خبریں

کسانوں کی حمایت کر نے پر دہلی پولیس نے گریتا تُنبیر کے خلاف ایف آئی آر درج کی

دہلی کی مختلف سرحدوں پر زرعی قوانین کی مخالفت  میں جاری  کسانوں کی تحریک کی ماحولیاتی کارکن گریتا تُنبیرنے حمایت  کی تھی۔ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد انہوں نے کہا ہے کہ وہ اب بھی کسانوں کے ساتھ ہیں۔

ماحولیاتی کارکن گریتا تُنبیر(فوٹو: رائٹرس)

ماحولیاتی کارکن گریتا تُنبیر(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: دہلی کی مختلف سرحدوں پر زرعی قوانین کی مخالفت میں گزشتہ  دو مہینے سے زیادہ سے چل رہی کسانوں کی  تحریک کی حمایت کرنے والی ماحولیاتی کارکن گریتا تُنبیر کے خلاف جمعرات  کو دہلی پولیس کی سائبر سیل نے ایف آئی آر درج کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق،گریتا کےخلاف آئی پی سی کی دفعہ153اے (مذہب اور کمکیونٹی کی بنیادپر دوطبقوں  کے بیچ نفرت کو بڑھاوا دینا)اور 120بی(مجرمانہ سازش)کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

گریتا نے کسانوں کی تحریک کی حمایت  میں گزشتہ تین فروری کو ٹوئٹ کیا تھا۔ سائبر سیل کے ذریعےکیس درج کیے جانے کے فوراًبعد گریتا نے ایک اور ٹوئٹ کرکے کہا، ‘میں ابھی بھی کسانوں کے ساتھ ہوں اور ان کے پرامن احتجاج کی حمایت کرتی ہوں۔ نفرت، دھمکی یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی  اسے کبھی بدل نہیں پائےگی۔’

دی  ہندو کی رپورٹ کے مطابق، ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ ایف آئی آرملک کو بدنام کرنے کی بین الاقوامی  سازش کا پتہ لگانے کےسلسلے میں درج کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ 18 سالہ گریتا نے ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ بھی شیئر کیا تھا، جس کو بعد میں ڈی لٹ کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا نام ایف آئی آر میں درج ہے، لیکن ملزم کے طور پرنہیں۔ دہلی پولیس سے اس بارے  میں مزید وضاحت   کا انتظار ہے۔

معلوم ہو کہ ماحولیات کے شعبے میں کام کرنے والی گریتا تُنبیرنے  سی این این کی اسٹوری شیئر کی اوربہت صاف طور پر کسانوں کی تحریک کو اپنی حمایت دی ۔ گزشتہ تین فروری کو انہوں  نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘ہم ہندوستان  میں کسانوں کی تحریک  کے لیے متحدہیں۔

ان سے ایک دن پہلے ریحانہ نے ‘انڈیا کٹس انٹرنیٹ اراؤنڈ نیو ڈیلٹی ایج پروٹیسٹنگ فارمرس کلیش ود پولیس’عنوان  سے شائع سی این این کی  ایک اسٹوری  کو شیئر کرکے  کسانوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کی ۔گزشتہ دو فروری کوریحانہ نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘ہم کسانوں کی تحریک  کے بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے ہیں؟’

ریحانہ اور گریتاکےبعد جہاں دنیا بھر کی کئی ہستیوں نے کسانوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کی،وہیں دونوں کوہندوستان  میں ٹرولنگ کا شکار بھی ہونا پڑا تھا۔کسانوں کی تحریک کو اب عالمی  سطح  پر مل رہی حمایت  کے بیچ وزارت داخلہ نے بیان جاری کرکے  اس کو غیرذمہ دارانہ  بتایا تھا۔

وزارت خارجہ  کےترجمان  انوراگ شریواستو نے بیان جاری کر کےکہا، ‘سنسنی خیز سوشل میڈیا ہیش ٹیگ اور کمنٹس سے لبھانے کا طریقہ، خاص کر جب مشہور ہستیوں اور دیگر لوگوں کے ذریعے کیا گیا ہو تو یہ نہ توصحیح ہے اور نہ ہی ذمہ دارانہ  ہے۔’

اس سلسلے میں وزارت خارجہ  نے کہا، ‘اس طرح کے معاملوں پر تبصرہ  کرنے سے پہلے ہم گزارش کرتے ہیں کہ حقائق کا پتہ لگایا جائے اور مدعوں کو ڈھنگ سے سمجھا جائے۔ ہندوستان  کی پارلیامنٹ نےمکمل  بحث اور چرچہ کے بعد زراعتی شعبے  سے متعلق اصلاحی قانون پاس کیے۔’

وزارت داخلہ  کے اس بیان کی  بہت سے ہندوستانی فن کاروں  اور کھلاڑیوں نےحمایت کی تھی۔

بتا دیں کہ دہلی کی مختلف سرحدوں پر تین زرعی قوانین کی مخالفت  میں 70 دنوں سے جاری  کسانوں کی تحریک کو لےکر پاپ گلوکارہ ریحانہ، ماحولیاتی کارکن گریتا تُنبیر، امریکی نائب صدر کملا ہیرس کی بھتیجی مینا ہیرس، یوٹیوبر للی سنگھ سمیت کئی لوگوں نے حمایت دی  ہے۔ اس قدم کے لیے انہیں سوشل میڈیا پر ایک طبقے کی جانب سے ٹرول کیا جا رہا ہے۔

کسانوں کی تحریک نے اس وقت عالمی سطح پر توجہ  کھینچی ہے، جب دہلی کی سرحدوں کو قلعے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے گاڑیوں کی آمدورفت کو روکنے کے لیے کئی سطح کی بیریکیڈنگ کی ہے۔ انٹرنیٹ خدمات  کو بند کر دیا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب  سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ  اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف  کسان مظاہرہ  کر رہے ہیں۔

کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں  کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل  نظام  بنا رہے ہیں۔

ان قوانین کے آنے سے بچولیوں کا رول ختم ہو جائےگا اور کسان اپنی اپج ملک میں کہیں بھی بیچ سکیں گے۔دوسری طرف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے ایم ایس پی کا سکیورٹی کوراور منڈیاں بھی ختم ہو جائیں گی اورکھیتی بڑے کارپوریٹ گروپوں  کے ہاتھ میں چلی جائےگی۔

 اس کولےکرسرکار اور کسانوں کے بیچ 11 دور کی بات چیت ہو چکی ہے، لیکن ابھی تک کوئی حل نہیں نکل پایا ہے۔ کسان تینوں نئےزرعی  قوانین کو پوری طرح واپس لیے جانے اورایم ایس پی کی قانونی گارنٹی دیےجانے کی اپنی مانگ پر پہلے کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