے، جب کسی نیشنل چیف  کا فیس بک اکاؤنٹ بلاک کیا گیا ہے۔اس سے پہلے فیس بک نے بدھ کو دو پالیسیوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے ٹرمپ کا اکاؤنٹ 24 گھنٹے کے لیے بلاک کیا تھا۔ ٹوئٹر نے بھی بدھ کو ٹرمپ کا اکاؤنٹ 12 گھنٹے کے لیے بلاک کر دیا تھا اور ایک ویڈیو سمیت ان کے تین ٹوئٹ ہٹا دیے تھے۔

کیپٹل بلڈنگ میں تشدد کرنے والے گھریلو دہشت گرد، ٹرمپ سب سے نااہل صدر: جو بائیڈن

نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ کیپٹل بلڈنگ میں گھس کر تشدد کرنے والوں میں کچھ ٹھگوں، سفید فام  لوگوں کو سب سے اعلیٰ سمجھنے والے لوگوں اور گھریلو دہشت گردوں  کا ایک جھنڈ تھا جن پر مقدمہ چلنا چاہیے۔

بائیڈن نے کہا کہ اس پورے واقعہ کو سنبھالنے میں ناکام رہنے والے حکام کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے اور یقینی بنایا جانا چاہیے کہ اس کااعادہ  نہ ہو۔

انہوں نے ڈیلوییر کے ولمنگٹن میں صحافیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا،‘انہیں کچھ مجرموں،ملک مخالفین، سفید فام لوگوں کو سب سے اوپرماننے والے لوگوں اور یہودی مخالفین کا ایک جھنڈ مانا جانا چاہیے۔ اور اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ یہ لوگ گھریلودہشت گرد تھے۔’

بائیڈن نے کہا،‘اور محکمہ انصاف کو یہ الزام  درج کرنے چاہیے۔’ایک سوال کے جواب میں نومنتخب امریکی صدر نے کہا، ‘ان پر مقدمہ چلنا چاہیے۔’

جو بائیڈن۔ (فوٹو: رائٹرس)

جو بائیڈن۔ (فوٹو: رائٹرس)

بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکی تاریخ میں سب سے نااہل صدر ہیں۔ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی تحریک لانے یا ان کی مدت  کار کے بچے ہوئے 12 دن سے پہلے انہیں ہٹانے سے متعلق سوال پر بائیڈن نے کہا کہ 20 جنوری کو ان کاعہدہ  سنبھالنا ہی ٹرمپ کو ہٹانے کا سب سے تیز ترین  طریقہ ہے۔

بائیڈن نے صحافیوں  سے کہا، ‘میں ایک سال سے بھی زیادہ وقت سے کہتا آ رہا ہوں کہ وہ (ٹرمپ)اس عہدہ پر رہنے کے قابل نہیں ہیں۔ وہ امریکی تاریخ کے سب سے نااہل صدرہیں۔ لہٰذا انہیں ہٹانے کے خیال کامیرے حساب سے کوئی مطلب نہیں ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘ٹرمپ کو ہٹانے کا سب سے تیز ترین طریقہ 20 جنوری کو میرا حلف لیناہے۔ اس سے پہلے یا بعد میں کیا کارروائی کی جائے، اس پر کانگریس کو فیصلہ لینا ہے۔ میں بس ان کے عہدہ  چھوڑنے کو لےکر پرجوش ہوں۔’

نومنتخب صدر نے کہا کہ میں نے ٹرمپ کے بارے میں جتنا سوچا تھا، وہ اس سے بھی کہیں آگے نکلے۔

بائڈن نے کہا، ‘ان کی وجہ سے ملک کو اور ہمیں پوری دنیا میں شرمندگی جھیلنی پڑی۔ وہ اس عہدہ پر بنے رہنے کے لائق نہیں ہیں۔’بائیڈن نے مظاہرین کے ساتھ سیلفی لیتے کیپٹل پولیس اہلکاروں  کی کچھ تصویریں آنے کے معاملے میں بھی جانچ کی مانگ کی ہے۔ انہوں نے ری پبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز اور کئی دیگر رکن پارلیامان کی بھی مذمت کی۔

بائیڈن نے کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ امریکی عوام کے من میں صاف ہے کہ یہ لوگ کون ہیں۔ وہ بڑے جھوٹ کا حصہ ہیں۔’اس بیچ کیپٹل بلڈنگ میں ہوئےتشدد میں زخمی  ایک پولیس افسر کی موت کے بعد مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر پانچ ہو گئی ہے۔

یو ایس کیپٹل پولیس کے افسر برائن ڈی سکنک بدھ کو مظاہرین  کے ساتھ جھڑپ میں زخمی  ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سکنک اپنے دفتر لوٹے جہاں وہ بےہوش ہو گئے، جس کے بعد اسپتال میں علاج کے دوران ان کی موت ہو گئی۔

حکام  کے مطابق کیپٹل میں ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں  کےپرتشدد حملے کی وجہ سے کم سے کم 50 پولیس اہلکار زخمی  ہو گئے تھے جن میں سے 15 کو شدید چوٹیں آئیں تھیں۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)