فکر و نظر

ارندھتی را ئے کی خصوصی تحریر: نفرت کے خلاف محبت کی جنگ

سخن ہائے گفتنی: محبت کی خاطر کی جا رہی اس جنگ میں یہ ضروری ہے کہ اس کو فوجی کی طرح  لڑا جائے اور خوبصورت طریقے سے جیتا جائے۔

 (فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

میں2021 ایلگار پریشد کے منتظمین کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے مجھے آج کے دن یہاں مدعو کیا۔ آج کا دن جو روہت ویمولہ کی 32ویں سالگرہ ہوتی اور جو 1818 میں بھیما کورےگاؤں  کی لڑائی میں فتح  کا دن ہے۔وہ جگہ یہاں سے دور نہیں ہے، جہاں برٹش آرمی میں لڑنے والے مہار فوجیوں نے پیشوا راجہ باجی راؤ دوئم  کو ہرایا تھا، جن کی حکومت میں مہار اور دوسری دلت کمیونٹی ستائی جاتی رہی تھیں اور انہیں اس قدر باقاعدگی سےذلیل وخوار کیا جاتا کہ بیان کرنا مشکل ہے۔

یہاں موجودمقررین کے ساتھ اپنی آواز کو ہم آہنگ کرتے ہوئے میں کسانوں کی تحریکات کے ساتھ اپنی یکجہتی کا مظاہرہ  کرتی ہوں، جن کامطالبہ ہے کہ ان زرعی قوانین  کو فوراً واپس لیا جائے جنہیں زبردستی لاکھوں کسانوں اور کھیتی کرنے  والے مزدوروں کےپرتھوپ دیا گیا ہے،جس کی وجہ سے وہ سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ ہم یہاں ان لوگوں کے لیے، جن کی موت اس تحریک  کے دوران ہوئی ہے، افسوس اور غصہ ظاہر کرنے آئے ہیں۔

دہلی کی سرحد پر حالات کشیدہ  ہیں اور خطرناک ہوتے جا رہے ہیں، جہاں دو مہینوں سے کسانوں نے امن  کے ساتھ ڈیرہ  ڈال رکھا ہے۔ اس تحریک  میں پھوٹ ڈالنے اور اس کو بدنام کرنے کی ہر ممکن تدبیر اپنائی جا رہی ہے، اکسایا  جا رہا ہے۔ ہمیں اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ کسانوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔

ہم یہاں ان درجنوں سیاسی  قیدیوں کی رہائی کامطالبہ کرنے بھی جمع ہوئے ہیں، جن کو سخت قوانین کے تحت بے تکے الزامات میں جیل میں بند رکھا گیا ہے۔ اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں اب بھیماکورے گاؤں16 کے  نام سے جانا جاتا ہے۔

ان میں سے کئی نہ صرف جدوجہدکے ساتھی ہیں، بلکہ میرے دوست ہیں جن کے ساتھ مل کر میں ہنسی ہوں، جن کے ساتھ چلی ہوں، جن کے ساتھ میں نے کھانا کھایا ہے۔

کسی کو بھی اس میں یقین نہیں ہے، شاید ان کو قید کرنے والوں کو بھی کہ انہوں نے سچ مچ وہ  گھسے پٹے جرم  کیے ہیں جن کے الزام ان پر لگے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ وہ جیل میں ہیں کیونکہ وہ ایک واضح فہم اوراخلاقی جرأت  رکھتے ہیں اور یہ دونوں ہی خوبیاں ایسی ہیں جنہیں یہ حکومت ایک اہم خطرے کے طور پر دیکھتی ہے۔

کوئی ثبوت موجود نہیں ہے تو اس کی کمی پوری کرنے کے لیے کچھ لوگوں کے خلاف دسیوں ہزار صفحات کی چارج شیٹ داخل کی گئی ہے۔ ایک جج کو ان پر فیصلہ کرنے کی بات تو دور، ان کو بس پڑھنے بھر میں کئی سال لگ جائیں  گے۔

فرضی الزامات سے اپنادفاع کرنا اسی طرح مشکل ہے، جس طرح سونے کا ناٹک کر رہے کسی انسان کو بیدار کرنا۔ ہندوستان  میں ہم نے سیکھا ہے کہ قانونی کارروائی پر منحصر رہنا ایک جوکھم بھرا کام ہے۔ویسے بھی، کہاں اور کب ایسا ہوا کہ عدالتوں نے فسطائیت کی لہر کو موڑ دیا ہو؟ ہمارے ملک میں قوانین پر بہت چنندہ طریقے سے عمل کیا جاتا ہے، جو آپ کی کمیونٹی، کاسٹ،قومیت، مذہب،صنف اورسیاسی خیالات پر منحصرکرتا ہے۔

اس لیے جہاں شاعر اور پادری، طلبا،کارکن، ٹیچر اور وکیل جیل میں ہیں،قتل عام  کرنے والوں، سلسلےوار قتل کرنے والوں (سیریل کلر)، دن دہاڑے پیٹ پیٹ کر قتل  کرنے والی بھیڑ، بےایمان ججوں اور زہر فشانی کرنے والے ٹی وی اینکروں کو انعام سے نوازا جا رہا ہے اور وہ  اعلیٰ عہدے کی امید کر سکتے ہیں… سب سے اعلیٰ عہدے کی بھی۔

کوئی بھی انسان جو اوسط سمجھ رکھتا ہو، وہ اس پیٹرن کو دیکھنے سے چوک نہیں سکتا کہ کیسے ایک ہی طریقے سے اکسانے والے عناصر کے ذریعے2018 کےبھیما کورےگاؤں  ریلی، 2020 کے سی اےاے مخالف مظاہروں  اور اب کسانوں کی تحریکات کو بدنام کرنے اور انہیں توڑنے کی کوشش ہوئی ہے۔

