خبریں

مہا راشٹر: چھ سالوں سے شنوائی کے انتظار میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار کارکن کی حراست میں موت

اسٹوڈنٹ رائٹس  کےلیے کام کرنے والی مہاراشٹر کے چندرپورضلع کی کارکن کنچن نانورے کو ماؤنواز تحریک میں مبینہ شمولیت کے لیے2014 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ سنگین بیماریوں سے جوجھ رہیں کنچن کو ضمانت نہیں دی گئی اور طبیعت بگڑنے پر 16 جنوری کو اسپتال میں بھرتی کیا گیا۔

کنچن نانورے (فوٹوا سپیشل ارینجمنٹ)

کنچن نانورے (فوٹوا سپیشل ارینجمنٹ)

ماؤنواز تحریک میں مبینہ شمولیت کے لیےسال 2014 میں گرفتار مہاراشٹر کے چندر پور ضلع کی اسٹوڈنٹ رائٹس کارکن کنچن نانورے کی پونے میں سرکاری سسون اسپتال میں موت ہو گئی۔ وہ دل  اوردماغی امراض سے جوجھ رہی تھیں۔

نانورے 38 سال کی تھیں اور آدی واسی کمیونٹی  سے تھیں۔ نانورے کو پیدائش سے ہی دل کی بیماری تھی اور وہ گزشتہ  ہفتےسےدماغ سے متعلق مرض سے جوجھ رہی تھیں۔ان کے اہل خانہ اور وکیلوں کا الزام ہے کہ نہ تو جیل اور نہ ہی اسپتال انتظامیہ  نے انہیں 16 جنوری کو ان کی برین سرجری ہونے تک اس کی جانکاری نہیں دی۔

گزشتہ دو سالوں میں نانورے نے اپنے وکیل کے ذریعے ضمانت کے لیے کئی بار سیشن عدالت اور بامبے ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔ ان کے وکیل پارتھ شاہ کا کہنا ہے، ‘ہر بار ان کی ضمانت عرضی خارج کر دی گئی۔’بامبے ہائی کورٹ کے سامنے اکتوبر میں ایک عرضی  دائر کی گئی تھی، جس میں میڈیکل بنیاد پر اور ان کی لگاتار خراب ہو رہی طبیعت کی وجہ سے ضمانت دیے جانے کی مانگ کی گئی تھی۔

ڈاکٹروں نے انہیں ہارٹ ٹرانس پلانٹ کا مشورہ  دیا تھا، جسے بھی عدالت کے سامنے رکھا گیا لیکن یہ عرضی  اب بھی زیر التواہے۔جب ان کی ضمانت عرضی پر ہائی کورٹ کےسامنےشنوائی ہوئی تو عدالت کو بتایا گیا کہ ان کے زندہ رہنے کے لیے ہارٹ ٹرانس پلانٹ  ہی واحدراستہ  ہے۔

عدالت نے ان کی صحت  پرغور  کرنے اور طبی  دیکھ ریکھ کے لیے ایک کمیٹی  بھی بنائی تھی لیکن زندگی  اور موت کے اس ااہم  معاملے پر بھی شنوائی میں مہینوں لگ گئے اور اس دوران ان کی موت ہو گئی۔نانورے پر جن نو معاملوں پر کیس درج کیا گیا، ان میں سے چھ میں وہ پہلے ہی بری ہو گئی تھیں۔ تین معاملے ایک گڑھ چرولی، پونے اور گوندیا ابھی بھی زیر التوا ہیں۔

گزشتہ چھ سالوں میں وہ مہاراشٹر کی مختلف جیلوں میں رہیں۔ انہیں ان کے شوہر ارون بیلکے کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا اور یو اے پی اے کے تحت ان کے خلاف معاملہ درج کیا گیا۔ بیلکے فی الحال جیل میں ہیں۔شاہ نے کہا کہ وہ شدید طور پر بیمار تھیں لیکن پھر بھی ان کے اہل خانہ کوفوراً اس کی جانکاری  نہیں دی گئی۔

شاہ نے کہا، ‘بیلکے کی فیملی کو 24 جنوری کو ایک خط ملا، جس میں ان کی(کنچن)بگڑتی حالت کے بارے میں بتایا گیا اور آج ایک فون آیا جس میں کہا گیا کہ ان کی موت ہو گئی ہے۔’وکیلوں کی ایک ٹیم عدالت کا رخ کر رہی ہے کہ ان کی لاش کو چندر پور کے بلارشاہ میں بیلکے کی فیملی کو دیا جائے۔

