خبریں

کسان ٹریکٹر پریڈ: 22 ایف آئی آر درج، جوڈیشیل جانچ کی مانگ کے لیے سپریم کورٹ میں عرضی

یوم جمہوریہ کے موقع پرمرکز کےتین زرعی قوانین کی مخالفت میں کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئےتشدد کے سلسلےمیں دہلی پولیس نے یوگیندریادو سمیت نو کسان رہنماؤں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی ہے اور تقریباً 200 لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔ تشدد کے دوران لگ بھگ 300 پولیس اہلکار زخمی  ہوئے ہیں۔

کسانوں پر دہلی پولیس کے ذریعےآنسو گیس چھوڑے گئے۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

کسانوں پر دہلی پولیس کے ذریعےآنسو گیس چھوڑے گئے۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکز کے تین زرعی قوانین کی مخالفت میں منگل کو یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئے تشدد کے سلسلے میں پولیس نے اب تک 22 ایف آئی آر درج کی ہے اور تقریباً 200 لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔

دہلی پولیس نے ایک اور ایف آئی آر درج کی ہے، جس میں سوراج ابھیان پارٹی کے رہنمایوگیندر یادو سمیت نو کسان رہنماؤں کو نامزد کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئےتشدد کے ایک دن بعد بدھ کو سپریم کورٹ میں تشدد کی جوڈیشیل جانچ کے لیے عدالت کے کسی ریٹائر جج کی صدارت میں ایک کمیشن بنانے کی مانگ کو لےکرعرضی داخل کی گئی ہے۔

عرضی میں 26 جنوری کو قومی ترنگاکی توہین اور تشدد کے لیے ذمہ دارافرادیاتنظیموں  کے خلاف متعلقہ تعزیری دفعات کے تحت متعلقہ اتھارٹی کو ایف آئی آر درج کرنےکی ہدایت دینے کی بھی مانگ کی گئی ہے۔

یوم جمہوریہ کے موقع پر مرکز کے تین نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی مانگ کو لے کر منگل کو ہزاروں کی تعداد میں کسانوں نے ٹریکٹر پریڈ نکالی تھی، لیکن کچھ ہی دیر میں دہلی کی سڑکوں پر افراتفری پھیل گئی ۔ کئی جگہ مظاہرین  نے پولیس کے بیریکیڈکو توڑ دیا، پولیس کے ساتھ جھڑپ کی، گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی اور لال قلعہ  پر ایک مذہبی پرچم لگا دیا تھا۔

وکیل وشال تیواری کی جانب سےسپریم کورٹ میں داخل عرضی میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کےریٹائرڈ جج کی قیادت میں تین رکنی  جانچ کمیشن کی تشکیل کی جائے، جو اس معاملے میں شواہد کو جمع کرے اور اسے ریکارڈ کرے اور طے وقت پرطریقے سے رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔ تین رکنی اس کمیشن میں ہائی کورٹ  کے دو ریٹائرڈ ججوں  کو شامل کرنے کی گزارش کی گئی ہے۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ تین نئے زرعی قوانین کے خلاف کسان تحریک  دو ماہ سے بھی زیادہ  سے چل رہی ہے اور ٹریکٹر پریڈ کے دوران اس نے ‘پرتشدد’شکل اختیار کر لیا۔اس میں کہا گیا کہ یوم جمہوریہ پر پولیس اور کسانوں کے بیچ ہوئےتشدد پر پوری دنیا کی نظریں گئی ہیں۔

عرضی میں کہا گیا،‘معاملہ اس لیےسنگین  ہےکہ جب کسانوں کا مظاہرہ  دو ماہ سے بھی زیادہ  سے پرامن  طریقے سے چل رہا تھا تو کیسے یہ تشدد  میں تبدیل ہو گیا اور اس سے 26 جنوری کو تشدد ہوا۔قومی سلامتی  اور پبلک سیفٹی میں یہ سوال قابل غور ہے کہ بدامنی پھیلانے کے لیے کون ذمہ دار ہے اور کیسے اور کس نے کسانوں کے پر امن مظاہرہ کو تشدد میں تبدیل کر دیا یا کس نے اور کیسے ایسے حالات پیدا کر دیےکہ مظاہرہ تشدد میں تبدیل  ہو گیا۔’

اس میں کہا گیا،‘دونوں جانب  سےالزام  لگ رہے ہیں اس لیے معاملے کی جانچ کسی آزادانہ  ایجنسی سے کرائی جانی چاہیے۔’

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، تشدد کے سلسلے میں دہلی پولیس نے تقریباً 200 لوگوں کو دنگا کرنے، سرکاری ملکیت کو نقصان پہنچانے اور پولیس پر حملہ کرنے کے الزام  میں حراست میں لیا ہے۔ایڈیشنل پی آراو(دہلی پولیس)انل متل نے کہا کہ منگل کو ہوئے تشدد کے سلسلے میں اب تک 22 ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئےتشدد میں لگ بھگ 300 سے پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔ اس دوران دہلی کے آئی ٹی اوپر ایک نوجوان  کی موت ہو گئی، جبکہ کئی زخمی ہو گئے۔بیریکیڈ سے ٹکراکر ٹریکٹر کے پلٹنے کے مبینہ حادثے میں ہلاک ہونے والے نوجوان  سمیت نامعلوم لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا گیا ہے۔

