فکر و نظر

کورونا ویکسین کو منظوری تو مل گئی، لیکن ابھی حکومت کو ان دس سوالوں کاجواب دینا ہے

گزشتہ دنوں ڈرگ کنٹرولر آف انڈیایعنی ڈی سی جی آئی نے سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی تیارکردہ  آکسفورڈ کے کووڈ 19ٹیکے کووی شیلڈ اور بھارت بایوٹیک کے خودساختہ ملکی ٹیکے کو ویکسین کو ملک میں محدود پیمانے پر ایمرجنسی میں  استعمال کی منظوری دی ہے۔ حالانکہ ان کو لےکر اٹھے سوالوں کے جواب نہیں دیے گئے  ہیں۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

تین جنوری کو ڈرگ کنٹرولر آف انڈیا(ڈی سی جی آئی)ڈاکٹر وی جی سومانی نے سیرم انسٹی ٹیوٹ اور بھارت بایوٹیک کی کووڈ 19ویکسین کوہندوستان میں ایمرجنسی کی صورت میں محدود پیمانے پراستعمال کے لیےمنظوری دینے کااعلان  کرتے ہوئے تقریباً آٹھ منٹ کا ایک چھوٹا بیان دیا تھا۔

اس پروگرام کے بعد ڈاکٹر سومانی نے کسی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے پروٹوکال کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ایسے کئی ان سلجھے سوال ہیں، جن کی وجہ سے ویکسین کو ملی منظوری کو لےکرشبہ بنا ہوا ہے۔ ایسے دس سوال ہیں، جن کے جواب کی ضرورت ہے۔

پہلا:  ڈاکٹر سومانی نے پروگرام  سے باہر نکلتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ویکسین 110 فیصدی محفوظ  ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے، جب بھارت بایوٹیک اور سیرم انسٹی ٹیوٹ کے تیسرے مرحلہ کے ٹرائل ابھی باقی ہیں؟اس اعداوشمار  کا ماخذکیا ہے؟

دوسرا: بھارت بایوٹیک کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے کلینکل ٹرائل کے بارے میں عوامی طور پر کم ہی جانکاری دستیاب  ہے۔ ڈی سی جی آئی دفتر نے بھی کمپنی کی درخواست سے کوئی جانکاری اجاگر نہیں کی۔ ایسے میں ہم کیسے یقین  کریں کہ کمپنی کی کو ویکسین محفوظ اور مؤثر ہے؟ کیا سبجیکٹ ایکسپرٹ کی کمیٹی  اس کو شیئر  کرےگی؟

تیسرا:  بھارت بایوٹیک نے پچھلے سال اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسے امید ہے کہ اس کی ویکسین کو ویکسین لگ بھگ 60 فیصدی مؤثر ہوگی۔ یہ اندازہ  کیسے لگایا گیا؟

چوتھا: نومبر میں سیرم انسٹی ٹیوٹ کی ویکسین کے ٹرائل کے دوران ایک رضاکار نے کمپنی کی ویکسین کووی شیلڈ کے لیے کمپنی پر پانچ کروڑ روپے کے جرما نے کے لیےعرضی  دائر کرکے کہا تھا کہ اکتوبر کی شروعات میں ویکسین لگوانے کی وجہ سے وہ  نیورولاجیکل دقتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ نے الٹے اس شخص پر مانہانی کا معاملہ دائر کرنے کی دھمکی دی۔ ڈی سی جی آئی مطمئن کیسے تھا کہ اس شخص کی یہ دقت ویکسین سے جڑی ہوئی نہیں ہے؟

تین جنوری کے اعلان میں اس طرح کی زبان کا استعمال کیا گیا، جو نیو ڈرگس اینڈ کلینکل ٹرائلز رولز 2019 میں نہیں ہے اور یہ حیران کن ہے۔ ڈاکٹر سومانی نے کہا کہ ماہرین کی کمیٹی نے تحفظ اور عوامی مفاد میں ایمرجنسی کی حالت  میں مکمل احتیاط کے ساتھ کلینکل ٹرائل موڈ میں محدود استعمال کے لیےدوویکسین کومنظوری دینے کےلیے امیونوجنسیٹی  ڈیٹا  کا تجزیہ  کیا۔

پانچواں : بڑے حرفوں  میں لکھے حصےمیں کہا گیا کہ جن لوگوں پر ٹیکے لگائے جا ئیں گے، انہیں کلینکل ٹرائل کا حصہ مانا جائےگا۔ کیا یہ معاملہ ہے؟ اگر ہے تو کیا کنسینٹ فارم میں اس کی تفصیلات ہوگی؟ کیا کوئی کنٹرول گروپ ہوگا؟ اس ٹرائل کے ڈیٹا کا استعمال  کہاں کیا جائےگا؟ وہ  حق  جو عام  طور پر کسی کلینکل ٹرائل میں حصہ لینے والے کو ملتے ہیں، کیا وہی حق  کو ویکسین یا کووشیلڈ لینے کے لیے راضی ہوئے لوگوں کو ملیں گے؟

