فکر و نظر

کرشن دیو سیٹھی: کشمیر کی چلتی پھرتی تاریخ خاموش ہوگئی

سیٹھی صاحب بہترین مقرر اور ادیب تھے۔ ان کا کالم خاصا پر مغز ہوتا تھا۔ چونکہ وہ بائیں بازو نظریات کے حامی تھے، اس لیے 1962کی ہندچین جنگ کے دوران ان کو گرفتار کرکے ڈھائی سال تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ وہ موجودہ پارلیامانی جمہوری نظام کے بھی مخالفین میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس جمہوری نظام کے ستون یعنی سیاسی پارٹیاں جلد ہی سرمایہ دارانہ نظام کی غلام بن جاتی ہیں، کیونکہ انتخابات لڑنے کے لیے کثیر سرمایہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔

کرشن دیو سیٹھی، فوٹو بہ شکریہ فیس بک

کرشن دیو سیٹھی، فوٹو بہ شکریہ فیس بک

نوے کی دہائی میں دہلی میں جرنلزم کا کیریر شروع کرنے کے بعد جب سرینگر جانے کا موقع ملتا تھاتو میں جموں شہر میں اکثر ٹھہرتا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹر وید بھسین، معروف سیاسی کارکن اور دانشور بلراج پوری کے ساتھ ساتھ کرشن دیو سیٹھی اور کبھی کبھی اوم صراف سے شرف حاصل کرنا ہوتا تھا۔

ان مشاہرین کے ساتھ چند منٹ کی ملاقات ہی تاریخ کے ایسے دریچے کھول دیتی تھی، جو سینکڑوں کتابیں پڑھنے پر بھی حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ کسی شام کوجب یہ چاروں مشاہرین ریزیڈنسی روڑ پر واقع کشمیر ٹائمز کے دفتر یا اس کے متصل ریستوراں  میں وید بھسین کی میزبانی میں ایک ساتھ ملتے تھےتو دل میں بس یہی دعا ورد کرتی رہتی تھی کہ یہ ملاقات جلد ختم نہ ہو۔

اس قبیل کے آخری فرد کرشن دیو سیٹھی پچھلے ہفتے 93سال کی عمر میں جموں میں انتقال کر گئے۔ وہ ریاست جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے واحدبقید حیات رکن تھے۔ ان کی نگاہوں کے سامنے ہی اس آئین کو منسوخ کرکے ریاست کو تحلیل کیا گیا جس کو انہوں نے تشکیل دیا تھا۔بلراج پوری اور اوم صراف تو مصلحت پسند اشخاص تھے، وید بھیسن اور سیٹھی مصلحتوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

اس لیے وہ وقتاً فوقتاً عتاب کا بھی شکار ہوتے تھے۔ دونوں کشمیر میں استصواب رائے کے حامی تھے مگر اپنے آپ کو ہند نواز بھی کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر استصواب ہوتا ہے تو وہ ہندوستان  کے حق میں ووٹ ڈالیں گے، مگر صرف اس بنیاد پر کہ غالب آبادی ہندوستان  کو تسلیم نہیں کرےگی، اس حق کو دبایا نہیں جاسکتا ہے اور اس کے لیے آواز بھی بلند کرتے تھے۔

سیٹھی صاحب 1928میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے شہر میر پور میں پیدا ہوئے۔ 15سال کی عمر میں ہی انہوں نے ڈوگرہ حکومت کے جاگیر دارانہ نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سردار بدھ سنگھ، راجہ محمد اکبر خان، مولانا عبداللہ، حاجی عبدالرحمان اور حاجی وہاب الدین جیسے مقامی لیڈروں  نے ان کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم رول ادا کیا۔