ایسے کام سے ان کا کچھ نہیں بگڑتا، جو دکھاتا ہے کہ موجودہ حکومت میں انہیں کتنی حمایت حاصل ہے۔ چاہے تو میں آپ کو یہ دکھا سکتی ہوں کہ دہائیوں سے کس طرح باربار دہراتے ہوئے یہی پیٹرن ان لوگوں کواقتدارمیں لے آیا ہے۔ اب جب مغربی بنگال میں انتخاب قریب آ رہے ہیں، ہم سہمے ہوئے انتظار کر رہے ہیں کہ ریاست کے لوگوں کو جانے کیا دیکھنا ہے۔

کارپوریٹ میڈیا نے پچھلے دو برسوں میں ایک ایونٹ اور ایک تنظیم  کی صورت میں ایلگار پریشد کو لگاتار بدنام کیا ہے۔ایلگار پریشدبہت سے عام لوگوں کے لیے، دولفظوں  کا یہ نام ریڈیکل لوگوں کا دہشت گردوں ، جہادیوں، اربن نکسلیوں، دلت پینتھرس کا ایک ایسامشتبہ خفیہ گروہ بن گیا ہے، جو ہندوستان  کو برباد کرنے کی سازش میں لگا ہوا ہے۔

بدنام کرنے، دھمکانے، ڈرانے اور گھبراہٹ پھیلا دینے والے ماحول میں، اس تقریب کاانعقاد ہی اپنے آپ میں حوصلےاورچیلنج کی ایسی کارروائی ہے، جس کو سلام کرناچاہیے۔یہاں  موجود ہم لوگوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ جتنا ممکن ہو بےباکی سے ہم اپنی بات رکھیں۔

کچھ ہفتے پہلے امریکہ میں 6 جنوری کو، جب ہم نے جھنڈوں، ہتھیاروں، پھانسی کی سولی اور صلیبوں سے لیس، پھر اور ہرن کے سینگ پہنے ہوئے ایک عجیب و غریب بھیڑ کو امریکی پارلیامنٹ پر حملہ کرتے دیکھا تو میرے ذہن میں ایک خیال اٹھا، ‘بھلا ہو ہمارا، ہمارے ملک میں ہم پر تو ان کے جیسے لوگوں کی حکومت چل رہی ہے۔ انہوں نے ہماری پارلیامنٹ  پر قبضہ کر رکھا ہے۔ وہ جیت چکے ہیں۔’

ہمارے اداروں  پر ان کا قبضہ ہے۔ ہمارے رہنما ہر روز الگ الگ قسم کے پھروں اور سینگوں میں نظر آتے ہیں۔ ہماری پسندیدہ دوا گئوموتر ہے۔ وہ اس ملک کے ہرایک جمہوری ادارے کو تباہ کرتے جا رہے ہیں۔

امریکہ بھلے ہی بڑی مشکل سے، اس دہانے سے لوٹ پانے میں کامیاب رہا اور کچھ کچھ اپنی سلطنت کے عمومی  چال چلن کی جھلک دینے لگا ہے۔ لیکن ہندوستان  میں ہمیں ماضی  میں صدیوں پیچھے لے جایا جا رہا ہے، جس سے بچنے کے لیے ہم نے اتنی سخت کوششیں کی ہیں۔

نہیں ہم وہ نہیں ہیں ایلگار پریشد کا یہ جلسہ کوئی ریڈیکل یاانتہا پسندی نہیں ہے۔ یہ ہم نہیں ہیں جو اصل میں کوئی غیر قانونی اور غیرآئینی کام کر رہے ہیں۔یہ ہم نہیں ہیں جنہوں نے اپنی نظریں پھیر لیں یا کھلے طور پرقتل عام کو بڑھاوا دیا، جن میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کا قتل کیا جاتا رہا ہے۔

یہ ہم نہیں ہیں جو شہروں کی سڑکوں پر سرعام دلتوں کو کوڑے لگائے جاتے ہوئے چپ چاپ دیکھتے ہیں۔ یہ ہم نہیں ہیں جو لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر رہے ہیں اور نفرت اور پھوٹ کے دم پر حکومت چلا رہے ہیں۔

یہ کام ان لوگوں کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے جنہیں ہم نے اپنی سرکار کے طور پرچنا ہے اور ان کی پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعےانجام دیا جا رہا ہے جو خود کو میڈیا کہتا ہے۔بھیما کورےگاؤں  کی لڑائی کے دو سو سال گزر چکے ہیں۔ برٹش لوگ جا چکے ہیں، لیکن استعماری  ڈھانچہ ابھی بھی بنا ہوا ہے، جو ان سے بھی صدیوں پہلے سے چلا آ رہا تھا۔

پیشوا جا چکے ہیں، لیکن پیشوائی یعنی برہمنواد نہیں گیا ہے۔ یہاں آپ سب سننے والوں کے لیے مجھے یہ کہنا ضروری نہیں ہے، لیکن جو نہیں جانتے ان کے لیے مجھے کہنا ہوگا کہ برہمنواد ایک ایسا نام ہے جس کا استعمال کاسٹ مخالف تحریک تاریخی طور پرکاسٹ سسٹم کے لیے کرتی  رہی ہیں۔

اس کا مطلب صرف برہمن نہیں ہے۔ حالانکہ اس برہمنواد کو ایک کارخانے میں لے جایا گیا تھا، جہاں اسے جدید، جمہوری  لگنے والے جملے دیے گئے اور کاسٹ سسٹم پر قابو رکھنے کا ایک باریک اور ترقی یافتہ  دستورالعمل اور پروگرام ملا ہے (جو نیا نہیں ہے، بس اس کی کمزوریاں دور کر دی گئی ہیں)۔

