خبریں

مندر میں نماز: ملزم کو ضمانت دیتے ہو ئے الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا-گرفتاری آخری آپشن

اتر پردیش میں متھرا کے نندمحل مندر میں مبینہ  طور پر بنا اجازت نماز پڑھنے کے لیے سماجی تنظیم  خدائی خدمت گار کے چار ممبروں  کے خلاف دو نومبر 2020 کو کیس درج کیا گیا تھا۔

الٰہ آباد ہائی کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

الٰہ آباد ہائی کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے معاملے میں ملزم کو پیشگی  ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ غیر معقول اور اندھادھند گرفتاریاں انسانی حقوق  کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔دہلی کی سماجی تنظیم  خدائی خدمتگار کے چارممبروں کے خلاف 2 نومبر، 2020 کو معاملہ درج کیا گیا تھا، ان میں سے دو لوگوں نے اتر پردیش کے متھرا کے نندمحل مندر میں مبینہ  طور پر نمازادا کی تھی۔

ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ان میں سے ایک فیضل خان کو دہلی سے گرفتار کیا گیا تھا اور جبکہ باقی کی پہچان چاند محمد، آلوک رتن اور نیلیش گپتا کے طور پر کی گئی تھی۔محمد کوگزشتہ19جنوری کو پاس ایک آرڈر میں ہائی کورٹ نے پیشگی  ضمانت دی تھی۔ فیضل کو 18 دسمبر، 2020 کو ضمانت دی گئی تھی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، منگل کی شنوائی کے دوران محمد کے وکیل علی قنبر زیدی نے کہا تھا کہ صرف وائرل ہوئیں تصویروں کی بنیاد پر نہیں کہا جا سکتا کہ عرضی گزار کی منشا سماج کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑنے کی تھی۔

معاملے میں ریاستی سرکار کی جانب سے پیش وکیل نے عرضی  کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ عرضی گزار کے خلاف لگائے گئے الزامات کی سنگینی  کو دیکھتے ہوئے وہ پیشگی  ضمانت دیےجانے کے حقدار نہیں ہیں۔

حالانکہ یہ دیکھتے ہوئے کہ ابھی یہ صاف نہیں ہے کہ پولیس محمد کو کب گرفتار کرےگی،سنگل بنچ  کے جج جسٹس سدھارتھ نے کہا، ‘پولیس کے لیے کسی ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے کوئی مدت  طے نہیں کی گئی ہے۔’

جج نے کہا، ‘عدالتوں نے باربار کہا ہے کہ گرفتاری پولیس کے لیے آخری آپشن  ہونا چاہیے اور اسے ان غیرمعمولی معاملوں تک محدود کیا جانا چاہیے، جہاں ملزم کو گرفتار کرنا لازمی ہے اور اس سے حراست میں پوچھ تاچھ ضروری ہے۔’

آرڈر میں کہاگیا ہے، ‘جوگندر کمار بنام اتر پردیش سرکار اے آئی آر 1994 کے معاملے میں سپریم کورٹ نے نیشنل  پولیس کمیشن کی تیسری رپورٹ کا حوالہ دیا تھا، جس میں ذکر کیا گیاتھا کہ ہندوستان  میں پولیس کے ذریعے گرفتاریاں پولیس میں بدعنوانی  کے بنیادی ذرائع میں سے ایک ہے۔’

آرڈر میں کہا گیا، ‘رپورٹ کہتی ہے کہ لگ بھگ 60 فیصدی گرفتاریاں یا تو غیرضروری  ہیں یا نامناسب اور اس طرح کی نامناسب پولیس کارروائی جیلوں کے خرچ کا 43.2 فیصدی ہیں۔’جج کا کہنا ہے کہ ذاتی آزادی  بیش قیمتی بنیادی حق ہے اور اسے تبھی روکا جانا چاہیے، جب وہ لازمی ہو۔ عدالت نے معاملے پر کوئی بھی رائے دینے سے انکار کر دیا اور پیشگی ضمانت دے دی۔