خبریں

کپڑے کے اوپر سے بچی کاسینہ دبانے کو جنسی تشدد نہیں کہہ سکتے: بامبے ہائی کورٹ

بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ  نے ایک بچی کوجنسی ہراساں کیے جانے کے لیے پاکسو اور آئی پی سی کےتحت قصوروار ٹھہرائے گئے ملزم کو پاکسو سے بری کرتے ہوئے کہا کہ اسکن ٹو اسکن کانٹیکٹ کے بنا جنسی حملہ نہیں مانا جا سکتا۔ کارکنوں  نے اس فیصلے کو توہین آمیزاور ناقابل قبول بتایا ہے۔

بامبے ہائی کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

بامبے ہائی کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ایک بےحدمتنازعہ فیصلے میں بامبے ہائی کورٹ کی ایک بنچ نے ایک شخص کو اس بنیاد پر کہ پاکسو قانون کے تحت کسی بچی کی چھاتی کو کپڑوں کے اوپر سے چھونا جنسی ہراسانی  کے دائرے میں نہیں آتا، جنسی ہراسانی کے معاملے سے بری کر دیا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق،ملزم ستیش بندھو رگڑے کو نچلی عدالت نے پاکسو ایکٹ کی دفعہ8،جو بچوں کوجنسی ہراساں کرنےپر لگائی جاتی ہے، اس کے تحت قصوروارمانا تھا، جس کو19 جنوری کو جسٹس پشپا وی گنیڈیوالا نے اپنے آرڈرمیں پلٹ دیا۔

یہ کہتے ہوئے کہ پاکسو ایکٹ کی دفعہ8 پانچ سال کی قیدکے تحت  سخت سزا دیتی ہے، ہائی کورٹ نے کہا کہ اس معاملے میں‘سنگین الزامات اور مضبوط شواہد’کی ضرورت ہے۔جج نے کہا، ‘یہاں کوئی براہ راست جسمانی رابطہ یعنی کسی جنسی  ارادے سے بنا پینیٹریشن کا کوئی اسکن ٹوا سکن کانٹیکٹ نہیں ہوا ہے۔’بنچ نے کہا کہ کسی خاتون یا بچی کی چھاتی کو دبانا اس کے وقار کوکم کرنا ہو سکتا ہے۔

جج نے کہا، ‘اس بحث کی روشنی میں عدالت عرضی گزار کو پاکسو ایکٹ کی دفعہ8 سے بری کرتی ہے، لیکن آئی پی سی کی دفعہ354 کے تحت انہیں قصوروار مانتی ہے اور انہیں جیل بھیجتی ہے۔’دفعہ354 کےتحت زیادہ سے زیادہ  پانچ سال اورکم از کم  ایک سال کی سزا کااہتمام  ہے۔ وہیں پاکسو قانون کے تحت جنسی حملے کی کم ازکم سزا تین سال کی قید ہے۔

جسٹس گنیڑیوالا نے کہا، ‘براہ راست استغاثہ کا کہنا ہے کہ متاثرہ کا اوپری کپڑا ہٹاکر اس کی چھاتی کو دبایا گیا، لیکن کسی خصوصی تفصیل، جیسے کیا اوپر کا لباس یا ٹاپ ہٹایا گیا تھا یا پھر اس شخص نے اپنا ہاتھ کپڑوں کے اندر ڈال کر اس کی چھاتی دبائی، کے فقدان میں اسے ‘جنسی ہراسانی’ نہیں کہا جا سکتا۔’

یہ واقعہ سال 2016 کا ہے، جب بچی کو پھل دینے کے بہانے سے اپنے یہاں لے جاکر ستیش نے بچی کو بند کر لیا تھا اور اس کی چھاتی دبائی تھی۔دیر تک بچی کے نہ آنے پر اس کی ماں نے اس کی تلاش شروع کی اور وہ ستیش کے گھر کے اوپری کمرے میں ملی، جو باہر سے بند تھا۔ بچی کی ماں نے بتایا تھا کہ اسے سیڑھیوں پر ستیش ملا تھا، جس سے انہوں نے بچی کے بارے میں پوچھا تھا، لیکن اس نے اس بارے میں کچھ پتہ نہیں ہونے کی بات کہی۔

اس کے بعد بچی نے اپنی ماں کو بتایا کہ ستیش اس کا ہاتھ پکڑکر بہانے سے اپنے گھر لے گیا تھا، جہاں اس نے بچی کی سلوار نکالنے کی کوشش کی اور اس کی چھاتی دبائی۔

ماں کی شکایت پر درج معاملے میں نچلی عدالت نے ستیش کو کو قصوروار مانتے ہوئے پاکسو قانون اور آئی پی سی کی دفعہ 354 کے تحت  تین سال قید کی سزا سنائی تھی اور یہ دونوں سزائیں ساتھ ساتھ چلنی تھیں۔ ساتھ ہی اس پر آئی پی سی کی دفعہ363 (اغوا) اور 342(غلط ارادے سے قید کرنا)بھی لگائی گئیں تھی۔

سیشن عدالت کے فیصلے کے خلاف ستیش نے اپنے وکیل صباحت اللہ کے ذریعے ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی، جہاں پبلک پراسکیوٹر ایم جے خان کا کہنا تھا کہ پاکسو ایکٹ کی دفعہ7 کے تحت چھاتی دبانا جنسی حملے کےدائرے میں آتا ہے۔