اس نے دلت اور دوسری پسماندہ کمیونٹی  کی رہنمائی والی سیاسی پارٹیوں کے سامنے وجود کا مسئلہ  کھڑا کر دیا ہے، جن سے کبھی کچھ امید ملتی تھی۔اکیسویں صدی کے برہمنواد کا چنا ہوا واہن، برہمن قیادت  والا آر ایس ایس ہے، جو ایک صدی کی انتھک محنت کے بعد اپنے نامی ممبر نریندر مودی کے ذریعے دہلی میں اقتدار پر قابض ہے۔

کئی لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ جدید سرمایہ داری ہندوستان میں ذات پات کو ختم کر دےگی یا کم سے کم اسے بیکار بنا دےگی۔ خود کارل مارکس کا بھی یہی ماننا تھا۔ لیکن کیا ایسا ہوا؟

لاک ڈاؤن کے دوران پیدل جاتے مزدور۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

لاک ڈاؤن کے دوران پیدل جاتے مزدور۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

دنیا بھر میں سرمایہ داری  نے اس کویقینی بنایا ہے کہ دولت روز بہ روز بہت ہی تھوڑے سے ہاتھوں میں سمٹتی چلی جائے۔ ہندوستان  میں 63 سب سے امیر لوگوں کے پاس جتنی دولت ہے وہ 1.3ارب لوگوں کے لیے 2018-19 کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔

حال میں آکسفیم کے ایک مطالعے میں پایا گیا کہ کورونا وبا کے دوران ہندوستان میں جہاں کروڑوں لوگوں نے لاک ڈاؤن میں اپنا روزگار کھویا اپریل 2020 کے مہینے میں ہرایک گھنٹے میں1 لاکھ 70 ہزار لوگوں کے ہاتھوں سے کام چھن رہا تھا، وہیں اسی دوران ہندوستان  کے ارب پتیوں کی دولت 35 فیصدی بڑھ گئی۔

ان میں سے سب سے امیر سو لوگوں نے چلیے انہیں کارپوریٹ کلاس کہتے ہیں– اتنا پیسہ بنایا کہ اگر وہ چاہتے تو ہندوستان  کے سب سے غریب 13 کروڑ 80 لاکھ لوگوں میں سے ہرایک کو قریب 1 لاکھ روپے دے سکتے تھے۔

کارپوریٹ میڈیا کے ایک اخبار نے اس خبر کی یہ ہیڈ لائن لگائی: کووڈ ڈیپینڈ ان ایکولٹیز: ویلتھ، ایجو کیشن، جینڈر(کووڈ سے گہراتی غیر برابری: دولت،تعلیم، صنف)۔ بےشک اخبار کی اس خبر سے اور ہیڈ لائن سے جو لفظ  غائب تھا وہ تھا، کاسٹ۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس چھوٹے سے کارپوریٹ کلاس جس کے پاس بندرگاہ، کانیں، گیس کے ذخائر، ریفائنریاں، ٹیلی کمیونی کیشن، ہائی اسپیڈ ڈیٹا اور موبائل نیٹ ورک، یونیورسٹی، پیٹروکیمیکل کارخانے، ہوٹل، اسپتال، اور ٹی وی کیبل نیٹ ورک ہیں ایک طرح سے ہندوستان  پر جس کا مالکانہ ہے اور جو اسے چلاتا ہے، کیا اس کمیونٹی کی کوئی کاسٹ  ہے؟

کافی حد تک، ہاں۔ متعدد سب سے بڑی  ہندوستانی کارپوریٹ کمپنیاں پریواروں کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔ کچھ ایک سب سے بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کی مثال لیں ریلائنس انڈسٹریز لی۔ (مکیش امبانی)، اڈانی گروپ (گوتم اڈانی)، آرسیلر متل (لکشمی متل)، او پی جندل گروپ (ساوتری دیوی جندل)، بڑلا گروپ (کے ایم بڑلا)۔

وہ  خود کو ویشیہ کہتے ہیں۔ وہ بس ‘ودھی کے ودھان’ میں لکھا ہوا اپنا فرض  پورا کر رہے ہیں پیسہ بنا رہے ہیں۔

کارپوریٹ میڈیا کے مالکان کے بارے میں زمینی مطالعات کو دیکھا جائے، اور ان کے مدیران  ،ان میں باقاعدگی  سے لکھنے والے کالم نگاروں  اور سینئر صحافیوں  کا ذات پات کے لحاظ سے حساب  لگایا جائے تو اس سے اجاگر ہوگا کہ خبروں کو بنانے اور چلانے کے معاملے میں بااثر کمیونٹی،بالخصوص  برہمن اور بنیا کمیونٹی کا کتنا دبدبہ ہے– چاہے خبریں اصلی ہوں یا فرضی۔

دلت، آدی واسی اور اب دن بہ دن مسلمان اس پورے منظر نامےسے ہی غائب ہیں۔ اوپری اور نچلی عدالتوں  میں، سول سروس، خارجہ خدمات کے بڑے عہدوں پر، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کی دنیا میں، یاتعلیم، ہیلتھ اور اشاعتی شعبے میں اچھی نوکریوں میں یا اقتدار کے کسی بھی دوسرے حصہ میں حالات الگ نہیں ہیں۔

