خبریں

ٹریکٹر پریڈ: کیا طے شدہ روٹ پر پولیس بیریکیڈ کی وجہ سے کسانوں نے دوسرا راستہ چنا؟

یوم جمہوریہ کے موقع پر نکالے گئے ٹریکٹر پریڈ کے بعد یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ آخر کیوں کسانوں نے پولیس کے ذریعےطے شدہ  راستے پر پریڈ نہیں نکالا۔ حالانکہ دہلی کے کچھ علاقوں میں دیکھا گیا کہ پولیس  نے ان راستوں پر ہی بیریکیڈنگ کر دی تھی جس کی وجہ سے لوگ غصے میں آ گئے تھے۔

سنگھو بارڈر پر تعینات سکیورٹی فورسز۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

سنگھو بارڈر پر تعینات سکیورٹی فورسز۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:مرکز کے متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف گزشتہ26 جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر ہوئی تاریخی  ٹریکٹر ریلی کو لےکر میڈیا سے لےکر سوشل میڈیا تک متعدد سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔اس میں سے ایک اہم  سوال یہ ہے کہ آخر کیوں کسانوں نے دہلی پولیس کے ذریعے دیے گئے طے راستے سے الگ روٹ پر ریلی نکالی تھی؟ کیوں ٹریکٹر ریلی میں تشدد ہوا اور ایسے میں کسان رہنما کہاں تھے؟

ویسے تو یہ صاف ہے کہ مظاہرین  کے ایک بہت بڑے حصہ نے پولیس کے ذریعے دیے گئے روٹ پر ہی ریلی نکالی تھی اور یہاں مظاہرہ پر امن  تھا، حالانکہ لال قلعہ اور آئی ٹی او پر کسانوں کے ساتھ پولیس کی جھڑپ ہوئی، جس میں ایک نوجوان  کی موت ہو گئی اور کچھ کسانوں نے لال قلعے پر سکھوں کامذہبی  جھنڈا پھہرا دیا۔

کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ریلی میں کچھ ‘شرپسند عناصر’گھس آئے تھے اور انہوں نے تشدد کیا ہے، اس کا کسانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کچھ نے یہ بھی کہا کہ اس میں سیاسی پارٹیوں  کے لوگ شامل ہو گئے تھے اور انہوں نے کسان تحریک  کو بدنام کرنے کے مقصد سے ایسا کیا۔

دوسرا روٹ پکڑنے کے سلسلے میں کسانوں نے دی  وائر کے ساتھ بات چیت میں بتایا کہ چونکہ پولیس کے ذریعے طے کیے گئے روٹ پر بیریکیڈ لگا ہوا تھا، اس لیے انہیں مجبور ہوکر دوسرے راستےسے نکالنا پڑا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں دہلی کے راستے پتہ نہیں تھے، اس لیے وہ بھٹک گئے۔

کسانوں نے دہلی پولیس کی جانب سے منظور شدہ راستے پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر وہ سینٹرل  دہلی میں محض ایک ٹریکٹر ریلی نکالنا چاہتے ہیں، تو اس میں کیا غلط بات ہے۔‘دیہی  دہلی’ کہے جانے والے چھاولا، نانگلی، نانگلوئی، بروالا، نجف گڑھ، بپرول جیسے علاقوں  میں گزشتہ  منگل کو بڑی تعداد پولیس فورس کی تعیناتی کی گئی تھی۔ یہاں سے ٹکری بارڈر پر بیٹھے کسان ٹریکٹر پریڈ کے دوران گزر نے والے تھے۔

زیادہ تر ٹریکٹر پر ترنگا، نشان صاحب اور بھارتیہ کسان یونین کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ اس میں شامل لوگ بےحد جوش  میں حب الوطنی  کے گیت گا رہے تھے۔ ہر ایک ٹریکٹر پر مرد،عورت، بزرگ اور جوان بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک آوازمیں لوگ متنازعہ  تینوں زرعی قوانین کو رد کرنے کی مانگ کر رہے تھے۔

لوگ راستوں پر کھڑے ہوکر ریلی دیکھ رہے تھے، قریب آدھے گھنٹے بیت گئے، لیکن ٹریکٹر کا قافلہ تھم نہیں رہا تھا۔ ہر طرف ‘کسان ایکتا زندہ باد’کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔حالانکہ دہلی پولیس کے ذریعے کی گئی چوطرفہ بیریکیڈنگ، آنسو گیس کے گولے، واٹر کینن جیسی چیزوں نے کسانوں کو تذبذب  کی کیفیت  میں ڈال دیا، نتیجتاً لوگوں کے آنے جانے کا راستہ پوری طرح بند ہو گیا۔

