خبریں

بی جے پی رہنماؤں کی طرح سرکار نے بھی سپریم کورٹ میں کہا-کسانوں کے مظاہرہ میں ہوئی خالصتانی گھس پیٹھ

سپریم کورٹ میں سرکار کےاس قبولنامے سے پہلے پچھلے کچھ مہینوں میں کئی بی جے پی رہنما کسانوں کے مظاہرہ میں خالصتانیوں کے شامل ہونے کاالزام لگا چکے ہیں۔ یہاں تک کہ کابینہ وزیر روی شنکر پرساد، پیوش گوئل اور وزیر زراعت نریندر تومر نے بھی اس سلسلے میں ماؤنواز اور ٹکڑ ٹکڑے گینگ جیسے لفظوں  کا استعمال کیا ہے۔

سنگھو بارڈر پر بیٹھےمظاہرین۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

سنگھو بارڈر پر بیٹھےمظاہرین۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: منگل کو سرکار نے سپریم کورٹ سے کہا کہ دہلی میں جاری کسانوں کے موجودہ مظاہرے میں خالصتانی گھس پیٹھ ہوئی تھی۔ اس طرح سے سرکار نے پہلی بار اس دعوے کو سرکاری طور پر تسلیم کیا  جو سوشل میڈیا سے شروع  ہوا تھا اور بعد میں اسے کچھ بی جے پی رہنماؤں نے دہرایا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، کسانوں کے مظاہرہ پر شنوائی کے دوران عرضی گزاروں میں سے ایک کی جانب سے پیش ہوتے ہوئےسینئروکیل پی ایس نرسمہا نے کہا کہ اس کی(سرکار)عرضی میں کہا گیا ہے کہ سکھس فار جسٹس جیسےگروپ مظاہروں  کے لیے پیسہ اکٹھاکر رہے تھے۔

اس پر سی جےآئی ایس اے بوبڈے نے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال سے پوچھا کہ کیا اس الزام کی تصدیق  کی جا سکتی ہے یااس کی تردید کی جا سکتی ہے۔وینوگوپال نے کہا، ‘ہمیں مطلع کیا گیا ہے کہ اس عمل میں خالصتانی گھس پیٹھ ہے۔’

اس پر عدالت نے ان سے کہا کہ وہ جس بات پر متفق  ہوئے ہیں اور کہا ہے، بدھ تک اس پر ایک حلف نامہ داخل کریں۔کورٹ میں اس قبولنامے سے پہلے پچھلے دو مہینوں میں کئی بی جے پی رہنمامظاہرے میں خالصتانیوں کے شامل ہونے کاالزام لگا چکے ہیں۔

یہاں تک کہ کابینہ وزیر روی شنکر پرساد، پیوش گوئل اور نریندر تومر نے بھی ماؤنواز اور ٹکڑ ٹکڑے گینگ جیسےلفظوں کا استعمال کیا ہے۔حالانکہ، دو سینئر وزیروں وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور وزیر داخلہ  امت شاہ نے ان میں سے کچھ تبصرےسے اتفاق نہیں کیا تھا۔

کسان مظاہروں میں خالصتانی گھس پیٹھ کا الزام نومبر میں شروع ہوا، جو پہلی بار سوشل میڈیا پر دکھائی دیا تھا۔

گزشتہ30 نومبر کو بی جے پی کےجنرل سکریٹری اور پنجاب اوراتراکھنڈ میں پارٹی کے انچارج دشینت کمار گوتم نے کہا تھا کہ تحریک  کے دوران خالصتان حامی  اور پاکستان حامی نعرے لگائے گئے اور ایسے لوگوں کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔

رپورٹ کے مطابق، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کےنئے زرعی  قوانین پر رخ صاف کیےجانے کے بعد ٹھیک اسی دن بی جے پی آئی ٹی سیل چیف امت مالویہ نے ٹوئٹ کر کہا تھا، ‘اروند کیجریوال سرکار نے 23 نومبر کو پہلے ہی زرعی قوانین کونوٹیفائی کرکے انہیں نافذ کرنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن اب جب خالصتانیوں اور ماؤنوازوں نے احتجاج  کرنے کے لیے قدم بڑھایا ہے، تو وہ دہلی کو جلانے کا ایک موقع  دیکھ رہے ہیں۔ یہ کسانوں کے بارے میں کبھی نہیں تھا۔ صرف سیاست(ہو رہی ہے)۔’

