فکر و نظر

کسانوں کا مظاہرہ: کیا ہریانہ میں کمزور ہو رہی ہے بی جے پی کی زمین

حالیہ دنوں میں عوام کا احتجاج کرتے ہوئےوزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ  کے دورے پر ان کا ہیلی کاپٹر نہ اترنے دینا، میئر کے انتخاب  میں امبالہ میں وزیر اعلیٰ کی مخالفت ہونا اور اسی انتخاب  میں سونی پت اور امبالہ جیسی شہری سیٹیوں پرہارنا اس بات کے اشارے ہیں کہ ریاست میں بی جے پی کی حالت کمزور ہو رہی ہے۔

بی جے پی صدر جےپی نڈا کے ساتھ وزیر اعلیٰ منوہرلال کھٹر۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

بی جے پی صدر جےپی نڈا کے ساتھ وزیر اعلیٰ منوہرلال کھٹر۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

اتوار سے کرنال ضلع کا کیملا گاؤں سرخیوں  میں ہے۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال نے کیملا گاؤں میں کسانوں کی پنچایت رکھی تھی۔ وزیر اعلیٰ وہاں کسانوں کو تین زرعی قوانین کے فائدے بتانے جانے والے تھے۔پنچایت میں ہمیشہ سے ہی پوزیشن، اپوزیشن اورغیرجانبدارافرادحصہ لیں تب ہی کسی بھی پنچایت کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ کسان کی  اس مزاحمت نے اب نیا موڑ لے لیا ہے۔

جیسے ہی ہریانہ میں بی جے پی یا جے جےپی کے کسی بھی رہنما کے پروگرام  کے انقعقاد پتہ چلتا ہے عوام خود سے وہاں پہنچ جاتی ہے۔ حال کے دنوں میں اس کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں۔سب سے پہلے بات وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کی۔ کیملا گاؤں کی پنچایت کے انعقادکی جانکاری جب آس پاس کے گاؤں کو ملی تو بڑی تعداد میں وہاں  لوگ پہنچ گئے۔

وزیر اعلیٰ ہیلی کاپٹر سے آنے والے تھے لیکن عوام  نے ان کے آنے سے پہلے ہیلی پیڈ کو کھود دیا اور منوہر لال کو واپس لوٹنا پڑا۔شاید ہی ایسی کوئی مثال ہوگی کہ کوئی وزیر اعلیٰ اپنے ہی علاقے میں ہیلی کاپٹر سے جائے اور عوام انہیں زمین پر اترنے نہ دے۔

یہ اس بات کے اشارے ہیں کہ کسانوں کے مظاہرہ کا دائرہ اب پنجاب ، ہریانہ،مغربی اتر پردیش اور راجستھان سے کہیں آگے بڑھتا جا رہا ہے۔اگر سرکار نے جلدی ہی دہلی کے بارڈر پر بیٹھے لگ بھگ تین لاکھ کسانوں کی مانگوں کانوٹس نہیں لیا تومرکزی حکومت  اور بی جے پی مقتدرہ  ریاستوں کو اس کا کافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

اس مظاہرےکا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ بی جے پی نے ہریانہ میں جاٹ غیر جاٹ کی سیاست کرکے دوسری بار ریاست میں سرکار بنائی تھی جس کا خمیازہ آج منوہر لال سرکار بھگت رہی ہے۔اس کی بڑی وجہ ہے کہ سرکار دشینت چوٹالا کے پہیوں پر چل رہی ہے۔ چوٹالا پریوار کی پہچان چودھری دیوی لال سے ہے اور چودھری دیوی لال کسان اور گاؤں کی لڑائی لڑتے تھے۔

اس کسان مظاہرے نے جاٹ غیر جاٹ میں بٹے ہوئے ہریانہ کو اب ایک مضبوط زرعی معاشرہ میں تبدیل کر دیا ہے جو ہریانہ کی بی جے پی سرکار کی سب سے بڑی پریشانی  بن گئی ہے۔