جب یہ پوچھا گیا کہ کسانوں نے طے روٹ کو فالو کیوں نہیں کیا تو ٹریکٹروں کو ہدایت دے  رہے ایک شخص نے کہا، ‘یہ ریلی طے راستے پر ہی چل رہی تھی۔ لیکن ہر طرف بیریکیڈ لگاکر ہمارے سامنے مشکلیں کھڑی کر دی گئیں۔ بیریکیڈ توڑے جانے پر چاروں طرف افرا تفری کا ماحول بن گیا اور اس کے بعد ریلی منتشرہو گئی۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ دہلی کے راستوں کو نہیں جانتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنے دوستوں کا پتہ نہیں لگا پا رہے ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے لوگوں میں بہت غصہ آ گیا کہ جب لمبی بات چیت کے بعد ایک روٹ طے کیا گیا تھا تو آخر پولیس نے وہاں پر بیریکیڈنگ کیوں کر دی۔

وہیں دوسری طرف دہلی پولیس کو ٹکری بارڈر کی ریلی کو روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ رہا تھا۔ اعلیٰ حکام  بلاک کیے گئے راستوں کا چکر لگا رہے تھے اور اپنے افسروں کو کہا تھا کہ وہ نظر بنائے رکھیں۔

لیکن جو موقع پر موجود تھے، انہیں کئی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک جونیئر پولیس والے نے بتایا،‘ہم کیا کر سکتے ہیں؟ یہاں اتنے سارے ٹریکٹر ہیں۔ ہم انہیں کیسے روک سکتے ہیں؟ ہمیں ایک گھنٹے پہلے ہی یہ بیریکیڈلگانے کو کہا گیا تھا۔’

وہیں نانگلی میں خود کو کسان بتاتے والے بہار کے رام لال نے بتایا،‘یہاں کسان صرف نالہ پار کرکے اپنے کیمپ میں واپس جانا چاہتے تھے۔ یہاں بیریکیڈلگانے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ ہم لوگوں کو بھی بے وجہ پریشانی جھیلنی پڑی۔ کسی بھی کسان نے پولیس کے ساتھ جھڑپ نہیں کی، آخر ان پر کیوں حملہ ہو رہا ہے؟’

جب کسانوں کی ریلی نے آخرکار بیریکیڈکو پار کر لیا، تو رام لال جیسے سینکڑوں لوگ ٹریفک سے بچنے کے لیے ریلی میں شامل ہو گئے، تاکہ وہ اپنے گھروں تک آسانی سے پہنچ سکیں۔

کانگریس رہنما دگوجئے سنگھ نے بھی اسی طرح کاالزام  لگاتے ہوئے کہا کہ دہلی پولیس نے خود کے ذریعے طے شدہ راستے پر ہی بیریکیڈ لگا دیے تھے اور جب کسانوں نے اسے کھولنے کی مانگ کی تو ان پر آنسو گیس کے گولے چھوڑے گئے اور لاٹھی چارج کی گئی۔

انہوں نے کہا، ‘سنگھو اور ٹکری بارڈر پرپرامن  ٹریکٹر ریلی نکلی تھی۔ غازی پور بارڈر پر اس لیے دقت ہوئی کیونکہ دہلی پولیس نے جو روٹ دیا تھا وہ بدل دیا اور بیریکیڈ لگا دیا۔ جب کسانوں نے اسے کھولنے کی مانگ کی تو پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے چھوڑے۔ کسانوں نے 15 لوگوں کو پکڑکر دہلی پولیس کو دیے ہیں، ان سب کے پاس سرکاری اسٹاف  ہونے کا آئی ڈی  ملا ہے۔’

بتا دیں کہ یوم جمہوریہ کے موقع پر مرکز کے تین زرعی قوانین کی مخالفت میں کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئے تشدد کے سلسلے میں دہلی پولیس نے یوگیندر یادو سمیت نو کسان رہنماؤں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی ہے اور تقریباً 200 لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔ تشددکے دوران لگ بھگ 300 پولیس اہلکار زخمی  ہوئے ہیں۔

معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب  سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ  اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف  کسان مظاہرہ  کر رہے ہیں۔

کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں  کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل  نظام  بنا رہے ہیں۔

ان قوانین کے آنے سے بچولیوں کا رول ختم ہو جائےگا اور کسان اپنی اپج ملک میں کہیں بھی بیچ سکیں گے۔دوسری طرف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے ایم ایس پی کا سکیورٹی کوراور منڈیاں بھی ختم ہو جائیں گی اورکھیتی بڑے کارپوریٹ گروپوں  کے ہاتھ میں چلی جائےگی۔

اس کو لےکر سرکار اور کسانوں کے بیچ 11 دور کی بات چیت ہو چکی ہے، لیکن ابھی تک کوئی حل نہیں نکل پایا ہے۔ کسان تینوں نئے زرعی قوانین کو پوری طرح واپس لیے جانے ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی دیے جانے کی اپنی مانگ پر پہلے کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