کچھ عرصہ سے جموں میں اور خاص طور پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جب یہ شعوری طور پر کوششیں کی جا رہی تھی کہ ریاست جموں و کشمیر کے نجات دہندہ ڈوگرہ حکمران تھے اور مہاراجہ گلاب سنگھ اوران کے جانشین راجوں کو تاریخ کا ہیرو بناکر پیش کیاجانے لگا، جس میں پاکستانی کشمیر کے رہنما اور مجاہد اول کہلانے والے مرحوم سردار عبدالقیوم بھی پیش پیش تھے، تو کرشن دیو سیٹھی خاصے آزردہ تھے۔

انہوں نے اس  روش کے خلاف آوازاٹھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرکرن سنگھ اور ان کے کاسہ لیس متواتر یہ کوشش  کرتے رہے ہیں تاکہ ان کے آباو اجداد کو ہیرو اور خود ان کو ان کا وارث قراردے کر اس خطہ میں جاگیر دارانہ نظریات کااحیائے نو کیا جائے۔

سیٹھی صاحب کا کہنا تھا کہ جب راجہ گلاب سنگھ نے پہلے جموں کے عوام اور لاہورکے سکھ دربار سے بے وفائی کرکے جبر وتشدد کے ذریعے جموں و کشمیر کی ریاست میں اقتدار حاصل کیا اور ان کے لواحقین جانشین بن کر جاگیر دارانہ لوٹ کھسوٹ کرتے رہےتو  بھلا انہیں جموں کا ہیروکیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟

تاریخ بیان کرکے وہ کہتے تھے کہ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پیش قدمی کرکے جموں کو فتح کرنے کی کوشش کی تو جموں میں اس کی زبر دست مزاحمت ہوئی۔ جموں میں لاہور دربار کے خلاف زبر دست گوریلا لڑائی لڑی گئی، جس کی قیادت میاں ڈیڈو اوردوسرے کئی ڈوگرہ سرفروش کر رہے تھے۔

گلاب سنگھ نے ڈوگرہ سرفروشوں کو پیٹھ دکھا کر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازمت اختیار کرکے ڈوگرہ مدافعتی جنگ سے دامن بچایا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ایجنٹ بن کرمیاں ڈیڈو اوردوسرے کئی ڈوگرہ جیالوں کو قتل کیا۔ ڈوگرہ مدافعت کو کچلنے، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کو جموں میں وسعت دینے اورڈوگرہ سرفروشوں کو قتل کرنے کے عوض راجہ گلاب سنگھ کو جموں کی باج گزار ریاست عطا ہوئی۔

سکھ دربار کو خوش کرنے کے لئے میاں ڈیڈو کے علاوہ جسروٹہ، بلاور، بسوہلی،بھمبر، ٹکری،کرمچی،کشتواڑ، بھدرواہ، سراج، کوٹلی، راجوری، پونچھ، میر پور اور دوسرے علاقوں کے راجگان کے سرقلم کیے گئے یا انہیں ملک بدرکیا گیا۔سبز علی خان اور مالی خان کی خالوں میں بھوسہ بھر کردرختوں کے ساتھ لٹکایا گیا۔

لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوا اور انگریزوں نے پنجاب پر چڑھائی کی تو جموں کے یہ ہیرو لاہورکے دربار سے غداری کرکے انگریزوں سے مل گئے۔ اس خدمت خاص کے عوض اور 75 لاکھ روپے نانک شاہی کی رقم جو انگریزوں نے تاوان جنگ ڈالا تھا‘ کی ادائیگی کرکے ”بیع نامہ امرتسر“کے ذریعے کشمیر کا صوبہ راجہ گلاب سنگھ نے حاصل کیا۔

اس کے بعد جموں کے ”ہیروؤں“کے اس خانوادے نے جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ میں رقم ہے۔ کرشن دیو سیٹھی کا کہنا تھا کہ جموں کے اصل ہیرو تو میاں ڈیڈو، کیسری سنگھ‘ پونچھ کے راجہ علی خان، سبز علی خان، شمس خان‘ بھمبرکے راجہ سلطان خان وغیرہ اَن گنت لوگ ہیں جنہوں نے اپنی آزادی کی حفاظت کی خاطر جانیں دی۔

