خبریں

ہٹلر اور ذات پات کے حمایتی گولولکر کو وزارت ثقافت نے عظیم مفکر بتایا، اپوزیشن نے کھڑے کیے سوال

آر ایس ایس کے سربراہ  رہے ایم ایس گولولکر کے خیالات کواکثرجمہوریت کے خلاف مانا جاتا ہے۔ موہن بھاگوت خود ایک پروگرام  کے دوران ان سے دوری بناتے ہوئےنظر آئے تھے۔

آر ایس ایس کے سابق سربراہ  ایم ایس گولولکر (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

آر ایس ایس کے سابق سربراہ  ایم ایس گولولکر (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی:وزارت ثقافت نے جمعہ کو اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ہندوتوامفکراورآر ایس ایس کے سابق سربراہ  ایم ایس گولولکر کو ان کی سالگرہ  پرخراج تحسین  پیش کرتے ہوئے انہیں عظیم مفکربتایا۔وزارت نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ گولولکر ایک عظیم مفکر، دانشور اور غیرمعمولی رہنما تھے، جن کے خیالات نسلوں کی رہنمائی  کریں گے۔

آر ایس ایس کے سربراہ  رہے گولولکر کے خیالات کو اکثرجمہوریت  کے خلاف مانا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں خود آر ایس ایس سربراہ  موہن بھاگوت نے ایک آؤٹریچ پروگرام  کے دوران ان کے بعض نظریات سے دوری بنا لی تھی۔

سال 2006 میں آر ایس ایس نے خود گولولکر کی ایک کتاب کو قبول نہیں کیا تھا۔

وزارت کے ٹوئٹ کے بعد سابق کلچرل سکریٹری جواہر سرکار نے کہا ہے کہ وہ شرمندہ ہیں کہ گولولکر کی اسی وزارت میں جھوٹی تعریف کی جا رہی ہے، جہاں وہ  اپنی خدمات  دے چکے ہیں۔

سرکار نے ٹوئٹ کرکے کہا،‘سابق کلچرل سکریٹری  ہونے کے ناطے میرا سر یہ دیکھ کر شرم سے جھک گیا ہے کہ آر ایس ایس کے سابق سربراہ گولولکر کی وزارت ثقافت کی جانب سے جھوٹی تعریف  کی جا رہی ہے۔ گولولکر اور آر ایس ایس نے گاندھی جی کی جدوجہد آزادی کی مخالفت کی تھی۔ اپنی کتاب بنچ آف تھاٹس میں گولولکر نے ہندوستان کے ترنگے کی  بھی مخالفت کی تھی۔ سردار پٹیل نے انہیں جیل بھیجا تھا اور آر ایس ایس پر پابندی  لگا دی تھی۔ ‘

وی ڈی ساورکر کے ساتھ گولولکر کو مہاتما گاندھی کے قتل کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ دونوں کو صرف اس لیے رہا کیا گیا کیونکہ کچھ گواہ جنہوں نے ان کے خلاف گواہی دی تھی، وہ عدالت میں شنوائی کے دوران غائب رہے تھے۔

اقلیت

گولولکر کےخیالات بی جے پی کےموجودہ ایجنڈے کے ساتھ بالکل فٹ بیٹھتے ہیں، جس سے صاف ہوتا ہے کہ آخر کیوں اچانک وزارت  ان کی سالگرہ  پر جشن منا رہا ہے۔وزارت نے ٹوئٹ کے ساتھ جس پوسٹر کا استعمال کیا ہے، اس میں گولولکر کی ایک تصویر ہے، جس کے بیک گراؤنڈ میں آر ایس ایس کے ممبر کھڑے ہیں۔

سچائی یہ ہے کہ نریندر مودی سرکار نے شہریت قانون (سی اےاے)کےتحت شہریوں کی فہرست سے مسلمانوں کو جان بوجھ کر باہر کر دیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی نے گولولکر کی سیاست کو اپنایا ہے۔گولولکر، جناح  کی طرح اس بات کے سخت حامی تھے کہ مسلم اور ہندو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ وہ الگ ہندو راشٹر کے بھی حمایتی تھے۔

گولولکر نے اپنی کتاب ‘وی، اور آور نیشن ہڈ ڈیفائنڈ’میں واضح طور پر کہا ہے کہ اقلیتوں کے پاس دوئم درجے کے شہری  کے طورپر تب تک کوئی اختیار نہیں ہونے چاہیے جب تک کہ وہ ہندوؤں کی تہذیب کو قبول نہیں کرتے۔ انہوں نے اپنی کتاب ‘بنچ آف تھاٹس’ میں کہا ہے کہ ‘راشٹرواد’ کے تین دشمن ہیں، مسلم، عیسائی اور کمیونسٹ۔

دوسرے لفظوں  میں، گولولکر نے ایک ایسے خصوصی’راشٹرواد’ کاپروپیگنڈہ کرنے کی اپیل کی ہے، جس میں ان تینوں گروپوں کے ساتھ کسی بھی طور پرکوئی اتحادیا گنجائش کی جگہ نہیں تھی۔گولولکر کو جرمنی کے تاناشاہ ایڈولف ہٹلر کا حامی مانا جاتا تھا اور انہوں نے اپنی کتاب ‘بنچ آف تھاٹس’میں کہا تھا کہ ہندوستان میں اقلیتوں  کے ساتھ اسی طرح کاسلوک  ہونا چاہیے، جیسا ہٹلر یہودیوں کے ساتھ کرتا تھا۔