برہمن اور بنیا دونوں ملاکر کل آبادی کے شاید دس فیصدی سے بھی کم ہوں گے۔ ذات پات اور سرمایہ داری  نے آپس میں مل کر خاص طور سے ایک نقصاندہ اور کھوٹی چیز تیار کی ہے جو خالص ہندوستانی ہے۔وزیر اعظم مودی کانگریس پارٹی کی اقربا پروری والی سیاست پر حملہ کرتے نہیں تھکتے ہیں، لیکن وہ ان کارپوریٹ گھرانوں کی مدد کرنے اور ان کو فائدہ پہنچانے کے لیے پوری طرح سے وقف ہیں۔

جس پالکی میں ان کی جھانکی نکلتی ہے، وہ بھی زیادہ تر ویشیوں اور برہمن پریواروں والے کارپوریٹ میڈیا گھرانوں کے کندھوں پر چل رہی ہے۔ مثال کے لیے کچھ کے نام یہ ہیں ٹائمس آف انڈیا، ہندستان ٹائمس، انڈین ایکسپریس، دی ہندو، انڈیا ٹو ڈے، دینک بھاسکر، دینک جاگرن۔

ریلائنس انڈسٹریز کے ہاتھوں میں ستائیس ٹی وی چینلوں کی لگام ہے، کیونکہ ان چینلوں کے شیئروں پر اس کا قبضہ ہے۔ میں نے ‘جھانکی نکلنے’کی بات کی کیونکہ مودی نے وزیر اعظم کے طورپرتقریباً سات سالوں کے دوران کبھی بھی پریس کا سیدھے سامنا نہیں کیا ہے۔ ایک بار بھی نہیں۔

وزیر اعظم  نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

وزیر اعظم  نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

جہاں ہم عام لوگوں کا نجی ڈیٹا کھود نکالا جا رہا ہے اور ہماری آنکھوں کی پتلیاں اسکین کی جا رہی ہیں، وہیں ایک ایسے غیر شفاف نظام کو نافذکیا گیا ہے جس کی اوٹ میں کارپوریٹ دنیا اپنے لیے دکھائی جا رہی اٹوٹ وفاداری کی قیمت ادا کر سکتی ہے۔

سال 2018 میں ایک الیکٹورل بانڈ منصوبہ  لایا گیا، جس میں سیاسی پارٹیوں کو بے نامی چندہ دیناممکن ہو گیا ہے۔ اس طرح اب ہمارے یہاں ایک سچ مچ کی، باقاعدہ ادارہ جاتی، پوری طرح سے سیل بند ایک پائپ لائن ہے جس کے ذریعے کارپوریٹ اور سیاسی  اشرافیہ  کے بیچ پیسے اور اقتدار کی آمدورفت ہوتی رہتی ہے۔

اس لیے اس میں حیرانی کی بات نہیں ہے کہ بی جے پی دنیا کی سب سے امیر سیاسی پارٹی  ہے۔ اس لیے اس میں بھی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ جب یہ چھوٹا سا نسلی اشرافیہ طبقہ عوام، ہندو راشٹرواد کے نام پر اس ملک پر اپنی گرفت کو مضبوط کر رہا ہے، تب یہ عوام کے ساتھ ایک دشمن طاقت کی طرح پیش آنے لگا ہے، جس میں اس کے اپنے ووٹر بھی شامل ہیں۔

اسے اس عوام پر کسی طرح قابو کرنا ہے، اس کو چکمہ دینا ہے، اس کی طاق میں رہنا ہے، ایسا کچھ کرنا ہے کہ یہ گھبرا جائے، اس پر چھپ کر حملہ کرنا ہے اور سختی سے حکومت کرنی ہے۔ہم گھات لگا کر ہونے والے اعلانات اور غیر قانونی بلوں کا ایک ملک بن گئے ہیں۔

نوٹ بندی نے رات کےرات معیشت کی کمر توڑ دی۔جموں وکشمیر میں آرٹیکل 370 کو رد کرنے کےنتیجہ میں70 لاکھ لوگوں پر اچانک ہی ایک لاک ڈاؤن لگا دیا گیا، جن کو مہینوں فوجی اور ڈیجیٹل گھیرابندی میں رہنا تھا۔یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے، جس کو ساری دنیا کی نظروں کے سامنے انجام دیا جا رہا ہے اور یہ ہمارے نام پر ہو رہا ہے۔

ایک سال کے بعد، ایک ضدی، چیلنج دینے والی عوام نے آزادی کی  اپنی جدوجہدکو جاری رکھا ہے، تب بھی جب ایک کے بعد ایک آنے والے سرکاری فرمان کشمیر کے بدن کی ایک ایک ہڈی کو توڑ رہے ہیں۔کھلے عام مسلمان مخالف شہریت قانون(سی اےاے)اوراین سی آر کے نتیجےمیں مسلمان عورتوں کی رہنمائی میں مہینوں تک تحریک  چلی۔

اس کاانجام  شمال مشرقی  دہلی میں ایک مسلمان مخالف قتل عام  کے ساتھ ہوا، جسےقاتل کےگروہوں نے پولیس کی دیکھ ریکھ میں انجام دیا، اور جس کے لیے الٹے مسلمانوں کو ہی قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے۔سینکڑوں مسلمان نوجوان، طلبا اور کارکن جیلوں میں ہیں، جن میں عمر خالد، خالدسیفی، شرجیل امام، میران حیدر، نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا شامل ہیں۔

نتاشا، عمر خالد، دیوانگنا، شرجیل، صفورہ، آصف، مہیش اور گلفشاں۔  (فوٹوبہ شکریہ: متعلقہ فیس بک/ٹوئٹر)

نتاشا، عمر خالد، دیوانگنا، شرجیل، صفورہ، آصف، مہیش اور گلفشاں۔  (فوٹوبہ شکریہ: متعلقہ فیس بک/ٹوئٹر)