سن 1947کے واقعات کے وہ چشم دید گواہ تھے۔ وہ اس وقت میر پور جیل میں نظر بند تھے، کہ ایک ہجوم کے جیل پر حملہ کرکے قیدیوں کو آزاد کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں میں مسلم کش فسادات کروانے میں مہاراجہ ہری سنگھ اور ان کے وزیر اعظم مہر چند مہاجن نے بھر پور کردار ادا کیا۔ جموں کی سڑکوں پر قتل و غارت کو روکنے کے لیے وہ وید بھسین، بلراج پوری اور اوم صراف کی معیت میں مہاراجہ کے محل پہنچے۔

جہاں ان کو مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ پڑھے لکھے ڈوگرہ ہندو نوجوانو ں کو دیکھ کر وہ ان کو سمجھانے لگا کہ ان کو  اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوں کا مطالبہ کرنا چاہیے کیونکہ اب جمہوری دورکا آغاز ہو چکا ہے اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ”یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے۔“

وید بھسین اور کرشن دیو سیٹھی کے بقول اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، بالکل اس طرح۔ ”جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور وکفن لاشیں نظر آئیں جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے۔ مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر مصرتھے۔“

ان فسادات کے دوران ہی شیخ محمد عبداللہ کو ایمرجنسی ایڈمنسٹریشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور اسی حیثیت میں وہ جموں وارد ہوگئے۔ سیٹھی صاحب کا کہنا تھا کہ وہ، موتی لال بیگھڑا  اور مولوی محمدسعید مسعودی کے ہمراہ شیخ صاحب کے ساتھ مسلم ریفوجی کیمپ پہنچے۔ بجائے اس کے کہ شیخ ان لٹے پٹے لوگوں کی ڈھارس باندھتے، اور ان کی باز آباد کاری کے احکامات جاری کرتے، انہوں نے ریفوجیوں کو کوسنا شروع کیا۔

بقول سیٹھی، شیخ کے یہ الفاظ کہ ”جموں کے مسلمانوں نے مجھے کبھی لیڈر ہی نہیں تسلیم کیا“ ان کے لیے اور تمام  حاضرین کے لیے شاک تھے۔ اس وقت یہ شکوہ کرنے کی تک ہی نہیں بنتی تھی۔ ”ان کی باز آباد کاری کے بجائے مہاجن کی طرح وہ بھی ان ریفوجیوں کو پاکستان بھیجنے کی جلدی میں تھے۔“

سیٹھی صاحب اس کے بعد چودھری غلام عباس اور چودھری اللہ رکھا ساغر سے ملاقات کرنے کے لیے جیل چلے گئے اور ان کو نیم راضی کروایا کہ وہ جموں چھوڑ کر نہیں جائیں گے، ورنہ یہ خطہ مسلمانوں سے پوری طرح صاف ہوجائےگا۔ ساغر نے ان کو کہا کہ شیخ کو اس ملاقات  کے بارے میں نہیں بتانا۔ ”

میں نے بیوقوفی اور زعم میں شیخ صاحب کو ملاقات کے بارے میں بتایا اور ان سے گزارش کی کہ جموں کی مسلم لیڈرشپ کو جانے نہ دیں۔ مگر اگلے ہی دن انہوں نے حکم جاری کرکے مجھے راجوری-پونچھ کے لیے باز آباد کاری افسر مقرر کیا اور پیچھے چودھری عباس اور اللہ رکھا ساغر کو میر پور پہنچایا گیا اور ان کے بدلے برگیڈیر گھنسارا سنگھ، سجیل سنگھ اور کرنل مجید درانی کو جموں لایا گیا۔“

راجوری-پونچھ میں باز آبادکاری کے افسر کے بطور کام کرنے کے چند ہفتوں کے بعد ہی ہندوستانی فوج نے سیٹھی کو گرفتار کیا۔ الزام تھا کہ ان کے ہاتھ چینی حکومت کا ایک خط لگا ہے، جو سیٹھی کے نام تھا اور جس میں اس علاقے میں مسلمانو ں کی مدد کرنے کے لیےان کی ستائش کی گئی تھی۔ میجر جنرل مسری چند نے ان کو راجوری قلعہ میں قید کر لیا۔

