خبریں

میری جیت ان سب کے لیے ہے جنہوں نے می ٹو مہم کے دوران آواز اٹھائی: پریہ رمانی

صحافی  پریہ رمانی نے سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر کی جانب سے دائر ہتک عزت کے مقدمے سے بری ہونے کے بعد کہا کہ انہیں اچھا لگ رہا ہے کہ عدالت کے سامنے ان کا سچ صحیح ثابت ہوا۔

پریہ رمانی ۔ (فوٹو: دی وائر)

پریہ رمانی ۔ (فوٹو: دی وائر)

نئی دہلی:سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر کی طرف سےدرج کرائے گئے مجرمانہ ہتک عزت معاملے میں دہلی کی ایک عدالت کے ذریعے بری کی گئیں صحافی  پریہ رمانی نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانے والی تمام خواتین  کی طرف سے اس فیصلے کے توسط  سے ان کا رخ درست ثابت ہوا۔

پریہ رمانی نے سال 2018 میں‘می ٹو’ مہم کے تحت سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر پر جنسی ہراسانی  کے الزام  لگائے تھے۔بدھ کو اکبر کی جانب سے دائر ہتک عزت معاملے سے رمانی کو بری کرتے ہوئے دہلی کی عدالت نے کہا کہ عزت  کے حق کی قیمت پر وقارکے حق کو محفوظ  نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ایڈیشنل چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ رویندر کمار پانڈے کے فیصلے پرردعمل کا اظہار  کرتے ہوئے رمانی نے کہا کہ انہیں اچھا لگ رہا کہ عدالت کے سامنے ان کا سچ صحیح ثابت ہوا۔

فیصلے کے بعد رمانی نے کہا، ‘یہ لڑائی میرے بارے میں نہیں تھی، یہ خواتین  کی لڑائی تھی۔ میں بس ان کی  نمائندگی  کر رہی تھی، جنہوں نے مجھ سے پہلے اور بعد میں آواز اٹھائی۔ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے۔ میری جیت یقینی طور پر اور خواتین  کو آگے آکر آواز اٹھانے کے لیےحوصلہ بخشےگی اور طاقتور مرد متاثرین  کو عدالت میں لے جانے سے پہلے دو بار ضرور سوچیں گے۔ یہ مت بھولیے کہ میں اس معاملے میں ملزم تھی میں بولنے کے لیے ملزم بنائی گئی تھی۔’

غورطلب ہے کہ ایڈیشنل چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ رویندر کمار پانڈے نے اکبر کی شکایت یہ کہتے ہوئے خارج کر دی کہ ان کے (رمانی)خلاف کوئی بھی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔

رمانی نے کہا، ‘یہ حیران کن لگتا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ کام کی جگہ  پر جنسی استحصال  کے خلاف آواز اٹھانے والی تمام  خواتین کی طرف سے اس فیصلے کے توسط سے میرا رخ صحیح ثابت ہوا۔’

دی وائر سے بات کرتے ہوئے رمانی نے کہا کہ اچھا لگتا ہے جب آپ کا سچ عدالت میں ثابت ہوتا ہے۔ یہ صرف میرے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس بارے میں ہے جو خواتین  اپنے کام کی جگہوں پر جھیلتی ہیں۔

انہوں نے آگے کہا، ‘یہ میری جیت نہیں ہے، یہ ان سب کی جیت ہے، جنہوں نے #می ٹو کے دوران آواز اٹھائی۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ جن خواتین نے کبھی بھی جنسی استحصال کے خلاف آواز اٹھائی ہے، مجھے لگ رہا ہے کہ میں نے ان کی طرف سے سچ ثابت کر دیا۔’

رمانی نے کہا کہ جنسی استحصال کے معاملے نے سب کی توجہ مبذول کی  ہے۔ انہوں نے کہا، ‘میں ایک متاثرہ تھی، جسے عدالت میں ملزم کے طور پر پیش ہونا پڑا۔ میں ساتھ دینے کے لیے ہر کسی کا بالخصوص میری گواہ غزالہ  وہاب اور نیلوفر وینکٹ رمن کا شکریہ ادا کرتی ہوں، جنہوں نے عدالت آکر میری طرف  سے گواہی دی۔’

رمانی نے کہا، ‘میں اس فیصلے کے لیے عدالت کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں۔ وکیل ریبیکا جان اور ان کی ٹیم کا بھی شکریہ، جنہوں نے مجھ پر بھروسہ کیا اور اس بڑے معاملے پر ساتھ دیا۔’

اس سے پہلے اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ جنسی ہراسانی کی وجہ سے وقار مجروح ہوجاتا ہے اورخوداعتمادی چھن جاتی ہے۔ عزت  کے حق کی قیمت پر وقارکے حق کو محفوظ  نہیں کیا جا سکتا ہے۔’

کورٹ نے اس وقت وشاکھا گائیڈ لائن نہیں ہونے کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ، ‘متاثرہ پرجنسی ہراسانی کے اثرات  کو سماج کو ضرورسمجھنا چاہیے۔’

انہوں نے کہا، ‘آئین  کے تحت آرٹیکل 21 اور برابری  کے حق  کی گارنٹی ملی ہوئی ہے۔ انہیں اپنی پسند کے کسی بھی منچ پر اپنا معاملہ رکھنے کا پورا حق ہے۔’

رمانی نے 2018 میں سوشل میڈیا پر چلی ‘می ٹو’ مہم کے تحت اکبر کے خلاف جنسی ہراسانی  کے الزام  لگائے تھے، جب وہ صحافی  تھے۔ حالانکہ اکبر نے ان الزامات کو خارج کر دیا تھا۔

اکبر نے جنسی ہراسانی  کا الزام  لگاکر انہیں بدنام کرنے کے لیے رمانی کے خلاف 15 اکتوبر 2018 کو معاملہ درج کرایا تھا۔ اکبر نے 17 اکتوبر 2018 کو مرکزی وزیر کے عہدے سے استعفیٰ  دے دیا تھا۔

عدالت نے 10 فروری کو فیصلہ 17 فروری کے لیے یہ کہتے ہوئے ٹال دیا تھا کہ چونکہ دونوں ہی فریق  نے تاخیر سے اپنی تحریری  دلیل سونپی ہے، اس لیے فیصلہ پوری طرح سے نہیں لکھا جا سکا ہے۔کورٹ نے ملزم  کے حق میں اس بات کو قبول کیا کہ دیگر خواتین کی جانب سے اکبر کے خلاف شکایت کیے جانے کے بعد وہ آواز اٹھا پائیں۔عدالت  نے یہ بھی قبول کیا کہ اکبر بہت معزز شخص نہیں ہیں۔

کورٹ نے رمانی کی اس دلیل کو قبول  کیا کہ اکبر کا خود کو بہت معزز شخص بتایا جانا غزالہ  وہاب کے بیان کے بعد خارج ہوتا ہے، جن کا مبینہ طور پر اکبر نےجنسی استحصال  کیا تھا۔

 (خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)