خبریں

دہلی: کاروباری اور ریستوراں مالکوں نے گوشت کے ’حلال‘ یا ’جھٹکا‘ بتانے کے آرڈر پر اٹھائے سوال

اس سے پہلے ہندورائٹ ونگ اور سکھ تنظیموں کے ذریعے‘حلال’لفظ پر اعتراض  کے بعدمرکزی حکومت  کے ادارے اگریکلچر اینڈپروسیسڈ فوڈ پروڈکٹ ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے‘حلال’ لفظ کو ‘ریڈ میٹ ضابطۂ عمل’ سے ہٹا دیا تھا۔

(فائل فوٹو: رائٹرس)

(فائل فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: بی جے پی مقتدرہ ساؤتھ دہلی میونسپل کارپوریشن(ایس ڈی ایم سی)نے گوشت فروشوں اورگوشت بنانےوالی تمام دکانوں اور ریستوراں کویہ بتانا لازمی کر دیا ہے کہ وہ ‘حلال’گوشت کھلاتے ہیں یا‘جھٹکا’۔ایس ڈی ایم سی کا یہ آرڈرمرکزی حکومت کے زیرانتظام اگریکلچراینڈ پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹ ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی(اےپی ای ڈی اے)کی جانب سے‘حلال’لفظ کو ‘ریڈ میٹ ضابطۂ عمل’سے ہٹانے کی ہدایت  دینے کے تقریباً دو ہفتے بعد آیا ہے۔

ایس ڈی ایم سی کے اس آرڈرمیں ریستوراں  مالکوں میں بھرم اور تذبذب  کی حالت پیدا کر دی ہے، جبکہ میٹ کاروباریوں کو نہیں سمجھ میں آ رہا ہے کہ اس کا مقصد کیا ہے۔چونکہ اکثرمسلمان صرف‘حلال’طریقے سےذبح کیے جانے  والےگوشت  کا استعمال کرتے ہیں، اس لیے کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ ان کے کھانے کی ترجیحات  کی بنیاد پر دوکمیونٹی  کے بیچ واضح فرق  کرنے کا آرڈرجاری کیا گیا ہے۔

ایس ڈی ایم سی میں ایوان  کے رہنما نریندر چاولہ نے جمعرات  کو اعلان کرتے ہوئے کہا، ‘لوگوں کو یہ جاننے کا حق  ہے کہ وہ کیا کھا رہے ہیں اور اسے کیسے کھلایا جاتا ہے۔ ہم نے تمام ریستوراں اور دکانوں میں گوشت  کھلانے کے لیے ‘حلال’ گوشت یا ‘جھٹکا’گوشت لکھنا لازمی کر دیا ہے۔ ہم رجسٹرڈ ریستوراں کو (اس سلسلے میں)لکھیں گے۔

ایس ڈی ایم سی ہاؤس کے ذریعے پاس تجویز میں وارننگ  دی گئی کہ ضابطوں  کی دھجیاں اڑانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائےگی۔اس میں کہا گیا،‘ساؤتھ دہلی میونسپل کارپوریشن کے تحت آنے والے چاروں زون کے 104 وارڈوں میں ہزاروں ریستوراں ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ 90 فیصدی ریستوراں میں گوشت کھلایاجاتا ہے لیکن یہ ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ ریستوراں کے ذریعےدیا جا رہاگوشت‘حلال’ہے یا ‘جھٹکا’۔

کوئی مقصد نہیں

یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ یہ کسی حقیقی مقصد نہیں ہے کئی گوشت تاجروں ، ہوٹل مالکوں اور ریستوراں یونین نے آرڈر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ان میں سے کچھ نے بتایا کہ گوشت کاروبار میں ذبح کرنے کے طریقے کے بجائے قیمت بنیادی  طور پرتشویش کا موضوع  ہوتا ہے۔ دہلی میٹ مرچنٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری ارشاد قریشی نے کہا، ‘ہوٹل کاروباری اور دیگرتاجر عام طور پر دونوں (طریقوں)میں فرق نہیں کرتے ہیں اور ان کے لیے قیمت مدعا ہوتا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘مسلمان ہندوؤں کے مقابلے‘حلال’اور ‘جھٹکا’ میں زیادہ فرق کرتے ہیں۔گوشت  کاکاروبار بڑی تعدادمیں مسلمانوں کو روزگار بھی دیتا ہے۔ اندازہ  ہے کہ دہلی کے غازی پور کے سلاٹرہاؤس سے نکلنے والا 80 فیصدی سے زیادہ گوشت‘حلال’ ہوتا ہے۔

