فکر و نظر

سال 1974 میں نریندر مودی نے آندولن جیویوں کو سرکار کے خلاف سڑکوں پر اتارا تھا…

وزیر اعظم نریندر مودی نے سوموار کو راجیہ سبھا میں کہا کہ کچھ وقت  سےملک  میں ایک نئی جماعت پیدا ہوئی ہے، آندولن جیوی- وکیلوں،طلبا، مزدوروں کی تحریک  میں نظر آئیں گے،کبھی پردے کے پیچھے، کبھی آگے۔ یہ پوری ٹولی ہے جو آندولن کے بنا جی نہیں سکتے اور آندولن سے جینے کے لیے راستے ڈھونڈے رہتے ہیں۔

نریندر مودی۔ (فوٹوبہ شکریہ narendramodi.in)

نریندر مودی۔ (فوٹوبہ شکریہ narendramodi.in)

نئی دہلی:وزیر اعظم نریندر مودی نے سوموار کو ایک نیالفظ  آندولن جیوی گڑھا، جس سے ان کا مطلب  ایسے لوگوں سے ہے، جو احتجاج کے بنا’ جیوت'(زندہ ) نہیں رہ سکتے۔راجیہ سبھا میں صدر کے خطبے پرشکریہ کی تحریک  کے دوران مودی نے مظاہرین کو ‘پرجیوی’ بھی کہا۔

مودی سرکار کی  دوسری مدت  کار میں شہریت قانون (سی اےاے)اور تینوں زرعی قانون جیسےمتنازعہ  فیصلوں کے احتجاج  میں ملک  بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرہ  ہوئے ہیں۔یہ مظاہرےعام طور پرتحریک کے طور پرمنظم  ہوئے   ہیں لیکن سرکار نے انہیں اپوزیشن  پارٹیوں کےذریعےیا نام نہاد ملک مخالف  لوگوں کی  ایک سازش بتایا ہے۔

وزیر اعظم نے جب یہ کہا، ‘آندولن جیویوں کی یہ جماعت آپ کو وہاں نظر آئےگی، جہاں بھی مظاہرہ  ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ جہاں وکیلوں کا آندولن ہے، وہاں نظر آئیں  گے،طلباکا آندولن ہیں، وہاں نظر آئیں گے، مزدوروں کا آندولن ہے، وہاں نظر آئیں گے۔ کبھی پردے کے پیچھے، کبھی پردے کے آگے۔ یہ پوری ٹولی ہے جو آندولن جیوی ہے، یہ آندولن کے بنا جی نہیں سکتے اور آندولن سے جینے کے لیے راستے ڈھونڈے رہتے ہیں۔’

ان تبصروں نے بڑے پیمانے پر پرامن مظاہرے  کو بدنام کرنے کا کام کیا ہے اور مظاہرین  اسے 1974 میں نریندر مودی کے اس خطاب  سے بالکل برعکس  دیکھ رہے ہیں، جب مودی نے گجرات کے نونرمان آندولن میں حصہ لیا تھا اور نوجوانوں  سے بڑے پیمانے پر سڑکوں پر اترنے کی اپیل کی تھی۔

جیسا کہ رگھو کرناڈ نے دی  وائر کے اپنےمضمون  میں بتایا ہے کہ مودی کی نجی ویب سائٹ پر ایک پیج اس آندولن کو وقف ہے، جہاں مودی کے بڑے مظاہروں میں پہلی بار شامل ہونے اور سماجی  مدعوں پر ان کے خیالات کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔

ویب سائٹ پر اس پیج میں کہا گیا ہے؛

اس آندولن کی وجہ سے نریندر مودی کو ان کی سیاسی زندگی میں ان کا پہلا عہدہ  ملا اور وہ 1975 میں گجرات میں لوک سنگھرش سمیتی کے جنرل سکریٹری  بنائے گئے۔

یہ آندولن دسمبر 1973 میں شروع ہوا تھا، جب احمدآباد کے ایل ڈی انجینئرنگ کالج کے طلبا نے کینٹین فیس بڑھنے سمیت کئی مدعوں پر احتجاج کیا تھا۔ جب پولیس نے ان طلباکے خلاف طاقت  کا استعمال  کیا تب 1974 کے شروعاتی سالوں میں یہ مظاہرہ دیگر کیمپس میں بھی پھیلا، جس میں ریاستی سرکار کو نشانہ بناکر ریاست بھر میں ہڑتالیں ہوئیں، آگ زنی اور لوٹ پاٹ کے واقعات  ہوئے۔

احمدآباد مرر کی رپورٹ کے مطابق، نونرمان آندولن کی وجہ سے گجرات کی اس وقت کی سرکار ٹوٹ گئی تھی اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے خلاف ایک قومی تحریک  کھڑی ہو گئی تھی۔اس وقت مودی کی جانب سے نوجوانوں کو دیا گیا پیغام بعد میں‘سنگھرش ما گجرات’ نام سے ایک کتاب میں شائع ہوا  تھا۔ اس پیغام  میں مودی نے نوجوانوں سے سڑکوں پر نکلنے اورجمہوریت  کو نہیں مرنے دینے کی  اپیل کی تھی۔

