خبریں

لو جہاد لفظ بین مذہبی شادیوں کو داغدار کر نے کے تصور سے نکلا ہے: نصیر الدین شاہ

معروف اداکار نصیرالدین شاہ نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ فوری  ردعمل کے ڈر سے کسی بھی آدمی  کے لیےعوامی طور پراپنے خیالات کا اظہارکرنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ بہت ہی مشکل دور ہے کہ تبادلہ خیال کی  آزادی  کاکوئی امکان ہی نہیں ہے۔

 نصیرالدین شاہ(فوٹو : دی وائر)

نصیرالدین شاہ(فوٹو : دی وائر)

نئی دہلی:معروف اداکار نصیرالدین شاہ نے ‘لو جہاد’کے نام پر ملک  میں ہندو اور مسلمان کے بیچ فرق  پیدا کیے جانے پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کاروان  محبت انڈیا کو دیے ایک ویڈیو انٹرویو میں یہ تبصرہ   کیا ہے۔

ویڈیواتوارکو اس کے یوٹیوب چینل پر شیئرکیا گیا۔نصیرالدین(70)نے کہا، ‘اتر پردیش میں لو جہاد تماشے کی طرح جس طرح  سے فرق پیدا کیا جا رہا ہے، اس کو لےکر میں سچ مچ غصے میں ہوں۔ جن لوگوں نے بھی یہ لفظ دیا ہے وہ  جہاد لفظ کا مطلب نہیں جانتے ہیں۔’

انہوں نے انٹرویو میں کہا، ‘مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی شخص اتنا بےوقوف ہوگا کہ وہ سچ مچ میں اس بات پر یقین کر لےگا کہ مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ  ہو جائےگی،یہ محال ہے۔ اس لیےیہ پورا تصور ہی غیرحقیقی ہے۔’

بتا دیں کہ گزشتہ24 نومبر کو اتر پردیش سرکار نام نہاد‘لو جہاد’کو روکنے کے لیے شادی کے لیےتبدیلی مذہب پرروک  لگانے کے لیےقانون  لے آئی تھی۔ ایسا کرنے والی  وہ ملک کی  پہلی  ریاست  تھی۔

اس میں شادی کے لیے فریب، لالچ دینے یا جبراً تبدیلی مذہب کرائے جانے پر مختلف اہتماموں کے تحت زیادہ سے زیادہ 10سال کی سزا اور 50 ہزار تک جرما نے کا اہتمام  ہےجبکہ ہماچل پردیش میں اس کے لیے سات سال تک کی سخت سزا کا اہتمام  ہے۔

اتر پردیش پہلی ایسی ریاست ہے، جہاں لو جہاد کو لےکر اس طرح کا قانون لایا گیا ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں ہریانہ اور مدھیہ پردیش جیسی  ریاستوں نے بھی شادی کی آڑ میں ہندو خواتین کو اسلام میں داخل  کرنے کی مبینہ کوششوں کو روکنے کے لیے قانون نافذ کیے ہیں۔

اس طرح کی شادی کا سیاسی رہنمااکثر ہی‘لو جہاد’ کے طورپر ذکر کرتے ہیں۔نصیر کا ماننا ہے کہ لو جہاد لفظ بین مذہبی شادیوں کو داغدار کرنے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ سماجی  ملاپ کوروکنے کے تصور سے نکلا ہے۔انہوں نے کہا، ‘وہ لوگ نہ صرف بین مذہبی شادیوں کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں بلکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ سماجی ملاپ پر بھی پابندی لگا رہے ہیں۔’

نصیرالدین نے تھیٹراورفلم آرٹسٹ رتنا پاٹھک شاہ سے شادی کی ہے۔انہوں نےکہا کہ ان کا ہمیشہ ہی ماننا رہا ہے کہ ہندو خواتین سے شادی ایک صحت مند مثال کو قائم  کرےگی۔ انہوں نے کہا، ‘مجھے نہیں لگتا کہ یہ غلط ہے۔’

انہوں  نے کہا کہ جب وہ رتنا سے شادی کرنے جا رہے تھے تب ان کی(نصیرالدین کی)ماں نے ان سے کہا تھا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان کی ہونے والی بیوی  اپنا مذہب تبدیل کرے، ‘اس پر میرا جواب نہ تھا۔’خبررساں  ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، شاہ نے کہا کہ بھلے ہی ان کی ماں غیرتعلیم یافتہ تھی اور ایک قدامت پسند خاندان میں پلی بڑھیں تھیں، لیکن وہ پوری طرح سے مذہب بدلنے کے تصور کے خلاف تھیں۔

انہوں نے کہا، ‘میری ماں جو تعلیم یافتہ نہیں تھی، ایک قدامت پسند گھر میں پلی بڑھی، دن میں پانچ بار نماز پڑھتی تھی، زندگی بھر روزہ رکھتی تھی، حج پر گئی، انہوں نے کہا کہ جو چیزیں آپ کو بچپن سے سکھائی گئی ہیں، وہ کیسے بدل سکتی ہیں؟ کسی کے مذہب کو بدلناصحیح نہیں ہے۔’

انہوں نے کہا کہ آج کل لو جہاد کے نام پر نوجوان  جوڑوں کو ہراساں  کیے جاتے دیکھ انہیں دکھ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ وہ دنیا نہیں ہے جس کا  وہ تصور کرتے تھے۔’قابل ذکر  ہے کہ کاروان محبت کو 2018 میں دیے ایک انٹرویو میں اداکار  نے  ماب لنچنگ کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ کئی جگہوں پر کسی پولیس افسر کی موت کے بجائے گائے کی موت کو زیادہ اہمیت د ی جا رہی ہے۔

ان کا یہ انٹرویو آن لائن جاری ہونے کے بعد اداکارکے ردعمل کو لےکر سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔وہیں، نصیرالدین نے اپنے نئے انٹرویو میں کہا، ‘اس کا غلط مطلب نکالا گیا کہ میں ڈر محسوس کر رہا ہوں۔’

انہوں نے کہا، ‘میں نےباربار کہا ہے کہ میں نہیں ڈر رہا۔ میں بھلا کیوں ڈروں؟ یہ میرا ملک ہے، میں اپنے گھر میں ہوں۔ میرے خاندان کی پانچ نسلوں کو اسی مٹی میں دفن کیا گیا ہے۔ میرے اجدادیہاں 300 سے سال سے رہ رہے ہیں۔ یہ چیزیں مجھے ہندستانی نہیں بناتی، تو پھر اور کون سی چیزیں مجھے ہندستانی بنائیں گی؟’

ساتھ ہی انہوں  نے کہا کہ فوری  ردعمل  کے ڈر سے کسی بھی شخص کے لیے اپنے خیالات  کوعوامی طور پر شیئر کرنا مشکل ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا، ‘یہ بہت ہی مشکل دور ہے کہ تبادلہ خیال(آزادانہ طور پر)کا کوئی امکان نہیں ہے۔اگر آپ کچھ بھی کہتے ہیں،یہاں تک کہ ملک کی حمایت میں، تو آپ پرفوراً الزام لگایا جاتا ہے۔’

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)