تحریکات کو اسلام پرست جہادی سازش کے روپ میں دکھایا گیا ہے۔ ملک بھر میں تحریکات کی ریڑھ بنے اور اب ایک نشانی بن چکے شاہین باغ کے دھرنے کی رہنمائی کرنے والی عورتوں کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ وہ‘جینڈر کور’(عورتوں کی ڈھال) ہیں۔

اور قریب قریب ہرایک احتجاج  میں آئین کا جوعوامی حلف  لیا جا رہا تھا، اس کو ‘سیکولر کور’کہہ کر خارج کر دیا گیا۔ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں سے جڑی کوئی بھی چیز‘جہاد’ہے (جس کو غلط طریقے سے دہشت گردی  کا ایک دوسرا نام بتایا جاتا ہے) اور اس سے الگ کوئی بھی بات محض ایک تفصیل بھر ہے۔

جن پولیس اہلکاروں نے بری طرح زخمی مسلمان نوجوانوں کو قومی ترانہ گانے پر مجبور کیا جب کہ انہیں سڑک پر ایک ڈھیر کے روپ میں جمع کیا گیا تھا، ان پولیس اہلکاروں  پر چارج شیٹ  دائر کرنا تو دور ابھی تک ان کی پہچان بھی نہیں کی گئی ہے۔

بعد میں ان زخمی لوگوں میں سے ایک کی موت بھی ہو گئی، جب حب الوطنی  سےسرشار پولیس نے ان کے گلے میں لاٹھی ٹھونس دی تھی۔ اسی مہینے وزیر داخلہ نے ‘دنگوں’ کو سنبھالنے کے لیے دہلی پولیس کی تعریف کی۔

اور اب قتل عام کے ایک سال کے بعد، جب زخمی اور تباہ کمیونٹی کسی طرح اس سےنجات پانے کی کوشش کر رہی ہے، تب بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشدایودھیا میں رام مندر کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے ٹھیک انہی کالونیوں میں رتھ یاترائیں اور موٹر سائیکل پریڈ نکالنے کا اعلان کر رہے ہیں۔

ہم پر لاک ڈاؤن کا حملہ بھی ہوا ہم 1ارب 30 کروڑ لوگوں کو چار گھنٹے کی نوٹس کے ساتھ تالا بند کر دیا گیا۔ لاکھوں شہری مزدور ہزاروں کیلومیٹر پیدل چل کر گھر لوٹنے کو مجبور ہوئے، جبکہ راستے میں ان کو مجرموں کی طرح پیٹا گیا۔

ایک طرف وبا تباہی مچا رہی تھی، دوسری طرف متنازعہ  جموں وکشمیر ریاست کے بدلے ہوئے درجے کو دیکھتے ہوئے چین نے لداخ میں ہندوستانی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

ہماری بچاری سرکار یہ دکھاوا کرنے پر مجبور ہو گئی کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں۔ چاہے جنگ ہو یا نہ ہو، ایک سکڑتی جا رہی معیشت کو اب پیسہ بہانا ہوگا تاکہ ہزاروں فوجیوں کے پاس سازوسامان ہو اور وہ ہمیشہ جنگ کے لیے تیار رہیں۔ زیرو ڈگری سے نیچے درجہ حرارت میں محض موسم کی وجہ سےکئی فوجیوں کی جان چلی جا سکتی ہے۔

پیدا کی گئی تباہیوں کی اس فہرست میں اب سب سے اوپر یہ تین زرعی قانون ہیں، جو ہندوستانی کھیتی کی کمر توڑ دیں گے، اس کا کنٹرول کارپوریٹ کمپنیوں کے ہاتھ میں دے دیں گے اور کسانوں کے آئینی حقوق  تک کی ان دیکھی کرتے ہوئے کھلے عام انہیں ان کے قانونی سہارے سے محروم  کر دیں گے۔

یہ ایسا ہے مانو ہماری آنکھوں کے سامنے کسی چلتی ہوئی گاڑی کے پرزے پرزے کیے جا رہے ہیں، اس کے انجن کو بگاڑا جا رہا ہے، اس کے پہیے نکالے جا رہے ہیں، اس کی سیٹیں پھاڑی جا رہی ہیں، اس کا ٹوٹا پھوٹا ڈھانچہ ہائی وے پر چھوڑ دیا گیا ہے، جبکہ دوسری کاریں فراٹے سے گزر رہی ہیں، جنہیں ایسے لوگ چلا رہے ہیں جنہوں نے ہرن کے سینگ اور پھر نہیں پہن رکھے ہیں۔

اسی لیے ہمیں اس ایلگار کی اپنی ناراضگی کی اس لگاتار، اجتماعی اور بےباک اظہار رائے  کی بےتحاشہ ضرورت ہے: برہمنواد کے خلاف، سرمایہ داری  کے خلاف، اسلام کو لےکر من میں بٹھائی جا رہی نفرت کے خلاف اور پدری نظام  کے خلاف۔

ان سب کی جڑ میں پدری نظام ہے کیونکہ مرد جانتے ہیں کہ اگر عورتوں پر ان کا اختیار نہ رہے تو کسی چیز پر ان کا اختیار نہیں رہےگا۔ایسے وقت میں جبکہ وبا تباہی مچا رہی ہے، جبکہ کسان سڑکوں پر ہیں، بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں جلدی جلدی تبدیلی مذہب کے قانون نافذ کیے جا رہے ہیں۔