اخبار نے اس پیغام  کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، جس سے آج کے مظاہرین  کو بیش قیمی  صلاح ملتی ہے، لیکن ساتھ میں یہ آج وزیر اعظم کے مظاہروں  کو لےکر ان کے رخ میں تبدیلی کو بھی دکھاتی ہے۔مودی کے پیغام  میں کہا گیا تھا، ‘بھارت ماتا کے بچے اس حالت کے بارے میں سوچیں جس حالت میں آج ہندوستان جا رہا ہے۔ اگر آپ آج کچھ نہیں کرتے تو ایک منٹ ٹھہرکر اس خمیازے کے بارے میں سوچیے، جو آپ کو کل بھگتنا ہوگا۔ آپ ہندوستان  کے مستقبل  کے رہنماہیں کیونکہ آج کے نوجوان  کل کےرہنما ہیں۔ اس ملک  کو اوپر اٹھانے اور آگے بڑھانے کی ذمہ داری کون لےگا؟ جواب صاف ہے۔ ذمہ داری آپ کی ہے۔’

انہوں نے پیغام  میں کہا کہ دھوکےبازوں نے اس ملک  کو چپ کرا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریبی، بےروزگاری، ناخواندگی، بداخلاقی، بدعنوانی  اورہراسانی کا سامنانوجوانوں  کو مستقبل میں کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا، ‘جس طرح سے آمریت کی راہ ہموار کرنے کے لیے آج ملک  میں جمہوریت  کو تباہ  کیا جا رہا ہے، ایسے میں آپ بھیڑ بکریوں کے اس جھنڈ کی طرح ہوگے، جو نیچے سر کرکے چلیں گے۔’

انہوں نے کہا، ‘اگر آپ آج آزادی کی دوسری تحریک میں مکمل قربانی نہیں دیتے ہیں تو تاریخ  کو سختی  سے کون جج کرےگا؟ آپ۔کن کے نام بزدلوں کی فہرست  میں دکھائی دیں گے، جنہیں مؤرخ مرتب  کریں گے؟ آپ کے۔ اس ملک  کی تاریخ کو کس طرح سے لکھا جانا چاہیے۔ سیاہی یا قلم کے ساتھ یانوجوانوں کے دلوں سے نکلنے والے خون سے؟ فیصلہ آپ کو کرنا ہے؟’

نونرمان آندولن ٹھیک اسی وقت کے آس پاس اپنی پکڑ بنا رہا تھا، جب اے بی وی پی بہار میں ایک بڑے فساد کامنصوبہ بنارہا تھا، جیسا کہ کرناڈ نے دی  وائر میں لکھے اپنے مضمون  میں کہا ہے:

ایک بار جب اس آندولن نے بہار میں پکڑ بنائی تو اس میں ایک نئے رہنمامجاہد آزادی جئےپرکاش نارائن شامل ہوئے۔ یہ اندرا گاندھی کے خلاف تحریک  کی شروعات تھی۔ جیسے جیسے یہ تحریک مقبول  ہوتی گئی اس وقت کی وزیر اعظم نے 25 جون 1975 کو ملک بھر میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا۔

جون 2018 میں لکھے گئے کرناڈ کے مضمون  میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بی جے پی  اور رائٹ ونگ گروپوں  نے یہ نیریٹو دینے پر زور دیا کہ مودی نے کانگریس کے مقابلے میں زیادہ احتجاج میں حصہ لیا ہے لیکن یہ سچائی سے کوسوں دور تھا۔

کرناڈ اپنے مضمون  میں کہتے ہیں؛

ذرا تصور کیجیے، بی جے پی  کی سرکاروں کو گرانے کے لیے طلبا کئی مہینوں سے سڑکوں پر دنگے میں شامل ہیں، ایک مرکزی وزیر کا قتل کر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد ایک جج مودی کو پارلیامنٹ سے باہر کر دیتے ہیں اور ان پر اگلا چناؤ لڑنے پر پابندی  لگا دیتے ہیں۔ یہ سب اس وقت  کے اکساوے تھے، جو ایمرجنسی  کا نتیجہ تھے۔

انہیں شاید منصفانہ نہ ٹھہرایا جائے لیکن سچائی یہ ہے کہ گزشتہ چار سال میں کشمیر کے باہر کوئی بھی مظاہرہ  اس پیمانے تک نہیں پہنچا ہے، جو اندرا گاندھی کی مدت  کارمیں ایمرجنسی کے اعلان  ہونے سے پہلے انہوں نے جھیلا۔ جے این یو اور جنتر منتر پر مظاہرہ  اس کےمقابلے صرف ایک بھیڑ ہے۔