حالانکہ، اس کے ایک دن پہلے وزیر داخلہ  امت شاہ نے حیدرآباد میں کہا تھا کہ وہ اس خیال کو نہیں مانتے ہیں کہ کسانوں کی تحریل سیاسی ہے۔ایک پریس کانفرنس میں شاہ نے کہا تھا، ‘جمہوریت میں سب کو (احتجاج کرنے کا)حق ہے، لیکن میں کہنا چاہتا ہوں کہ تینوں زرعی قوانین کسانوں کے فائدے کے لیے ہیں۔ میں نے کبھی کسانوں کے ذریعے کیے گئے مظاہرہ  کو سیاسی  نہیں کہا۔ میں یہ اب بھی نہیں کہہ رہا ہوں۔’

حالانکہ، 12 دسمبر کوفکی کے 93ویں سالانہ اجلاس  میں ریلوے اور وزیرتجارت  پیوش گوئل نے ماؤنوازوں  کی شراکت داری کا الزام  لگایا تھا۔بتا دیں کہ گوئل کوزیر زراعت  نریندر سنگھ تومر کے ساتھ کسانوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا، ‘اب ہم محسوس کرتے ہیں کہ نام نہاد کسان تحریک  شاید ہی کسان تحریک  رہ گئی ہے۔ اس میں لگ بھگ بایاں بازو اور ماؤنواز عناصرنے گھس پیٹھ کرلیا ہے، جس کا احساس ہمیں پچھلے دو دنوں میں ہوا، جب ملک مخالف سرگرمیوں  کے لیے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیےگئے لوگوں کو رہا کرنے کی مانگیں کی گئی تھیں۔’

ایک دن بعد، بہار میں کسانوں کو خطاب کرتے ہوئے، وزیر قانون روی شنکر پرساد نے ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا ذکر کیا تھا۔انہوں نے کہا تھا، ‘اگر کسانوں کے احتجاج  کی آڑ میں ملک  کو توڑنے والے، ٹکڑے ٹکڑے لوگ تحریک  کا سہارا لیتے ہیں، تو ہم ان کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔’

ٹھیک اسی دن وزیر زراعت  تومر نے کہا، ‘ملک میں کچھ طاقتیں ہیں جو اچھے کام کی مخالفت کرتی ہیں۔ آپ کو یاد ہے جب کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا ایکٹ لایا گیا تھا، تب ایسے لیفٹ عناصر تھے جو آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی مخالفت کر رہے تھے۔

جب شہریت قانون آیا، تب انہوں نے اس کی بھی مخالفت کی۔ جب زرعی قانون آئے، تب اس کی بھی مخالفت کی گئی۔ جب رام مندر کا مدعا آیا، اس کی بھی مخالفت کی گئی۔ یہاں کچھ لوگ ہیں جو صرف احتجاج کرتے ہیں اور ان کا ارادہ ملک کو کمزور کرنے کا ہے۔’

ان الزامات پر تھوڑا بہت لگام تب لگا جب وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے دسمبر کو کہا تھا کہ نکسلی اور خالصتانی جیسے لفظ کسانوں کے لیے استعمال نہیں کیے جانے چاہیے۔اے این آئی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سنگھ نے کہا تھا، مجھے نہیں پتہ کس نے کیا کہا لیکن میرا ماننا ہے کہ کسانوں کے خلاف ایسے الزام کسی کے بھی ذریعے نہیں لگائے جانے چاہیے۔ کسان، کسان ہے۔’

حالانکہ، موجودہ تحریک جاری رہنے کے دوران محکمہ انکم ٹیکس  نے پنجاب کے آڑھتیوں کے خلاف چھاپےماری کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ای ڈی  نے بھی مظاہرین کے خلاف غیرملکی فنڈنگ کو لےکر جانچ شروع کی تھی۔

حالانکہ، اس دوران کسان تنظیموں نےتحریک کے کسی خالصتانی حمایت سے صاف طور پر انکار کیا ہے اور اسے صرف ایک پروپیگنڈہ  قرار دیا ہے۔

بتا دیں کہ، سپریم کورٹ نے منگل کو اگلے آرڈر تک متنازعہ قوانین  کونافذ کرنے پر روک لگا دی اورمرکز اور دہلی کی سرحدوں  پر قانون کو لےکرمظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں  کے بیچ جاری تعطل  کو ختم  کرنے کے لیے چاررکنی کمیٹی  کی تشکیل کی ہے۔ حالانکہ کسانوں نے اس کمیٹی  کی مخالفت کی ہے۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ نے تین زرعی قوانین کو لےکر کسانوں کے مظاہرہ  سے نمٹنے کے طریقے پر سوموار کو مرکزکو آڑے ہاتھ لیا اور کہا کہ کسانوں کے ساتھ اس کی بات چیت کے طریقے سے وہ ‘بہت مایوس’ہے۔