میں تھوڑی دیر ان کے بارے میں بولنا چاہوں گی کیونکہ ذات پات  کے بارے میں، مردانگی کے بارے میں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے بارے میں، محبت، عورتوں، آبادی اورتاریخ  کے بارے میں اس حکومت کے من میں جو بے چینیاں ہیں، ان کی جھلک آپ ان قوانین میں دیکھ سکتے ہیں۔

تبدیلی مذہب سے متعلق اتر پردیش کا قانون2020(جسے لوجہادمخالف قانون بھی کہا جا رہا ہے)کو بس ایک آدھ مہینہ ہی گزرا ہے۔ لیکن کئی شادیوں میں رکاوٹیں ڈالی جا چکی ہیں، پریواروں کے خلاف مقدمے درج ہو چکے ہیں اور درجنوں مسلمان جیل میں ہیں۔

تو اب اس گئوماس کے لیے جو انہوں نے نہیں کھایا، ان گایوں کے لیے جو انہوں نے نہیں مارے، ان جرائم کے لیے جو انہوں نے کبھی نہیں کیے(حالانکہ دھیرے دھیرےیہ نظریہ بنتا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کا قتل ہو جانا بھی انہی کاجرم ہے)پیٹ کر مار دیےجانے کے ساتھ ساتھ، ان چٹکلوں کے لیے جو انہوں نے نہیں بنائے ہیں، جیل جانے کے ساتھ ساتھ (جیسا نوجوان کامیڈین منور فاروقی کے معاملے میں ہوا)، مسلمان اب پیار میں پڑنے اور شادی کرنے کے جرائم کے لیے جیل جا سکتے ہیں۔

اس قانون کو پڑھتے ہوئے کچھ بنیادی سوال سامنے آئے،جن کو میں نہیں اٹھا رہی ہوں، جیسے کہ آپ ‘مذہب’کی توضیح  کیسے کرتے ہیں؟ ایک عقیدہ  رکھنے والا انسان اگر ناستک بن جائے تو کیا اس پر مقدمہ کیا جا سکےگا؟یہ قانون ‘بہکانے،طاقت، رعب،استحصال، لالچ کے ذریعے کسی فریب کے ذریعےیا شادی کے ذریعے ایک مذہب سے دوسرےمذہب  میں قانون مخالف تبدیلی مذہب کی ممانعت…’ کی بات کہتا ہے۔ لالچ کی تعریف میں تحفہ،تسکین پہنچانا، اچھےاسکولوں میں مفت تعلیم یا ایک بہتر زندگی کا وعدہ شامل ہے۔ (جو موٹے طور پرہندوستان  میں ہرایک گھریلو شادی میں ہونے والی لین دین کی کہانی ہے۔)

ملزم کو(جس کی وجہ سے مذہب تبدیل کیا گیا ہے)ایک سے پانچ سال کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے دور کے رشتہ دار سمیت گھر کا کوئی بھی ممبر الزام لگا سکتا ہے۔ بےگناہی ثابت کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ہے۔عدالت کے ذریعے‘متاثرہ’ کو 5 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جا سکتا ہے جسے ملزم کو ادا کرنا ہوگا۔ آپ تاوان اور بلیک میل کے ان بے شمارامکانات  کا تصور کر سکتے ہیں، جنہیں یہ آرڈیننس  جنم دیتا ہے۔

اب ایک بہترین نمونہ دیکھیے:اگر مذہب بدلنے والا شخص ایک نابالغ، عورت یا ایس سی ایس ٹی  سے ہےتو ‘مذہب تبدیل کروانے والے’ [یعنی ملزم] کی سزا دوگنی ہو جائےگی دو سے دس سال تک قید۔دوسرے لفظوں  میں،یہ قانون عورتوں، دلتوں اور آدی واسیوں کو نابالغوں کا درجہ دیتا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ ہم بچے ہیں؛ہمیں بالغ نہیں مانا گیا ہے، جو اپنے کاموں کے لیے ذمہ دار ہیں۔

یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

یوپی سرکار کی نظروں میں حیثیت صرف بااثراشرافیہ  ہندوکمیونٹی کے مردوں کی ہی ہے، ایجنسی صرف ان کے پاس ہے۔ یہی وہ احساس  ہے جس کے ساتھ ہندوستان  کے چیف جسٹس نے پوچھا کہ عورتوں کو (جن کے دم پر کئی معنوں میں ہندوستانی کھیتی چلتی ہے) کسانوں کی تحریک میں کیوں‘رکھا‘جا رہا ہے۔

اور مدھیہ پردیش سرکار نے پیش کش  رکھی ہے کہ جو کام کرنے والی عورتیں اپنی فیملی کے ساتھ نہیں رہتی ہیں وہ تھانے میں اپنا رجسٹریشن کرائیں اور اپنی حفاظت کے لیے پولیس کی نگرانی میں رہیں۔اگر مدر ٹریسازندہ ہوتیں تو طے ہے کہ اس قانون کے تحت انہیں جیل کی سزا کاٹنی پڑتی۔ میرا اندازہ ہے کہ انہوں نے جتنے لوگوں کو عیسائی بنایا، ان کی سزا ہوتی دس سال اور زندگی  بھر کا قرض۔

یہ ہندوستان  میں غریب لوگوں کے بیچ کام کر رہے ہرایک عیسائی پادری کی قسمت ہو سکتی ہے۔ اور اس انسان کا کیا کریں گے جنہوں نے یہ کہا تھا؛

‘کیونکہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں خود کو ہندو کہنا پڑتا ہے، اسی لیے ہمارے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے۔ اگر ہم کسی اور مذہب کے فردہوتے تو کوئی بھی ہمارے ساتھ ایساسلوک نہیں کرتا۔ کوئی بھی ایسا مذہب چن لیجیے جو آپ کو حیثیت اور آپسی سلوک  میں برابری دیتا ہو۔ اب ہم اپنی غلطیاں سدھاریں گے۔’

