خبریں

کیا کورونا کی دوا کے نام پر رام دیو نے ملک کو پھر گمراہ کیا ہے

کورونا کے علاج کے دعوے کے ساتھ لانچ ہوئی پتنجلی کی‘کورونل’کو وزارت آیوش سے ملے سرٹیفیکیٹ کو ڈبلیو ایچ او کی منظوری اور رام دیو کے  ذریعے کورونل کو 150  سے زیادہ ممالک  میں فروخت  کرنے کی اجازت  ملنے کا دعویٰ شک  کے دائرے میں ہے۔ ساتھ ہی اس کو لےکر انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے بھی سوال اٹھائے ہیں۔

19 فروری کے پروگرام  میں رام دیو اور بال کرشن کے ساتھ مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن اور نتن گڈکری۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/@/AcharyBalkrishna)

19 فروری کے پروگرام  میں رام دیو اور بال کرشن کے ساتھ مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن اور نتن گڈکری۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/@/AcharyBalkrishna)

نئی دہلی: 19 فروری کو یوگ گرو رام دیو کی کمپنی پتنجلی نے وزیر صحت ہرشوردھن اور مرکزی وزیرنتن گڈکری کی موجودگی میں کورونل کے لیے وزارت آیوش سے سرٹیفیکیٹ ملنے کااعلان کیا۔پتنجلی آیوروید نے کہا تھا کہ ڈبلیو ایچ او کی سرٹیفیکیشن اسکیم کے تحت کورونل  کو وزارت آیوش کی جانب  سے کووڈ 19 کے علاج  میں مددگار دوا کے طور پرسرٹیفیکیٹ ملا ہے۔

حالانکہ جب یہ خبر میڈیا میں پہنچی تب اس کی صورت ایسی نہیں تھی۔ کئی نیوز چینلوں نے رام دیو کا انٹرویو لیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ پتنجلی کی دوا کورونل کیوڈبلیو ایچ کی منظوری مل گئی ہے۔گزشتہ 19 فروری کو اس پروگرام  کے بعد ہوئی ایک پریس کانفرنس میں رام دیو یہ کہتے نظر آئے کہ انہوں نے سائنسی شواہد اور تحقیقات کی بنیاد پر کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے کورونل بنائی ہے۔

اس دوران وہ کئی ریسرچ پیپرکا حوالہ دیتے دکھے۔ ایک اینکرکےذریعے ان سے دوا کے ٹرائل سے متعلق ڈیٹا مانگنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پتنجلی کی ویب سائٹ کے ساتھ ساتھ یہ ڈیٹا ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہے۔

حالانکہ دی  وائر کے ذریعےادارے کی ویب سائٹ پر ہندوستان  والے حصہ میں تلاش کرنے پر ایسا کوئی ڈیٹا نہیں ملا۔اس کے علاوہ ایک نیوز چینل سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ اب یہ دوا امیونٹی بوسٹر نہیں ہے بلکہ پریونشن یعنی روک تھام کے خانے میں ہے اور ڈبلیو ایچ او سمیت اسے کئی اداروں  نے ‘سرٹیفائی’ کیا ہے۔

حالانکہ اس بیچ سوشل میڈیا صارفین اور کچھ میڈیا چینلوں نے براہ راست  یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس دوا کو ڈبلیو ایچ او نےمنظوری دی ہے۔راکیش بھارت نام کے ایک شخص کے ٹوئٹ کے بعد ان کے جیسا ٹوئٹ کئی صارفین نے کیا، لیکن اب اسے ڈی لٹ کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس طرح کے کئی اور ٹوئٹس اب بھی موجود ہیں۔

راکیش بھارت کا ڈی لٹ کیا ہوا ٹوئٹ(بہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

راکیش بھارت کا ڈی لٹ کیا ہوا ٹوئٹ(بہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

عام صارفین  کے علاوہ کئی میڈیااہلکاروں  اور چینلوں نے بھی اسی دعوے کے ساتھ اپنے پروگرام نشر کیے۔نیوز نیشن چینل کی رام دیو کے ساتھ بات چیت کی شروعات میں ہی چینل کے کنسلٹنگ ایڈیٹر دیپک چورسیا کہتے ہیں کہ ‘جون میں کورونل کے آنے پر سوال اٹھے تھے پر اسے اب ڈبلیو ایچ او کی منظوری مل چکی ہے۔’

وہ اس کے بعد رام دیو سے کورونل کو ڈبلیو ایچ او سے ملی‘منظوری’کے معنی پوچھتے ہیں جس کے جواب میں رام دیو کہتے ہیں کہ ‘ڈبلیو ایچ او کی ایک ٹیم آئی تھی اور پھر اسی نے کورونل کو لائسنس دیا جس سے اس دوا کو 150 سے زیادہ ممالک میں فروخت کرنےکی اجازت مل گئی۔’