چھٹا: اگر یہ‘کلینکل ٹرائل موڈ’نہیں ہے تو اس کا اصل میں مطلب کیا ہے؟ اور پھر ٹیکہ لگنے کے بعدناخوشگوار حالات سے کیسے نمٹا جائےگا؟ کیا سرکار نے یہ صاف کیا ہےکہ کس حد تک کو رونا ویکسین بنانے والی کمپنیاں ذمہ دار ہوں گی؟ اگر ٹرائل میں شامل ہونے والے لوگوں کو ملنے والی سکیورٹی یہاں کام نہیں کر رہی ہے، تو اس کی جگہ کیا دیا گیا ہے؟

ساتواں:  دو جنوری کو پریس انفارمیشن بیورو کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ ایک پریس نوٹ میں کہا گیا کہ ماہرین کی کمیٹی نے پونے کے سیرم انسٹی ٹیوٹ کو ایمرجنسی کی صورت  میں ویکسین کے محدود استعمال  کو منظوری دی تھی۔ ڈاکٹر سومانی کے سیرم انسٹی ٹیوٹ کی درخواست کے سلسلے میں تین جنوری کے بیان کے مطابق، تفصیلی غور وخوض کے بعد کمیٹی نے ایمرجنسی کی صورت میں محدود پیمانے پر استعمال کے لیے ویکسین کو منظوری دیے جانے کی سفارش کی تھی، وہ بھی طے شدہ شرطوں کے ساتھ۔ یہ شرطیں اورحالات کیا ہیں؟

آٹھواں(الف):  ٹھیک اسی طرح دو جنوری کے پریس نوٹ میں بھارت بایوٹیک کی ویکسین کو عوامی مفاد میں مکمل احتیاط کے ساتھ ایمرجنسی  میں محدود استعمال کے لیے‘کلینکل ٹرائل موڈ’میں منظوری دی گئی،بالخصوص میوٹینٹ اسٹرین سے ہوئے انفیکشن کے سلسلے میں۔ ایک بار پھر بڑے حرفوں میں لکھے جملوں  کا کیا مطلب  ہے اور اس کا بھارت بایوٹیک کی درخواست کےتناظر میں ذکر کیوں کیا گیا، سیرم انسٹی ٹیوٹ کے تناظر میں کیوں نہیں؟

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا ایمس دہلی کےڈائریکٹر ڈاکٹر رندیپ گلیریا نے بھی اشارہ  دیا تھا، کو ویکسین بیک اپ اسکیم  کا حصہ ہے؟

(ب): اگر انفیکشن کی زیادہ متعدی شکل کا فروغ نہیں ہوا ہوتا، تو کیا کو ویکسین کو آگے بڑھایا جاتا؟ یا اور پریشان کن بات کہ پھر ڈی سی جی آئی بھارت بایوٹیک کو آگے بڑھانے کے لیے کورونا کے نئے اسٹرین کے معاملے کو بہانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے؟ (یہ ایک امکان ہے جو سال 2020 میں آئی سی ایم آر کےچیف  ڈاکٹر بلرام بھارگو کے کمپنی کے دو ہفتوں میں کلینکل ٹرائل پورے کرنے کی بات میں نظر آتی ہے۔)

نواں: ویکسین کومحدود پیمانے پر استعمال کے لیے منظوری دی گئی ہے لیکن یہ محدود پیمانے پر استعمال کس نوع کے ہوں گے۔ ہمیں کیسے پتہ چلےگا کہ کس کو کب ٹیکہ دینا اور کب نہیں؟

دسواں: برٹن کی دواساز کمپنی ایسٹراجینیکا کو دو مورچے پر پریشانی ہے۔ ایک منظوری کے لیے چنندہ ڈیٹا پیش کرنا اور برٹن اور برازیل میں کلینکل ٹرائل کے دوران اس کی ویکسین کو لےکر ہوئی گڑبڑیوں کی وجہ سے اس کی صلاحیت پر سوال کھڑے ہوئے ہیں۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ کے کووی شیلڈ اسی ویکسین سے حاصل ہے۔ ایسٹراجینیکا کے ذریعےاب تک ان الزامات پر جواب دیا جانا باقی ہے، تو کیا کووی شیلڈ کو لےکربھی یہی تشویش  ہیں؟ کیا یہ تشویش  ڈی سی جی آئی اورسینٹرل ڈرگ اسٹینڈرڈکنٹرول آرگنائزیشن (سی ڈی ایس سی او)کی بیٹھکوں میں اٹھی تھیں؟ اگر ہاں، تو ان سے کیسے نمٹا گیا؟ اگر نہیں، تو کیوں نہیں؟

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)