آپ میں سے کئی جانتے ہوں گے، یہ باتیں بابا صاحب امبیڈکر کی ہیں۔ ایک بہترزندگی کے وعدے کے ساتھ اجتماعی طور پرتبدیلی مذہب کی  صاف صاف اپیل۔اس قانون  کے تحت،جس میں‘اجتماعی تبدیلی مذہب’وہ ہے جب ‘دو یا دو سے زیادہ شخص مذہب تبدیل کریں’یہ باتیں امبیڈکر کو جرم  کا ذمہ دار بنا دیں گی۔

شاید مہاتما پھولے بھی قصوروار بن جائیں جنہوں نے اجتماعی طور پر تبدیلی مذہب  کو اپنی کھلی حمایت دی تھی جب انہوں نے کہا تھا؛

‘مسلمانوں نے، چالاک آریہ بھٹوں کی کھدی ہوئی پتھر کی مورتیوں کو توڑتے ہوئے انہیں جبراً غلام بنایا اور شودروں اوراتی شودروں کو بڑی تعدادمیں ان کے چنگل سے آزاد کرایا اور انہیں مسلمان بنایا، انہیں اسلام میں شامل کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے ان کے ساتھ کھان پان اور شادی کا رشتہ بھی قائم کیا اور انہیں سارے برابر حقوق  دیے…’

اس برصغیر کی آبادی میں دسیوں لاکھ سکھوں، مسلمانوں، عیسائیوں اور بودھوں کا ایک بڑا حصہ تاریخی تبدیلیوں اور اجتماعی طور پر تبدیلی مذہب کی گواہی ہے۔

‘ہندو آبادی’ کی گنتی میں تیز گراوٹ وہ چیز ہے جس نے شروع شروع میں بااثر کمیونٹی میں آبادی کی بناوٹ کے بارے میں بےچینی پیدا کی تھی اور ایک ایسی سیاست کو مضبوط کیا تھا جسے آج ہندوتوا کہا جاتا ہے۔ لیکن آج جب آر ایس ایس اقتدارمیں ہے تو لہر پلٹ گئی ہے۔

اب اجتماعی طور پر تبدیلی مذہب صرف وہیں ہو رہے ہیں جنہیں وشو ہندو پریشدمنعقد کر رہا ہے اس عمل کو ‘گھر واپسی’ کے نام سے جانا جاتا ہے جو انیسویں صدی کے آخری دور میں ہندو اصلاح پسند گروہوں نے شروع کیا تھا۔

گھر واپسی میں جنگلوں میں رہنے والے آدی واسی لوگوں کی ہندو دھرم میں‘واپسی’ کرائی جاتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ایک شدھی کی رسم نبھانی ہوتی ہے تاکہ ‘گھر’سے باہر رہنے سے آئی گندگی کو صاف کیا جا سکے۔

اب یہ تو ایک پریشانی ہے کیونکہ یوپی کے آرڈیننس کی دلیل  کے مطابق یہ ایک جرم  بن جائےگا۔ تو پھر وہ اس پریشانی سے کیسے نمٹتا ہے؟اس میں ایک شق جوڑا گیا ہے جو کہتا ہے؛‘اگر کوئی شخص اپنے ٹھیک پہلے والے مذہب میں دوبارہ آتا ہے/آتی ہے تو اسے اس آرڈیننس کے تحت تبدیلی مذہب نہیں سمجھا جائےگا۔’

ایسا کرتے ہوئے آرڈیننس اس خرافات  پر چل رہا ہے اور اس نے اسے قانونی منظوری دے دی ہے کہ ہندو مذہب ایک قدیم مقامی مذہب ہے جو برصغیر کی سینکڑوں مقامی قبائل اور دلتوں اور دراوڑ لوگوں کے مذاہب سے بھی پرانا ہے اور وہ سب اس کا حصہ ہیں۔ یہ غلط ہے، سراسر غیر تاریخی  ہے۔

ہندوستان  میں انہی طریقوں سےخرافات  کو تاریخ  میں اور تاریخ کوخرافات  میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ ماضی  کا حساب  رکھنے والی بااثر کمیونٹی سے آنے والے لوگوں کو اس میں کوئی بھی تضاد نہیں دکھائی دیتا کہ جب جہاں ضرورت ہو اصل باشندہ  ہونے کا دعویٰ بھی کیا جائے اور ساتھ ہی خود کو آریائیوں  کاوارث بھی بتایا جائے۔

اپنے کریئر کی شروعات میں جنوبی افریقہ میں گاندھی جب ڈربن پوسٹ آفس میں ہندوستانیوں کے داخل ہونے کے لیےایک الگ دروازے کی مہم  چلا رہے تھے تاکہ انہیں کالے افریکیوں کے ساتھ جنہیں وہ اکثر ‘کافر’اور ‘غیرمہذب’کہتے تھےایک ہی دروازے سے آنا جانا نہ پڑے، تب گاندھی نے دلیل دی کہ ہندوستانی اور انگریز ‘ایک ہی نسل سے نکلے ہیں جسے انڈو آرین کہا جاتا ہے۔’

انہوں نے یہ یقینی بنایا کہ بااثر کمیونٹی کے ‘پیسنجر انڈینس’ کومظلوم کمیونٹی کے گرمٹیامزدوروں سے الگ کرکے دیکھا جائے۔ یہ 1894 کی بات تھی۔ لیکن سرکس ابھی بھی ختم نہیں ہوا ہے۔آج یہاں اتنے وسیع سیاسی نقطہ نظر رکھنے والےمقررین کی موجودگی ایلگار پریشد کی فکری صلاحیت  کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ دیکھ پا رہا ہے کہ ہم پر ہونے والے حملے تمام سمتوں  سے ہو رہے ہیں کسی ایک سمت سے نہیں۔

