خبریں

سال 2007 میں اے ایم یو پر شائع ایک مضمون کے لیے ٹائمس آف انڈیا نے معافی مانگی

ٹائمس آف انڈیا نے سال 2007 میں‘اے ایم یو وہیر دی  ڈگریز آر سولڈ لائیک ٹافیز’عنوان  سے ایک مضمون چھاپا تھا، جس میں گمنام ذرائع  کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ یونیورسٹی میں ٹافیوں کی طرح ڈگری بانٹی جاتی ہیں۔ اس کے بعد ایک سابق اسٹوڈنٹ یونین لیڈر نے اخبار پر مقدمہ دائر کیا تھا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(فوٹو: پی ٹی آئی)

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  انگریزی کے اہم روزنامہ ٹائمس آف انڈیا(ٹی اوآئی)نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر توہین آمیزاور گمراہ کن مضمون شائع کرنے کے لیے معافی مانگی۔اخبار نے دہلی کی ایک سول عدالت میں 14 جنوری کو معافی نامہ  داخل کیا ۔ یہ مضمون 14 سال پہلے 29 ستمبر 2007 میں شائع کیا گیا تھا، جس کاعنوان تھا، ‘اے ایم یو: جہاں ڈگری ٹافیوں کی طرح بٹتی ہیں۔’

قانون کے سابق طالب علم فاروق خان نے یہ معاملہ دائر کیا تھا۔ وہ 2005 میں اسٹوڈنٹ  یونین کے جنرل سکریٹری  تھے اور فی الحال لاء پریکٹس کر رہے ہیں۔ٹی اوآئی میں2007 میں‘اے ایم یو وہیر دی  ڈگریز آر سولڈ لائیک ٹافیز’ نام سے اکھلیش کمار سنگھ کا لکھا مضمون شائع کیا گیا تھا۔

اسی سال خان یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوئے تھے اور انہوں نے اخبار کے پبلشر، ایڈیٹراور رپورٹر کے خلاف ہتک عزت  کا مقدمہ دائر کیا تھا۔اس معاملے کو 14 جنوری کو اس وقت سلجھا لیا گیا، جب اخبار نے عدالت میں معافی نامہ  داخل کرایا۔

حالانکہ، اس اسٹوری کو اخبار نے واپس نہیں لیا ہے اور یہ ابھی بھی ٹائمس آف انڈیا کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔

اس اسٹوری کے انٹرو میں کہا گیا ہے، ‘روایتی  ٹوپی شیروانی پرانا ہو گیا ہے اسی طرح آداب اور حضور جیسے لفظ بھی پرانے ہو گئے ہیں۔ ہاسٹل غنڈوں کے لیے شیلٹر ہو گئے ہیں اور تعلیم سیاسی ہو گئی ہے۔ اے ایم یو میں آپ کا استقبال ہے، ملک کی سب سے پرانی یونیورسٹی میں سے ایک، جو ہمیشہ غلط وجہوں سے خبروں میں رہی ہے۔’

اس اسٹوری میں گمنام ذرائع کا حوالہ دےکر کہا گیا کہ یونیورسٹی میں ٹافیوں کی طرح ڈگری بانٹی جاتی ہیں۔

اسٹوری میں کہا گیا تھا، ‘ایک سینئر فیکلٹی ممبر نے نام نہ ظاہر کرنےکی شرط پر بتایا کہ اے ایم یو کیمپس سے سٹے شمشاد مارکیٹ سے تھیسس اور سنوپسس خریدے جا سکتے ہیں۔ کوئی بھی ان کی حقیقت کو چیک کرنے کی زحمت نہیں اٹھاتا اور اس طرح ٹافیوں کی طرح ڈگریاں بانٹی جا رہی ہیں۔’

خان نے دی وائر کو بتایا کہ وہ اس اسٹوری سے بہت صدمے میں تھے اور انہوں نے محسوس کیا کہ اس کو لےکر کیس ضرور درج کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اظہار رائے  کی آزادی اور کسی ادارے  کے توہین  کے بیچ فرق ہے۔ انہوں نے کہا، ‘اب انہیں راحت ملی ہے کہ معافی مانگ لی گئی ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘انصاف میں دیری ہوئی لیکن انصاف ملا۔ پریکٹس کر رہے وکیل ہونے کے ناطے مجھے پتہ ہے کہ عدالت میں بہت سارے بیک لاگ ہیں لیکن اس طرح کے معاملے کے لیے ہمیشہ قانونی مدد لینی چاہیے اور انت بھلا تو سب بھلا۔’

انہوں نے کہا کہ یہ ایک فرضی تصورہے کہ یونیورسٹی کو بدنام کرنے کے لیے مقتدرہ بی جے پی  سرکار ہی ذمہ دار ہے۔ یونیورسٹی کے خلاف متعصب مہم  چلائی گئی  اور صرف فاشزم  اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اے ایم یو کو صرف فسطائی طاقتوں کے ذریعے ہی نہیں بلکہ لبرل ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ عوامی طور پر معافی چاہتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ جہاں تک معافی نامے کا سوال ہے، میں عدالت میں درج کرائے اپنے بیان پر قائم ہوں کہ میں معافی نامے کو سرکلیٹ نہیں کروں گا۔

خان مین اسٹریم  کے میڈیا پر نظر رکھتے ہیں اور پہلے بھی کئی نیوز چینلوں کو نوٹس بھیج چکے ہیں۔

دی  وائر کے ذریعے ٹائمس آف انڈیا کے ایڈیٹر ان چیف جےدیپ بوس سے رابطہ  کیا گیا تھا، لیکن کوئی ردعمل  نہیں ملا۔ ان کا جواب ملنے پر خبر میں جوڑا جائےگا۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)