‘وی، اور آور نیشن ہڈ ڈیفائنڈ’ میں گولولکر کہتے ہیں،

ملک اور اس کی ثقافت کے تقدس کو بنائے رکھنے کے لیے جرمنی نے یہودیوں کا صفایا کرکے دنیا کو چونکا دیا تھا۔ یہاں راشٹریہ گورو(قومی افتخار)اپنے عروج پر تھا۔ جرمنی نے یہ بھی دکھایا کہ مختلف طبقوں اورثقافت کے بیچ اختلاف ہونے کے باوجود کس طرح متحدہوکر مکمل ‘راشٹر ‘بنا جا سکتا ہے۔ یہ ہندستان میں ہمارے لیے سیکھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا اچھا سبق ہے۔

‘بنچ آف تھاٹس’میں گولولکر نے ذات پات کے نظام کو صحیح ٹھہرایا ہے۔ وہیں، منوسمرتی میں’ ورناشرم دھرم ‘کے ضابطوں  کا ذکر کیا گیا ہے۔ منوسمرتی میں انہی کاموں  کا ذکر کیا گیا ہے، جن کا تذکرہ  گولولکر نے بھی کیا گیا ہے۔

جمہوریت

گولولکر پر کتاب لکھ چکے پالیٹیکل سائنٹسٹ جیوترمیہ شرما نے 2017 میں دی  وائر کے ساتھ بات چیت میں کہا تھا کہ گولولکر کا وژن خطرناک تھا کیونکہ اس کی  جدیدجمہوری سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے۔شرما نے کہا تھا، ‘یہ اس لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ اس میں سمجھوتہ، بات چیت اوراختلافات کے لیے کوئی جگہ  نہیں ہے۔’

مؤرخ  رام چندر گہا نے د ی ٹیلی گراف میں گولولکر کے بارے میں لکھتے ہوئے انہیں جمہوریت کو خارج کرنے والا بتایا تھا۔گہا نے کہا، ‘طویل عرصے تک آر ایس ایس کے سربراہ  رہے گولولکر نے اس بنیاد پر جمہوریت کو خارج کر دیا تھا کہ وہ لوگوں کو بہت زیادہ آزادی  دیتی ہے۔’

انہوں نے اسے تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا، ‘نریندر مودی یہ حلف  لے سکتے ہیں کہ ہندوستانی آئین  ان کی واحد مقدس کتاب ہے لیکن ان کے گروجی گولولکر کاعقیدہ  تھا کہ یہ دستاویز نقائص سے پر ہیں اور اس کو خارج یا کم سے کم دوبارہ تیار کیا جانا چاہیے۔ گولولکر نے اپنی کتاب بنچ آف تھاٹس میں کہا ہے کہ ہمارے موجودہ آئین کو تیار کرنے والے بھی ہمارے سنگل ہوموجینیس نیشنل ازم  میں مستحکم یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ ناراض تھے کہ ہندوستان کویونین  کے طور پرمیں قائم  کیا گیا۔ ان کے خیال  میں وفاقی ڈھانچہ قومی انحطاط اور شکست کا بیج بوئے گا۔’

گہا نے لکھا، ‘گولولکر چاہتے تھے کہ مرکز سب زیادہ بااختیار ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ آئین کو دوبارہ جانچا جائے اور اس کا مسودہ دوبارہ تیار کیا جائے تاکہ یونیفائیڈسرکار کی تشکیل  کی جا سکے۔’حالانکہ،وزارت ثقافت کے اس ٹوئٹ کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کےرہنماؤں اور شہری تنظیموں نے مرکزی حکومت  کے اس قدم پر سوال کھڑے کیے۔

کانگریس ایم پی ششی تھرور نے اس کی مخالفت کرکے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘شاید ہی کوئی وزارت ثقافت  کو سنجیدگی  سے لینے کے حق میں ہو اور اس بات کو مانے کہ یہ آدمی عظیم مفکر اور دانشور تھا۔ ‘وہائی آئی ایم اے ہندو’ کے کچھ حصے کو دوبارہ پوسٹ کرتے ہوئے، جن میں ان کے کچھ خیالات کی جھلک ہے۔حکومت ہند ایسے شخص کی تعریف  کر رہی ہے جس نے ہندوستانی ترنگے  اورآئین کے لیےاحترام کا جذبہ نہیں دکھایا تھا۔’

کانگریس رہنما گورو گگوئی نے بھی وزارت کے اس قدم کو تنقید کا نشانہ بنایاہے۔اس پر وزارت ثقافت  کے میڈیا صلاح کار نتن ترپاٹھی نے کہا کہ ہندوستان تنوع  والامک  ہے اور وزارت سب کی روایات، رسموں اورقدروں  کی عزت کرتا ہے۔

اداکارہ سورا بھاسکر اور رچا چڈھا نے بھی ٹوئٹ کرکےوزارت ثقافت کے اس قدم کی تنقید کی۔

سورا بھاسکر نے گولولکر کی کتاب کے ایک اقتباس کے ساتھ ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا، ‘عظیم مفکرکے عظیم خیال۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)