اس حکومت کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کچھ نہیں ہوتی جب ہم خود کو اپنے یا اپنی کمیونٹی کی الگ تھلگ کوٹھریوں میں، چھوٹے چھوٹےحوضوں میں بند کر لیتے ہیں، جہاں ہم غصے میں پانی کے چھینٹے اڑاتے ہیں جب ہم بڑی تصویر نہیں دیکھتے، تب اکثر ہمارا غصہ ایک دوسرے پر نکلتا ہے۔

جب ہم اپنےطےشدہ حوضوں کی بندشیں توڑ دیتے ہیں صرف تبھی ہم ایک ندی بن سکتے ہیں۔ اور ایک ایسی دھارا کے روپ میں بہہ سکتے ہیں جسے روکا نہیں جا سکتا۔اسے حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس سے آگے جانا ہوگا جسے کرنے کا فرمان ہمیں دیا گیا ہے، ہمیں اس طرح سپنے دیکھنے کا حوصلہ کرنا ہوگا جیسے روہت ویمولہ نے دیکھا۔

آج وہ یہاں ہمارے ساتھ ہیں، ہمارے بیچ، وہ  اپنی موت میں بھی ایک پوری کی پوری نئی نسل کے لیے مثال  ہیں، کیونکہ وہ سپنے دیکھتے ہوئے مرے۔ انہوں نے مرتے ہوئے بھی اپنی انسانیت،امیدوں اور فکری تجسس  کو مکمل بنانے کے اپنے حق  پر زور دیا۔

انہوں نے سمٹنے، سکڑنے، دیے گئے سانچے میں ڈھلنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے ان لیبلوں سے انکار کیا، جو اصلی دنیا ان کے اوپر لگانا چاہتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ وہ کچھ اور نہیں، بلکہ ستاروں سے بنے ہوئے ہیں۔ وہ ایک ستارہ بن گئے ہیں۔

روہت ویمولہ۔

روہت ویمولہ۔

ہمیں ان پھندوں سے ہوشیار رہنا ہوگا، جو ہمیں محدود کرتے ہیں، ہمیں بنے بنائےا سٹیریوٹائپ سانچوں میں گھیرتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی محض اپنی پہچان کاکل جوڑ بھر نہیں ہے۔ ہم وہ ہیں، لیکن اس سے کہیں کہیں زیادہ ہیں۔

جہاں ہم اپنے دشمنوں کے خلاف کمر کس رہے ہیں، وہیں ہمیں اپنے دوستوں کی پہچان کرنے کے قابل بھی ہونا ہوگا۔ ہمیں اپنے ساتھیوں کی تلاش کرنی ہی ہوگی، کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی اس لڑائی کو اکیلے نہیں لڑ سکتا۔پچھلے سال سی اےاے کی مخالفت کرنے والے بہادراورہمتی مظاہرین  نے اور اب ہمارے چاروں طرف چل رہے کسانوں کے شاندار آندولن نے یہ دکھایا ہے۔

جو کسان یونین ایک ساتھ آئے ہیں وہ الگ الگ خیالات اور الگ الگ تاریخی پس منظرکے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

اختلافات  گہرے ہیں؛بڑے اور چھوٹے کسانوں کے بیچ،زمینداروں اور بےزمین کھیتی کرنے والے مزدوروں کے بیچ، جاٹ، سکھوں اور مذہبی سکھوں کے بیچ، بائیں بازو اور درمیانی اتحادوں کے مابین۔نسلی تضادات بھی ہیں اور دہلا دینے والا نسلی تشدد ہے، جیسے کہ بنت سنگھ نے آپ کو آج بتایا جن کے دونوں ہاتھ اور ایک پیر 2006 میں کاٹ دیےگئے۔

ان تنازعات  کو دفن نہیں کیاگیا ہے۔ ان کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے جیسا کہ رندیپ مدوکے نے، جنہیں آج یہاں ہونا تھا، اپنی جرأت مندانہ  ڈاکیومنٹری فلم لینڈلیس میں کہا ہے۔ اور پھر بھی وہ سب ساتھ آئے ہیں تاکہ اس اقتدارکا سامنا کیا جا سکے، تاکہ وہ لڑائی لڑی جا سکے جسے ہم جانتے ہیں کہ وہ وجود کی ایک لڑائی ہیں۔

شاید یہاں اس شہر میں جہاں پر امبیڈکر کو بلیک میل کرکے پونا پیکٹ پر دستخط کرائے گئے تھےاور جہاں جیوتی با اور ساوتری بائی پھولے نے اپنا انقلابی  کام کیا تھا، اس شہر میں ہم اپنی جد وجہد کو ایک نام دے سکتے ہیں۔

شاید ہمیں اسے’ ستیہ شودھک ریزیسٹنس’ کہنا چاہیے آر ایس ایس کے خلاف کھڑا ایس ایس آر۔

نفرت کے خلاف محبت کی جنگ۔ ایک لڑائی محبت کی خاطر۔ یہ ضروری ہے کہ اسے فوجی  کی طرح  لڑا جائے اور خوبصورت طریقے سے جیتا جائے۔ شکریہ۔

(یہ مضمون30 جنوری2021 کو ایلگار پریشد میں ارندھتی رائے کا  دیا گیا خطبہ ہے۔ 31 دسمبر 2017-1 جنوری 2018 کے بعد پہلی بار یہ منعقدکیا گیا تھا۔ )

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)