اگر دہلی کے سنگھو بارڈر پر ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کےساتھ کسان ایساسلوک کرتےتو کسی کو بھی حیرانی ہیں ہوتی لیکن وزیر اعلیٰ کے اپنے اسمبلی حلقہ  میں ان کا ہیلی کاپٹر نہیں اترنا یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ جتنی دوری ہیلی کاپٹر اور ہیلی پیڈ میں تھی اس سے کہیں زیادہ فاصلہ عوام اور وزیر اعلیٰ کے بیچ ہو چکا ہے۔

کچھ دنوں پہلے ہریانہ کے نائب وزیر اعلیٰ دشینت چوٹالا بھی اپنے اسمبلی حلقہ  اچانا میں ہیلی کاپٹر سے پہنچنے والے تھے، لیکن جیسے ہی وہاں کے لوگوں کو اس کی جانکاری ملی تو ہیلی پیڈ کھود دیا گیا اوران  کو اپناپروگرام  رد کرنا پڑا۔

دراصل ہریانہ کے اسمبلی انتخاب  میں جےجےپی پارٹی کا جنم ہوا تھا۔عوام  نے اس لیے دشینت چوٹالا کی پارٹی کو ووٹ دیا تھا کہ وہ بی جے پی کو ہرائیں گے، لیکن جب جےجےپی کی حمایت سے منوہر لال دوسری بار ہریانہ کے وزیر اعلیٰ بنے تو جاٹ بیلٹ میں دشینت چوٹالا کو لےکر ناراضگی شروع ہو گئی تھی۔

لیکن زرعی قوانین کو لےکر جب چودھری دیوی لال کی اولادیں گدی پر بیٹھی رہیں تو جاٹوں کی مہاپنچایتوں نے بائیکاٹ کرنا شروع کر دیا۔نئے سال کے جشن کے وقت دشینت چوٹالا کے چھوٹے بھائی دگوجئے چوٹالا کی گوا کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، اس نے گاؤں میں بیٹھے ہری پگڑی والے بزرگوں کو اورمایوس کیا۔

جب بی جے پی اپوزیشن میں تھی تب کہا کرتی تھی کہ جیسے ہی ہماری سرکار بنےگی، تو ہم سوامی ناتھن رپورٹ نافذ کریں گے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اپنی تقریرمیں 2022 تک کسان کی آمدنی دوگنی کرنے کی بات کرتے تھے۔

یاد آتا ہے کہ لوک سبھا میں سشما سوراج نے اپوزیشن کے رہنما کے طور پر تقریرکرتے ہوئے کہا تھا، ‘آڑھتی کسان کا اے ٹی ایم ہوتا ہے۔’آج منڈی سے جڑے ہوئے لاکھوں لوگ بےروزگاری کے دہانے پر کھڑے ہیں اور مودی سرکار اپنی بات پر ضد کرکے بیٹھی ہے کہ وہ قوانین  کو واپس نہیں لےگی۔

ہم ایک جمہوریت میں  ہیں۔ جمہوریت  میں کوئی ماں کے پیٹ سے وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ بن کر پیدا نہیں ہوتا، عوام  انہیں چنتی ہے۔ پہلے جب راجہ بھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا تھا تو اس کے دربار میں بھی عوام کی شنوائی ہوتی تھی، فریاد سنی جاتی تھی۔

زرعی قانون بننے کے بعد سے بی جے پی ہریانہ میں کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ آج کی صورتحال میں وزیر اعلیٰ اورنائب وزیر اعلیٰ  کا ہیلی کاپٹر نہیں اترنے دینا، میئر کے انتخاب  میں وزیر اعلیٰ منوہر لال کی امبالہ میں عوام کے ذریعے مخالفت اور میئر کے انتخاب میں ہی سونی پت اور امبالہ جیسی شہری سیٹیں ہارنا اس بات کے اشارے ہیں  کہ بی جے پی کی ہریانہ میں زمین کھسک رہی ہے۔

آج عوام ہیلی کاپٹر اترنے نہیں دے رہی جلد ہی ایم ایل اے اوروزیروں  کی گاڑیاں بھی گاؤں میں نہیں گھس پائیں گی۔

(مضمون نگار آزاد صحافی  ہیں۔)