خبریں

سنگھو بارڈر پر کشیدگی، کسانوں اور مبینہ مقامی لوگوں کے بیچ جھڑپ کے بعد پولیس نے کیا لاٹھی چارج

زرعی قوانین کی مخالفت میں دہلی کے سنگھو بارڈر پرگزشتہ دو مہینوں سے مظاہرہ کر رہے کسانوں کی جگہ خالی کرا رہے مبینہ طور پر مقامی لوگوں کے ایک گروپ  کے ساتھ جھڑپ ہوئی ہے، جس میں ایک ایس ایچ او شدید طور پرزخمی  ہو گئے ہیں۔بڑی تعدادمیں سکیورٹی فورسز تعینات ہیں اور یہاں کسی کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔

دہلی کے سنگھو بارڈر پر ہوئی جھڑپ کے دوران ایک نوجوان کو پیٹتی پولیس۔ نوجوان پر ایک ایس ایچ او پر حملہ کرنے کا الزام  ہے۔ (فوٹو:  پی ٹی آئی)

دہلی کے سنگھو بارڈر پر ہوئی جھڑپ کے دوران ایک نوجوان کو پیٹتی پولیس۔ نوجوان پر ایک ایس ایچ او پر حملہ کرنے کا الزام  ہے۔ (فوٹو:  پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی حکومت کے تین زرعی قوانین کی مخالفت میں دہلی کے سنگھو بارڈر پر مظاہرہ  کر رہے کسانوں اور مقامی ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کے ایک بڑے گروپ کے بیچ جمعہ  کو جھڑپ ہو گئی، جس کی وجہ سےپولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا اور آنسو گیس کے گولے چھوڑنے پڑے۔

مقامی ہونے کا دعویٰ کر رہے لوگوں کا ایک گروپ  وہاں علاقے کو خالی کرانے پہنچا تھا۔ جھڑپ کے دوران دونوں فریق  نے ایک دوسرے پر پتھراؤ بھی کیا۔

ایک اہلکار نے بتایا کہ ایک شخص نے دہلی پولیس کے علی پور تھانہ انچارج(ایس ایچ او)پردیپ پالیوال پر تلوار سے حملہ کیا، جس سے وہ زخمی  ہو گئے۔ ساتھ ہی کچھ دیگر لوگ بھی زخمی  ہوئے ہیں۔ اہلکار نے بتایا کہ پولیس نے ایس ایچ او پر حملہ کرنے والے شخص کو حراست میں لے لیا ہے۔

مقامی ہونے کا دعویٰ کر رہے لوگوں کا گروپ  سنگھو بارڈر کو خالی کرانے کے لیے وہاں پہنچا تھا۔ ان لوگوں نے الزام  لگایا کہ انہوں نے (مظاہرین  کسانوں نے) یوم جمہوریہ پر ‘ٹریکٹر پریڈ’ کے دوران قومی ترنگے کی توہین کی۔

ڈنڈوں سے لیس مقامی لوگوں کا گروپ وہاں  پہنچا اور کسانوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ان سے وہاں سے جانے کو کہا۔ دونوں فریق  نے ایک دوسرے پر پتھراؤ بھی کیے۔ سنگھو بارڈر پر کافی حد تک باہر سے داخلہ کو روکا گیا ہے، لیکن مقامی لوگوں کی مخالفت کرنے کے لیے بڑی تعداد میں مظاہرین  وہاں آ رہے تھے۔

حالانکہ، کسان یونین کے رضاکاروں  نے انہیں فوراً روک دیا، جس سےحالت  زیادہ خراب نہیں ہو پائی۔

پنجاب کے رہنے والے 21سالہ  ہرکیرت مان بینی وال نے کہا، ‘وہ مقامی لوگ نہیں ہیں، بلکہ بھاڑے پر بلائے گئے غنڈے ہیں۔ وہ لوگ ہم پر پتھراؤکر رہے تھے اور پٹرول بم پھینک رہے تھے۔ انہوں نے ہماری ٹرالی بھی جلانے کی کوشش کی۔ ہم ان کی مخالفت کرنے کے لیےیہاں ہیں۔’

سنگھو بارڈر کے علاوہ ٹکری بارڈر اور دہلی یوپی کے غازی پور بارڈر پر بھی بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز  کو تعینات کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے جمعرات کو مقامی لوگوں نے کسانوں سے سنگھو بارڈر خالی کرنے کی مانگ کی تھی۔

کانگریس رہنما پرینکا گاندھی واڈرا نے کسانوں کے مظاہرے پر حملے کو لےکر ٹوئٹ کرکے کہا، ‘کسان کا بھروسہ ملک کی پونجی ہے۔ ان کے بھروسے کو توڑنا جرم  ہے۔ ان کی آواز نہ سننا پاپ ہے۔ ان کو ڈرانا دھمکانا مہا پاپ ہے۔ کسان پر حملہ، ملک  پر حملہ ہے۔ پردھان منتری جی، ملک کو کمزور مت کیجیے۔’