دہلی پولیس نے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی جاری کیا، جس میں مبینہ طور پر آئی ٹی او پر بیریکیڈ سے ٹکراکر ٹریکٹر پلٹنے کے واقعہ کو دیکھا جا سکتا ہے۔لوک نایک اسپتال کے میڈیکل افسر ڈاکٹر سریش کمار نے بتایا تھا، ‘کل ٹریکٹر پریڈ میں زخمی کل 86 لوگوں کو اسپتال لایا گیا تھا۔ ان میں 74 پولیس اہلکاراور 12 مظاہرین تھے۔ 86 لوگوں میں سے اکیلے 22 لوک نایک اسپتال میں جبکہ 64 سشرت ٹراما سینٹر میں علاج کے لیے لائے گئے تھے۔’

دہلی پولیس نے بتایا کہ زیادہ تر پولیس اہلکار مکربا چوک، غازی پور، آئی ٹی او، سیماپوری، نانگلوئی ٹی پوائنٹ، ٹکری بارڈر اور لال قلعہ  پر ہوئے تشدد میں زخمی  ہوئے ہیں۔پولیس ذرائع کے مطابق شرپسندوں نے ڈی ٹی سی کی آٹھ بسوں سمیت 17 نجی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ غازی پور، سنگھو اور ٹکری بارڈر پر مظاہرین نے پولیس بیریکیڈس بھی توڑے تھے۔

دہلی پولیس سے جڑے ذرائع  کے مطابق، ایف آئی آر درج کرنے کی کارروائی  گزشتہ  رات (منگل)سے شروع ہوئی۔

ایک پولیس ذرائع نے بتایا، پہلا کام تشدد کے ہر واقعہ میں مجرمانہ معاملہ درج کرنا ہے اور اس طرح کئی ایف آئی آر درج کی جائےگی۔ ایک بار ایف آئی آر درج ہونے کے بعد مشتبہ لوگوں کی پہچان کا عمل شروع کیا جائےگا۔ تشدد شروع کرنے کی سازش کوشواہد کے ساتھ جانچنے کی ضرورت ہے، جس میں سی ڈی آر تجزیہ  اور گواہوں کے بیان شامل ہوں گے۔

دہلی پولیس نے بتایا کہ کسانوں نے ٹریکٹر پریڈ کے لیےبن شرطوں کی خلاف ورزی کی ۔

انہوں نے کہا، ‘ہتھیار لےکرنہیں چلنا،طے شدہ راستے پر عمل  کرنا اور ٹرالیوں کے بنا ٹریکٹروں کے ساتھ دہلی میں داخل ہونا، یہ کچھ شرطیں تھیں جس پر رضامندی  کسان رہنماؤں اور پولیس کے بیچ بنی تھی، لیکن منگل کو ٹریکٹر پریڈ میں شامل کئی مظاہرین نے  ان کی خلاف ورزی کی۔’

دہلی پولیس کے مطابق، ‘زرعی قوانین کے خلاف مظاہرین کے مارچ میں اس شرط کی بھی خلاف ورزی  کی گئی کہ ایک ٹریکٹر پر پانچ سے زیادہ لوگ  سوار نہیں ہوں گے۔ یہ ٹریکٹر مارچ پر تشددہو گیا اور اس دوران مظاہرین  اور پولیس کے بیچ کئی جگہوں  پر جھڑپ ہوئی۔’

بتا دیں کہ اس سے پہلے منگل کو دن میں تین زرعی قوانین کے خلاف ہزاروں کسانوں نے پولیس کے بیریکیڈ کو توڑ دیا اور پولیس کے ساتھ جھڑپ کی، گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی اور لال قلعہ  مذہبی  جھنڈے پھہرائے۔

سنیکت کسان مورچہ کی جانب  سے یوم جمہوریہ کے موقع پر کسان ٹریکٹر پریڈ کا انعقاد کیا گیا تھا۔

معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب  سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ  اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف  کسان مظاہرہ  کر رہے ہیں۔

کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں  کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل  نظام  بنا رہے ہیں۔

ان قوانین کے آنے سے بچولیوں کا رول ختم ہو جائےگا اور کسان اپنی اپج ملک میں کہیں بھی بیچ سکیں گے۔دوسری طرف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے ایم ایس پی کا سکیورٹی کوراور منڈیاں بھی ختم ہو جائیں گی اورکھیتی بڑے کارپوریٹ گروپوں  کے ہاتھ میں چلی جائےگی۔

اس کو لےکر سرکار اور کسانوں کے بیچ 11 دور کی بات چیت ہو چکی ہے، لیکن ابھی تک کوئی حل نہیں نکل پایا ہے۔ کسان تینوں نئے زرعی قوانین کو پوری طرح واپس لیے جانے ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی دیے جانے کی اپنی مانگ پر پہلے کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔

 (خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)