ان کے ایک ساتھی ترال کے عنایت اللہ نے پیدل سرینگر پہنچ کر شیخ عبداللہ کو خبر کی، جس نے وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے مداخلت کی اپیل کی۔ نومبر کے ماہ میں جب رات کے وقت سیٹھی صاحب کو ایک سپاہی نے بتایا کہ ان کو گولی مارنے کے احکامات موصول ہوئے ہیں کہ دہلی سے مردولا سارا بائی اور جنرل یادوناتھ سنگھ وارد ہوگئے اور ان کو اپنے ساتھ جموں لے گئے اور اسی کے ساتھ اس پورے قضیہ کی تفتیش کے احکامات دئے گئے۔

معلوم ہوا کہ خط، ہی جعلی تھا۔ مسری چند کا رینک گھٹایا گیا، مگر اس نے استعفیٰ دیدیا۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈی این کول کا تبادلہ کیا گیا۔ سی آئی ڈی کے افراد جنہوں نے فوج کے ساتھ مل کر یہ سازش ترتیب دی تھی کو برخاست کر دیا گیا۔

سیٹھی صاحب بہترین مقرر اور ادیب تھے۔ ان کا کالم خاصا پر مغز ہوتا تھا۔ چونکہ وہ بائیں بازو نظریات کے حامی تھے، اس لیے 1962کی ہندچین جنگ کے دوران ان کو گرفتار کرکے ڈھائی سال تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ وہ موجودہ پارلیامانی جمہوری نظام کے بھی مخالفین میں تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس جمہوری نظام کے ستون یعنی سیاسی پارٹیاں جلد ہی سرمایہ دارانہ نظام کی غلام بن جاتی ہیں، کیونکہ انتخابات لڑنے کے لیے کثیر سرمایہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔

وید بھسین کی طرح وہ بھی اردو زبان کے دیرینہ محبوں اور بہی خواہوں میں شمار ہوتے تھے۔وہ ریاست کی ایک چلتی پھرتی تاریخ تھی۔ کشمیر کے ایک معروف صحافی منظور انجم کے مطابق جموں کشمیر کی تاریخ اور سیاست کا یہ سرگرم کردا ر اپنے پیچھے  دو بچوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں چھوڑ گیا۔ ”ؔ نہ کوئی بینک بیلنس، نہ کوئی کوٹھی یا مکان، نہ گاڑی نہ کوکوئی اور سامان۔اس کی موت پر آنسو بہانے والے ایسے بے شمار لوگ تھے،جوا س کے دھرم، قبیلے نہ اس کے لسانی و نسلی گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔وہ نظریاتی طور پر کمیونسٹ تھا، مگراس بنا پر کسی سے نفرت نہ کرتا تھا۔“

 انہوں نے ایک بار شیخ عبداللہ کو کہا تھا کہ ”میں تو لادین ہوں، مگر آپ اسلام کے پیرو کار ہیں اور آپ کا مذہب بتاتا ہے کہ مسلمان ایک ہی سوراخ سے بار بار نہیں ڈستا۔ آخر اب بار بار دہلی کے حکمرانوں پر اعتبار کیوں کرتے ہیں۔“

 وہ اقبال کے اس شعر کی بھر پور رتفسیر تھ:

ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انسا ن کو

اخوت کا بیان ہوجا، محبت کی زبان ہوجا

الوداع کرشن دیو سیٹھی صاحب، الوداع… ملک عد م میں وید بھسین، بلراج پوری اور اوم صراف، کب سے آپ کا انتظار کر رہے تھے۔شاید وہاں آپ کو محفل مل جائےگی، مگر شہر جموں تو اب پوری طرح درد مند مشاہرین سے خالی ہوگیا۔