اسی طرح کا دعویٰ انڈیا ٹی وی کے چیف رجت شرما کی جانب سےکیا گیا تھا۔ ٹوئٹ میں شرما نے لکھا تھا کہ‘کو رونا کی دوسری لہر کی آہٹ، رام دیو کی کو رونا کو ملی ڈبلیو ایچ او کی منظوری۔’

Rajat-Sharma-Coronil-Tweet-768x341

حالانکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق، ٹوئٹرکے ضابطوں  کی خلاف ورزی کی وجہ سےیہ ٹوئٹ ٹوئٹرکے ذریعےہی ڈی لٹ کر دیا گیا۔

آلٹ نیوز کے مطابق نیٹ ورک 18 کے ایک انٹرویو میں اینکر کشور اجوانی بھی اسی طرح کی بات کہتے دکھتے ہیں۔

اجوانی رام دیو اور بال کرشن سے بات چیت کی شروعات ہی اس بات سے کرتے ہیں کہ کورونا کی دوا کورونل پر ڈبلیو ایچ او کی مہر لگ چکی ہے۔بات چیت کے دوران ایک سوال کے جواب میں بال کرشن کہتے ہیں کہ یہ ڈبلیو ایچ او منظوری  وزارت آیوش کی جانب  سے انہیں ملی ہے۔

اس کے بعد جمعہ  کے پورے دن اسی طرز پر متعدد میڈیااداروں  کے ٹوئٹ سامنے آئے۔اس بیچ ممبئی بی جے پی  کی ترجمان سنجو ورما نے بھی پتنجلی کی کورونل کو ڈی سی جے آئی اور ڈبلیو ایچ او کی منظوری ملنے کو مودی سرکار کی کامیابی بتایا۔

انہوں نے یہ بھی لکھا کہ پتنجلی کو ڈبلیو ایچ او سے منظوری  لینے میں چھ مہینے کا وقت لگا لیکن یہ انتظار کام آیا۔ یہ دوا ‘خان مارکیٹ گینگ’کے چہرے پر ایک طمانچہ ہے جو گھر کی بنی چیزوں کا مذاق اڑاتا ہے۔

کیا ہے سچ

اس کے بعد اسی شام ڈبلیو ایچ او جنوب مشرقی ایشیاکے ٹوئٹر ہینڈل سے یہ بات واضح طور پر کہی گئی کہ انہوں نے کورونا وائرس کی کسی بھی روایتی  دوا کو منظوری  نہیں دی ہے۔

ادھر سوشل میڈیا پر اٹھے تنازعہ کے بیچ پتنجلی کے سی ای او آچاریہ بال کرشن نے وضاحت جاری کی کہ انہیں کورونل کے لیے ملا ڈبلیو ایچ او جی ایم پی کامپلئینٹ سی اوپی پی حکومت ہند کے سینٹرل ڈرگ اسٹینڈرز کنٹرول آرگنائزیشن  سے ملا ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ میں لکھا تھا، ‘ہم یہ صاف کر دینا چاہتے ہیں کہ کورونل کے لیے ہمارا ڈبلیو ایچ او جی ایم می ریگولیشن والا سی اوپی پی سرٹیفکیٹ ڈی جی سی آئی، حکومت ہند کی جانب سے جاری کیا گیا۔ یہ واضح  ہے کہ ڈبلیو ایچ او کسی دوا کو منظوری نہیں دیتا۔ ڈبلیو ایچ او دنیامیں سب کے بہتر مستقبل  کے لیے کام کرتا ہے۔’

اس بارے میں خبررساں  ایجنسی پی ٹی آئی کی جانب  سے جاری خبر میں بھی کہا گیا تھا کہ پتنجلی نے بتایا ہے کہ اس کے کورونل دواکو وزارت آیوش سے سرٹیفکیٹ ملا ہے۔ کمپنی کی اس دوا کو سرٹیفکیٹ ڈبلیو ایچ او کی سرٹیفکیشن اسکیم  کے تحت ملی ہے۔

پتنجلی نے ایک بیان میں کہا،‘کورونل کو سینٹرل ڈرگ اسٹینڈرز کنٹرول آرگنائزیشن کےآیوش سیکشن سے فارماسوٹیکل پروڈکٹ (سی او پی پی)کا سرٹیفکیٹ ملا ہے۔’بیان میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ سی اوپی پی کے تحت کورونل کو اب 158 ممالک  میں ایکسپورٹ  کیا جا سکتا ہے۔