کنفیوژن

ایس ڈی ایم سی کے آرڈر سے کنفیوژن کی حالت پیدا ہونے کاخدشہ ہے، کیونکہ اب تک ریستوراں میں آنے والے اکثر لوگ اس بات کی بہت کم پروا کرتے تھے کہ گوشت کو کس طرح سے ذبح کیاگیا ہے۔چونکہ اکثر ہندوؤں کو ‘حلال’گوشت سے کوئی اعتراض  نہیں تھا، اس لیے اکثر ریستوراں اسے ہی بناتے تھے۔ لیکن اب ان میں سے کئی نے کہا کہ انہیں مانگوں کو پورا کرنے کے لیے دونوں طرح  کے گوشت کا اسٹاک کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ صرف لاگت اور خرچ کو بڑھائےگا۔

ایک مال میں ریستوراں چلانے والے ایک کاروباری  نے کہا کہ یہ آرڈر کاروباریوں پر غیرضروری لاجسٹک اکٹھا کرنے کا دباؤ ڈالےگا۔ انہوں نے آگے کہا کہ ‘حلال’ میٹ پوری دنیا میں قابل قبول  ہے اور غیر مسلم گراہکوں کے لیے یہ کبھی بھی کوئی مدعا نہیں رہا کہ میٹ کو کیسے کاٹا گیا ہے۔

اگریکلچر اور پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹ ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا آرڈ

بتا دیں کہ اس مہینے کی شروعات میں‘حلال’کی سند کے خلاف ہندورائٹ ونگ گروپ اور سکھ تنظیموں کی جانب سے سوشل میڈیا پر چلائی جا رہی  مہم  کے بیچ اے ای پی ڈی اے نے اپنے ‘ریڈ میٹ ضابطۂ عمل’ سے اس لفظ کو ہٹا دیا تھا۔

کامرس اور صنعتوں کی وزارت  کے تحت زرعی ایکسپورٹ کو سنبھالنے والی اے ای پی ڈی اے کے پہلے کے ریڈ میٹ ضابطۂ عمل میں کہا گیا تھا، ‘اسلامی ممالک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے‘حلال’طریقے کے مطابق جانوروں کو ذبح  کیا جاتا ہے۔’

حالانکہ، اے ای پی ڈی اے کے نئے ریڈ میٹضابطۂ عمل میں کہا گیا ہے، ‘جانوروں کاذبیحہ ملک/امپورٹ کرنے والے کی ضرورت کےمطابق کیا جاتا ہے۔’

اس کے ساتھ ہی اس نے ان لائنوں کو بھی ہٹا دیا ہے، جس میں کہا گیا تھا، ‘اسلامی شریعت کے اصولوں کے مطابق تسلیم شدہ اوررجسٹرڈ اسلامی اکائی  کی نگرانی میں جانوروں کو ‘حلال’طریقے سے ذبح کیا جاتا ہے۔ ‘حلال’کے لیے سند رجسٹرڈ اسلامی اکائی کے نمائندے کے ذریعے جاری کی جاتی ہے، جس کی دیکھ ریکھ میں امپورٹ  کرنے والے ملک میں میٹ کی ضرورت کے حساب سے جانوروں کوذبح کیاجاتا ہے۔’

ایکسپورٹ کرنے والوں نے بتایا کہ امپورٹ کیے گئے ملک کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے گوشت  کی تصدیق  کی جاتی ہے، جیسا کہ ترمیم شدہ ضابطۂ عمل میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘حلال’ لفظ  کو ہٹانے سے زمین پر بہت کم یا کوئی اثر نہیں پڑا، لیکن یہ قبول کیا کہ اس کی علامتی اہمیت ہوتی ہے۔

یہ آرڈر ہندو گروپوں کی جانب سے شکایت کے بعد آیا تھا کہ ضابطۂ عمل میں‘حلال’لفظ کا استعمال کرنے کا مطلب ہے کہ اے ای پی ڈی اے ایکسپورٹ کرنے والوں  کو صرف‘حلال’-مصدقہ گوشت خریدنے اور حاصل کرنے کے لیے لازمی بنا رہا تھا۔ وشو ہندو پریشدان تنظیموں میں سے تھی، جنہوں نے یہ مانگ اٹھائی تھی۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