سنگھو بارڈر کو پرسکیورٹی انتظامات سخت، کسی کو وہاں  جانے کی اجازت نہیں

کسانوں کے مظاہرہ کے اہم مرکز‘سنگھو بارڈر’پر کئی سطحی سکیورٹی انتظامات کیےجانے، سبھی طرف بیریکیڈ لگائے جانے، تمام داخلہ  کو بند کرنے اور ہزاروں سکیورٹی فورسزکے مارچ کرنے کے ساتھ جمعہ  کو یہ جگہ ایک طرح سے قلعے میں تبدیل کر دی گئی۔

مقامی لوگوں اور مظاہرین کے بیچ آج ہوئی جھڑپ کے بعد سکیورٹی فورسز بے حد چوکسی سے کام لےرہے ہیں۔

دہلی میں یوم جمہوریہ کے موقع پر ہوئے تشددمیں 394 پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے اور ایک نوجوان  کی موت ہونے کے بعد یہاں  پرسکیورٹی  بڑھا دی گئی ہے اور پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ وہاں کنکریٹ کے کئی بیریکیڈ اوردیگر رکاوٹیں لگائی  گئی  ہیں اور کسی کو بھی، یہاں تک کہ میڈیااہلکاروں  کو بھی وہاں  نہیں جانے دیا جا رہا ہے۔

بیریکیڈ کے دوسری طرف کھڑے ہریانہ کے کیتھل کے 26سالہ منجیت ڈھلوں نے کہا، ‘یہ لاٹھیاں، آنسو گیس کے گولے اور ہتھیار ہمیں ڈرا نہیں سکتے۔ ہم نہیں جھکیں گے، ہم تینوں زرعی قوانین کو واپس لیے جانے کی مانگ پوری ہونے تک نہیں جائیں گے۔’

سنگھو بارڈر پر ہوئی جھڑپ کے دوران کسانوں پر پتھر پھینکتا ایک نوجوان۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

سنگھو بارڈر پر ہوئی جھڑپ کے دوران کسانوں پر پتھر پھینکتا ایک نوجوان۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

ویسے تو کچھ مظاہرین کے بیچ بےچینی نظر آ رہی ہے، لیکن سنیکت کسان مورچہ (ایس کے ایم)اور کسان مزدور سنگھرش سمتی(کےایم ایس سی)کے متعلقہ  منچوں پر کچھ نہیں بدلا ہے۔ ان منچوں پر پہلے کی طرح ہی اونچی آواز میں تقریرجا ری ہیں۔

ایس کےکےایم نے کےایم ایس سی ایکٹر سے رہنما بنے دیپ سدھو اور مرکزی حکومت پر 26 جنوری کو دہلی میں کسانوں کی ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئے تشددکو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

اس سے پہلے جمعرات کو سنیکت کسان مورچہ نے ایک بیان میں الزام  لگایا تھا، ‘ہم دہلی پولیس کی جانب سے بھیجے جا رہے نوٹسوں سے ڈریں گے نہیں اور ان کا جواب دیں گے۔ بی جے پی حکومت(مرکزکی)ریاستوں کی اپنی سرکاروں کے ساتھ مل کر 26 جنوری کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئے تشدد کاقصور سنیکت کسان مورچہ پر لگا کر تحریک  کو ختم  کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو قابل قبول نہیں ہے۔ پولیس مختلف جگہوں کو خالی کرانے کے لیے ہرممکن کوشش  کر رہی ہے۔’

اس پورے علاقے میں صرف 18 سالہ رام بھدوس کی دکان کھلی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘میں دکان نہیں کھولنا چاہتا تھا۔ میں ڈرا ہوا ہوں کہ کہیں حالات خراب نہ ہو جائیں۔ (لیکن)انہوں نے (سکیورٹی فورسز )مجھے چائے کی دکان کھولنے اور انہیں چائے پلانے کو کہا۔ انہوں نے کہا کہ وہ  میری حفاظت کریں گے۔’

تینوں نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی مانگ کو لےکر منگل کو یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کے ذریعے نکالی گئی ٹریکٹر پریڈپر تشدد ہو گئی تھی اور مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا تھا، گاڑیاں پلٹ دی تھیں اورتاریخی  لال قلعہ پر ایک مذہبی جھنڈا لگا دیا تھا۔

پولیس نے جمعرات  کو کسان رہنماؤں کے خلاف لک آؤٹ نوٹس جاری کیا اور یواے پی اے کے تحت ایک معاملہ درج کیا تھا۔ دہلی پولیس نے یوم جمہوریہ کےموقع پرہوئےتشدد کے پیچھے کی‘سازش’کی جانچ اسپیشل سیل سے کرانے کا اعلان  کیا تھا۔

اس تشدد کے سلسلے میں پولیس نے اب تک 33 ایف آئی آر درج کی ہیں اور کسان رہنماؤں سمیت 44 لوگوں کے خلاف لک آؤٹ نوٹس جاری کیے ہیں۔

ان ایف آئی آر میں راکیش ٹکیت، یوگیندریادو اور میدھا پاٹیکر سمیت37 کسان رہنماؤں کے نام درج کیے گئے ہیں۔ اس ایف آئی آر میں قتل  کی کوشش، دنگا اورمجرمانہ سازش کے الزام لگائے گئے ہیں۔حکام  کےمطابق، جن کسان رہنماؤں کے نام ایف آئی آر میں درج ہیں، انہیں اپنے پاسپورٹ بھی انتظامیہ  کے پاس جمع کرنے ہوں گے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)