کیا ہے جی ایم پی اور سی اوپی پی

ڈبلیو ایچ او نے اپنے ممبر ممالک  کے بیچ دواؤں کے بین الاقوامی تجارت کی سہولت کے لیے ممبروں کی درخواست پر سرٹیفیکیشن اسکیم شروع کی تھی، جس کے مطابق عرضی ڈالنے یا دوا امپورٹ کرنے والی کمپنی ایکسپورٹ کرنے والی کمپنی سے سرٹیفیکٹ آف فارماسوٹیکل پروڈکٹ یعنی سی اوپی پی کی مانگ کرےگی، جس کو کوئی سرٹیفیکیشن یونٹ ہی دے سکتی ہے اور جوہندوستان  کے معاملے میں ڈی سی جی آئی ہے۔

جی ایم پی یا گڈز مینوفیکچرنگ پریکٹس دوائیوں کے معیارکو لےکر دیا جانے والا سرٹیفیکٹ ہے، جس کو ڈبلیو ایچ او کے طے شدہ معیارات کی بنیاد پرملک  کے کسی ریگولیٹری کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے۔عام زبان میں سمجھیں تو حکومت ہند کے وزارت آیوش نے کورونل کو جی ایم پی سے منظورہ شدہ  سی اوپی پی دی ہے، جس کو جاری کرنے میں ڈبلیو ایچ او کا کوئی رول نہیں ہوتا ہے۔

ایسے میں لگاتار میڈیا اداروں کے ذریعے‘کورونل کو ڈبلیو ایچ او کی منظوری ملنے’ کی بات بالکل غلط ہے۔

اس بارے میں نیوزلانڈری ویب سائٹ نے ڈبلیو ایچ او سے رابطہ کیا، جہاں کی ایک عہدیدار شرمیلا شرما نے ٹوئٹر پر ادارے کی جانب سےکہی بات دوہرائی کہ ‘ڈبلیو ایچ او نے کووڈ 19 کے علاج کے لیے کسی بھی روایتی دوا کے اثرات کاتجزیہ یا سرٹیفیکیشن نہیں کیا ہے۔’

کیا ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک میں پہنچے گی کورونل؟

جمعہ  کے پروگرام کے بعد رام دیو اور بال کرشن نے کئی میڈیا اداروں سے بات کی تھی اور بتایا تھا کہ انہیں ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک  میں کورونل کو بیچنے کی اجازت ملی ہے۔پتنجلی کے بیان میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ سی اوپی پی کے تحت کورونل کو اب 158ممالک  میں ایکسپورٹ کیا جا سکتا ہے۔

اس بابت سوال پوچھے جانے پر نیوزلانڈری کو شرمیلا شرما نے کوئی واضح  جواب نہ دیتے ہوئے پھر یہی کہا کہ ادارے  نے کسی بھی روایتی دوا کو لےکر کوئی منظوری  نہیں دی ہے۔یعنی پتنجلی کے اس دعوے پر بھی تذبذب برقرار ہے۔ اس ویب سائٹ کی جانب سے پتنجلی آیوروید سے رابطہ  کیا گیا ہے، لیکن خبر کی اشاعت تک ان کا کوئی جواب نہیں ملا تھا۔

اس ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور ورلڈ میڈیکل ایسوسی ایشن کے موجودہ  خزانچی روی ونکھیڑکر نے اس بارے میں کہا، ‘کسی بھی دوائی کو بیچنے کے لیے ڈبلیو ایچ او مہینوں تک بین الاقوامی سطح پر الگ الگ ممالک  میں مشترکہ ٹیسٹ  کرتا ہے اور اس کے بعد اپنے گائیڈ لائن بناتا ہے۔’

انہوں نے آگے بتایا،‘کووڈ 19 کے تناظرمیں ہی بات کریں تو گزشتہ  سال بھر سے اس نے سولڈریٹری ٹرائل چلایا اور اب تک صرف ایک ہی دوا کرٹکوسٹیراڈس کو ہی ادارے کی جانب سے اجازت ملی ہے۔ اس کے علاوہ الگ الگ ممالک کے ڈرگ کنٹرولر اپنی  اپنی  سطح پرایمرجنسی کے علاج  کومنظوری  دے رہے ہیں۔ چونکہ اب تک کوئی دوا نہیں ہے اس ایمرجنسی  میں دوا کے استعمال کی اجازت  دی جا رہی ہے اور ایسی کوئی بھی اجازت، کسی بھی ملک سے بابا رام دیو کی کسی دوا کو نہیں ملی ہے۔’

پتنجلی کے دعووں سے حیران آئی ایم اے نے وزیر صحت سے وضاحت طلب کی

پتنجلی کی کورونل کو ڈبلیو ایچ اوسے سند ملنے کی بات کو انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن(آئی ایم اے)نے سوموار کو سراسر جھوٹ قرار دیتے ہوئے حیرانی کا اظہارکیا اوروزیر صحت  ڈاکٹر ہرشوردھن سے اس بابت وضاحت طلب کی ہے۔