پاکسو کے تحت جنسی  حملے کی تعریف بتاتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا، ‘تعریف  کے مطابق، جرم  کے کچھ اہم عناصر ہیں یہ جنسی ارادے سے کیا گیا ہو، بچے کے اندام نہانی ، عضو تناسل ، مقعد یا چھاتی چھوئے گئے ہوں یا انہیں اس شخص یا کسی اور شخص کی اندام نہانی ، عضو تناسل ، مقعد یا چھاتی چھونے کو مجبور کیا گیا ہو یا پھر بنا پینیٹریشن کے جنسی ارادے سے کوئی اور فعل کیا گیا ہو۔’

جسٹس گنیڑیوالا نے کہا، ‘جنسی  حملے کی تعریف کےمطابق، کسی طرح کا جسمانی رابطہ، جو کسی جنسی ارادے سے بنا پینیٹریشن کے کیا گیا ہو، اس جرم کا کلیدی عنصر ہے۔ ‘کوئی اورفعل’یہ لفظ  ان کاموں کے لیے اکثر استعمال کیے گئے ہیں جو اسی طرح کے ہوں جن کے بارے میں تعریف  میں خصوصی طور پر بتایا گیا ہے۔ یہ کام  اسی طرح کے یا اس کے جیسے ہونے چاہیے۔’

اس فیصلے کے سامنے آنے کے بعد سے کافی تنازعہ  شروع ہو گیا ہے کیونکہ ہائی کورٹ کا اس طرح کا فیصلہ اسی طرح کے دیگر معاملوں کو متاثر کر سکتا ہے۔

کارکنوں  نے کیا اعتراض

کئی سماجی  اورچائلڈ رائٹس کے کارکنوں نے اس فیصلے کو شدید طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ بالکل ناقابل قبول، توہین آمیز اور نفرت انگیز ہے اور اسے واپس لیا جانا چاہیے۔چائلڈ رائٹس کے لیے کام کرنے والے این جی او بچپن بچاؤ آندولن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر دھننجئے تنگل نے کہا کہ ان کی لیگل ٹیم معاملے کو دیکھ رہی ہے اور اس بارے میں سارےڈیٹا اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے خبررساں  ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ وہ انہیں ملی جانکاری کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں اپیل کریں گے۔آل انڈیا پروگریسو ویمنس ایسوسی ایشن کی سکریٹری  اور کارکن کویتا کرشنن نے اس فیصلے کو بے حدتوہین آمیز بتاتے ہوئے کہا کہ یہ قانون کے خلاف ہے۔

کرشنن نے کہا، ‘پاکسو ایکٹ میں جنسی  حملے کی واضح  طور پرتعریف  کی گئی ہے اور اس میں جنسی ارادے سے چھونے کے بارے میں بھی اہتمام ہے۔ یہ کہہ کر کہ کپڑے کے ساتھ تھا اور اس کے بغیر قانون گھما دینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ یہ بالکل بکواس ہے۔ میرے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جینڈر سے جڑے معاملوں میں کون جج ہونے کا اہل ہے۔’

سماجی  کارکن شبنم ہاشمی نے بھی اس فیصلے کو لےکر ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور کہا، ‘یہ حیران کرنے والا ہے اور جج خود ایک خاتون  ہیں۔ میں بالکل سمجھ نہیں پا رہی ہوں کہ کوئی خاتون  جج کیسے اس طریقے کا فیصلہ دے سکتی ہیں۔’

پیپلس اگیسنٹ ریپ ان انڈیا کی سربراہ  یوگیتا بھیانا نے بھی اس فیصلے کو لے کر مایوسی کا ا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے بیان ہی مجرموں  کو حوصلہ  دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘ان جج کا یہ کہنا ہی بہت ہی دقیانوسی ہے۔’ انہوں نے آگے کہا کہ نربھیا معاملے کے بعد سے وہ لوگ زبانی اشاروں کو بھی تشدد کے خانے میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ  ترقی پسند ہوتے ہوئے سائبر بولئنگ کے مدعوں کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف اس طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں۔

(فائل فوٹو: رائٹرس)

(فائل فوٹو: رائٹرس)

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ثمینہ شفیق نے کہا کہ یہ شرمناک ہے کہ ایک خاتون  جج نے ایسا فیصلہ دیا ہے۔

ثمینہ نے کہا، ‘ایک عورت کے طور آپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کپڑے پہنے ہونے پر بھی کسی کا چھاتی دبانا بدقسمتی  سے اس ملک میں بہت عام ہے اور یہ بچیوں اور عورتوں کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح کی بات کہنا آدمیوں کو اور طریقے دےگا اور بچاؤ کے طور پر تو بالکل کام نہیں کرےگا۔’

سیودی چلڈرین کے ڈپٹی ڈائریکٹر پربھات کمار نے کہا کہ پاکسو ایکٹ کہیں بھی اسکن ٹو اسکن کانٹیکٹ کی بات نہیں کہتا ہے۔

کمار نے کہا، ‘یہ ایکٹ جسمانی(تشدد)کی بات کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ زبردستی جنسی تشدد کیا گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کا ایسا مطلب نکالنا غلط ہے۔ اگر اس قانون کے مفہوم  میں خامیاں ہیں تو ہمیں کوئی ایسا قانون چننا چاہیے، جس میں ایسے جرم  کے لیے سخت سے سخت سزا ہو۔ لیکن اس پر بھی عمل نہیں کیا گیا ہے۔’