شاہ نے کہا، ‘ان کی موت کے بعد اہل خانہ  کو امید ہے کہ انہیں لاش مل جائےگی اور آخری رسومات کی ادائیگی  کی جائےگی۔’

نانورے نے 2004 میں اسٹوڈنٹ رائٹس کارکن کے طور پر سماجکی تحریک میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت سے ان کی معاون انورادھا سونولے یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ نانورے ، بیلکے اور کئی دوسرے طلبا 2004 سے ہی دیش بھکتی یووا منچ کا حصہ تھے۔

سونولے کو بھی کبیر کلا منچ کے کارکنوں کے ساتھ اسی طرح کے الزامات میں2011 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں 2014 میں ضمانت ملی تھی۔سونولے نے کہا، ‘ہم نے کئی طلبا تحریکوں میں حصہ لیا اور کسانوں، آدی واسیوں اور دلت کمیونٹی  سے جڑے کئی مدعوں پر اپنی آواز بھی اٹھائی۔ کنچن اپنی خراب طبیعت کے باوجود متحرک رہیں۔’

دیش بھکتی یووا منچ پر بعد میں ماؤنوازوں کی اغوا تنظیم  ہونے کا الزام لگایا گیا اور نانورے اور بیلکے کو 2008 میں پہلی بار گرفتار کیا گیا۔

ان دونوں اور درجن بھر سے زیادہ اسٹوڈنٹ پر علاقے میں نکسلی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا الزام  لگا اور ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔ وہ لگ بھگ سات مہینوں تک جیل میں رہے اور بعد میں انہیں بری کیا گیا۔

نانورے کی صحت کے بارے میں سن کر سونولے ساسون اسپتال پہنچی تھیں۔ انہوں نے بتایا، ‘مجھے ان سے ملنے نہیں دیا گیا لیکن ان کی سرجری کے بارے میں بتایا گیا۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ وہ سردرد کی شکایت کر رہی تھیں اور انہیں بلڈ کلاٹ کی پریشانی تھی۔ پونے کی وکیل گائتری کامبلے کو نانورے سے ملنے دیا گیا۔ سرجری کی وجہ سے نانورے بےہوش تھیں۔ بیلکے کو عدالت نے نانورے سے ملنے کی منظوری دی لیکن ان کے وکیلوں کا الزام ہے کہ جیل انتطامیہ نے فوراً ضرروی انتظامات نہیں کیے اور اس بیچ ان کی موت ہو گئی۔’

پچھلے سال مارچ میں ملک  میں کورونا کے معاملے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لےکر قیدیوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔مہاراشٹر سرکار نے بھی وعدہ کیا کہ وہ بھی جیل میں بند 11000 سےزیادہ  قیدیوں کو رہا کرےگا۔ کچھ قیدیوں کو رہا کیا گیا لیکن کئی اور کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔

مہاراشٹر کے محکمہ داخلہ نے بھی من مانے ڈھنگ سے ان قیدیوں کو ضمانت نہیں دی، جن کے خلاف سنگین الزامات ، بینک گھوٹالوں اور مکوکا، پی ایم ایل اے، ایم پی آئی ڈی، این ڈی پی ایس اور یو اے پی اے جیسے قوانین کے تحت معاملے درج ہیں۔

نانورے پر یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج تھا اور اس لیے انہیں ضمانت پر رہا نہیں کیا گیا۔ ان کی بیماری کی بھی ان دیکھی کی گئی۔نانورے کے وکیل روہن ناہر نے کہا کہ جن معاملوں میں 2014 میں انہیں گرفتار کیا گیا تھا، انہیں اس میں بھی قصوروار  نہیں ٹھہرایا گیا تھا۔

ناہر نے دی  وائر کو بتایا، ‘یہ بہت شرمناک  ہے کہ کنچن نانورے کی صحت  خراب ہونے کے باوجود عدالتوں نے انہیں ضمانت نہیں دی۔ ان پر ماؤنواز سرگرمیوں  میں شامل ہونے کا الزام تھا اور المیہ  یہ ہے کہ ہمیں یہ نہیں پتہ کہ کیا وہ اصل میں اس میں شامل تھیں۔’

دی  وائر نے یروڈا سینٹرل جیل اور سسون اسپتال سے اس پرردعمل  جاننے کی کوشش کی۔ ان کا جواب آنے پر اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائےگا۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)