خبریں

سنگھو بارڈر پر پکڑا گیا نوجوان، تشدد بھڑکانے اور کسان رہنماؤں کے قتل کی سازش کا دعویٰ

جمعہ کی  رات کوسنگھو بارڈر پر مظاہرہ کر رہےکسانوں نے ایک نوجوان کو پکڑا، جس نے دعویٰ کیا کہ دو لڑکیوں سمیت کل دس لوگوں کو رواں تحریک  اوریوم جمہوریہ پر ہونے والی ٹریکٹر ریلی کے دوران  تشدد بھڑ کانے کا کام دیا گیا تھا۔ نوجوان نے یہ بھی کہا کہ چار کسان رہنماؤں کےقتل کی سازش کی گئی ہے۔

سنگھو بارڈر پر تشدد بھڑ کانے کا دعویٰ کرنے والے نوجوان کو لے جاتی پولیس۔ (فوٹو: اےاین آئی)

سنگھو بارڈر پر تشدد بھڑ کانے کا دعویٰ کرنے والے نوجوان کو لے جاتی پولیس۔ (فوٹو: اےاین آئی)

نئی دہلی: دہلی کےسنگھو بارڈر پرمظاہرہ کررہے کسانوں کے ذریعےپکڑے گئے ایک نوجوان نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ تحریک  اوریوم جمہوریہ  پر ہونے والے آئندہ  ٹریکٹر پریڈ کے دوران تشدد کو اکسانے کے لیے اسے ٹریننگ دی گئی تھی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، کسانوں کے ذریعےنقاب ڈال کر میڈیا کے سامنے پیش کیےگئے نامعلوم نوجوان نے دعویٰ کیا کہ چار کسان رہنماؤں کےقتل کرنے کی سازش کی  گئی ہے۔ اس کے بعد اس کو پولیس کو سونپ دیا گیا۔

نوجوان کے مطابق، ‘اسے کسانوں نے تب پکڑا جب وہ ایک لڑکی کے ساتھ تھا اور دہلی کے سنگھو بارڈر پر اس نے چھیڑ چھاڑ کا جھوٹا الزام لگایا۔’میڈیا سے بات کرتے ہوئے نوجوان نے دعویٰ کیا کہ دو لڑکیوں سمیت کل 10 لوگوں کو مظاہرہ  کے دوران تشدد کو اکسانے کا کام دیا گیا ہے۔

نوجوان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پولیس کی وردی پہنے ایک شخص نے اسے ٹریننگ بھی دی۔ حالانکہ، ذرائع  کا کہنا ہے کہ متعلقہ  پولیس اسٹیشن میں نوجوان کے ذریعےایسے کسی پولیس اہلکار کی پہچان نہیں کی گئی۔نوجوان کے مطابق ، ‘10 لوگوں کی ٹیم کو مظاہرہ کے دوران گولی باری کرنے کا کام سونپا گیا تھا تاکہ پولیس والوں کو ایسا لگے کہ گولی باری کسانوں کے ذریعے کی گئی ہے۔’

نوجوان نے کہا کہ سال 2016 میں جاٹ آندولن کے دوران ہوئے تشدد میں اس کا بھی رول تھا۔ اس کے بعد اس نے دعویٰ کیا کہ کرنال ضلع میں ہوئے لاٹھی چارج میں بھی وہ شامل تھا۔نوجوان کو پکڑنے کے بعد کسان رہنماؤں نے الزام  لگایا کہ ان کی  موجودہ تحریک  کو توڑنے کے لیے سازش کی جا رہی ہے۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک کسان رہنما نے کہا، ‘اس گروپ کو ہتھیار سونپے جانے والے تھے۔ 26 جنوری کو وہ پولیس پر گولی چلانے والے تھے تاکہ پولیس کو لگے کہ کسان پولیس پر گولی چلا رہے ہیں۔ (ٹریکٹر پریڈ کے دوران) قومی جذبات کو چوٹ پہنچانے کے لیے ان کا منصوبہ قومی ترنگے کو گرانے اور لوگوں کو بھڑ کانے کا بھی تھا۔’

انہوں نے کہا، ‘نوجوان نے ایسے چار کسان رہنماؤں کی تصویروں کی پہچان کی جنہیں کسی طرح سے نشانہ بنایا جانے والا تھا۔ یہ کام 23 جنوری کے بعد کبھی بھی کیا جانے والا تھا۔’بتا دیں کہ ان قوانین کے خلاف یوم جمہوریہ  پر کسانوں کی جانب  سے مجوزہ  ٹریکٹر ریلی کے تناظر میں دہلی پولیس اور کسان تنظیموں کے بیچ ہوئی اب تک کی بات چیت بے نتیجہ رہی ہے۔

کسان رہنما اپنے اس رخ پر قائم ہیں کہ 26 جنوری کو ملک کی راجدھانی کے مصروف باہری رنگ روڈ پر ہی یہ ریلی نکالی جائےگی۔وہیں، سرکار اور کسانوں کے بیچ جمعہ  کو ہوئی 11ویں دور کی بات چیت میں بھی مدعے کا کوئی حل نہیں نکل پایا کیونکہ کسان رہنما تینوں نئے زرعی قوانین کو پوری طرح واپس لیے جانے اورایم ایس پی کی قانونی گارنٹی دیے جانے کی اپنی مانگ پر پہلے کی طرح اڑے رہے۔

بات چیت  کے پچھلے 10 دور کے برعکس جمعہ کو 11ویں دور کی بات چیت میں اگلی بیٹھک کی کوئی تاریخ طے نہیں ہو پائی۔اس سے پہلے کسان تنظیموں  نے تین زرعی قوانین کے عمل  کو ڈیڑھ سال تک ملتوی  رکھنے اور حل کا راستہ نکالنے کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل سے متعلق مرکزی حکومت کی تجویز کو خارج کر دیا تھا۔ سرکار نے یہ یہ تجویز 10ویں دور کی بات چیت میں دی تھی۔

معلوم ہو کہ معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب  سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ  اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف  کسان مظاہرہ  کر رہے ہیں۔

کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں  کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل  نظام  بنا رہے ہیں۔

ان قوانین کے آنے سے بچولیوں کا رول ختم ہو جائےگا اور کسان اپنی اپج ملک میں کہیں بھی بیچ سکیں گے۔دوسری طرف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے ایم ایس پی کا سکیورٹی کوراور منڈیاں بھی ختم ہو جائیں گی اورکھیتی بڑے کارپوریٹ گروپوں  کے ہاتھ میں چلی جائےگی۔

(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)