پتنجلی کا دعویٰ ہے کہ کورونل دوا کووڈ 19 کو ٹھیک کر سکتی ہے اور شواہد کی بنیاد پر اس کی تصدیق  کی گئی ہے۔

سوموار کو آئی ایم اے کی جانب  سے جاری ایک بیان میں کہا گیا،‘ملک  کا وزیر صحت  ہونے کے ناطے پورے ملک کے لوگوں کے لیے جھوٹ پر مبنی غیر سائنسی پروڈکٹ کو جاری کرنا کتنا صحیح ہے۔ کیا آپ اس اینٹی کورونا پروڈکٹ کے نام نہاد کلینیکل ٹرائل کا ٹائم فریم  بتا سکتے ہیں؟’

آئی ایم اے کی جانب سے ڈاکٹر ہرشوردھن سے پوچھے گئے سوال۔

آئی ایم اے کی جانب سے ڈاکٹر ہرشوردھن سے پوچھے گئے سوال۔

آئی ایم اے نے کہا، ‘ملک وزیرسےوضاحت چاہتا ہے، انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن، نیشنل میڈیکل کمیشن کو از خود نوٹس لینے کے لیے بھی خط لکھےگا۔ یہ میڈیکل کونسل آف انڈیا کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہے۔’

ایسوسی ایشن نے وزیر صحت  سے اس دوا کے ٹرائل، اس کے سائنسی نتیجے،ٹیسٹ میں شامل مریضوں کی تعداد، اس کی نوعیت، اس کے لیے گئی لی گئی رضامندی اور ڈی سی جی آئی کے ذریعے اس کو مستند کرنےکی بنیاد کو لےکر کئی سوال کیے ہیں۔

ایسوسی ایشن نے رام دیوکے ذریعے ایک انٹرویو کے دوران کیے گئے تبصرے پر بھی اعتراض کیا ہے۔ آئی ایم اے نے کہا،‘رام دیو نے ایک انٹرویو میں جدید دوائیوں کی تنقید کرتے ہوئے انہیں‘میڈیکل ٹیررازم’ کہا۔ کیا وزیر صحت  اور جدید طرز کے ڈاکٹر ہونے کے ناطے ڈاکٹرہرشوردھن رام دیو کے اس توہین آمیز بیان پروضاحت دے سکتے ہیں؟’

آئی ایم اے نے کہا، ‘ڈبلیو ایچ او سے سند کی سراسر جھوٹی بات پر غور کرکے انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن حیران  ہے۔’غورطلب ہے کہ پتنجلی آیوروید نے کووڈ 19 کے علاج  کے لیے کورونل کے مؤثر ہونے کے سلسلے میں ریسرچ پیپر جاری کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

کورونل کو لےکر پہلے بھی ہوا تھاتنازعہ

بابا رام دیو نے گزشتہ23 جون کو‘کورونل’نام کی دوا لانچ کرتے ہوئے اس کے کووڈ 19 کے علاج میں صد فیصدکارگر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کے بعد وزارت آیوش نے دوا کےاشتہار پر روک لگاتے ہوئے کمپنی سے اس کے کلینیکل ٹرائل اور ریسرچ کی تفصیلات فراہم کرنے کو کہا تھا۔

ہری دوار واقع پتنجلی یوگ پیٹھ میں صحافیوں سے رام دیو نے کہا تھا، ‘یہ دوائی صدفیصد(کووڈ 19) مریضوں کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔ 100 مریضوں پرکنٹرولڈ کلینیکل ٹرائل کیا گیا، جس میں تین دن کے اندر 69 فیصد اور چار دن کے اندرصد فیصد مریض ٹھیک ہو گئے اور ان کی جانچ رپورٹ نیگیٹو آئی۔’

رام دیو نے بتایا کہ اس پروجیکٹ میں جئے پور کی نمس یونیورسٹی ان کی شراکت دار ہے۔ انہوں نے بتایا تھا، ‘ٹرائل میں ہم نے 280 مریضوں کو شامل کیا اور 100 فیصد مریض ٹھیک ہو گئے۔ ہم کورونا اور اس کی پیچیدگیوں کو قابو کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کے ساتھ سبھی ضروری کلینیکل کنٹرول ٹرائل کئے گئے۔’

بہرحال، اس کے کچھ ہی گھنٹے بعد وزارت آیوش نے پتنجلی کو اس دوا میں موجود مختلف جڑی بوٹیوں کی مقدار اوردوسری تفصیلات جلدازجلدفراہم کرانے کو کہا تھا۔وزارت  نے معاملے کی جانچ پڑتال ہونے تک کمپنی کو اس کااشتہاربھی بند کرنے کا حکم دیا تھا۔اس معاملے کو لےکر اتراکھنڈ آیوش محکمہ نے بھی پتنجلی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب مانگا تھا۔

اس کے بعد گزشتہ27 جون کو چنڈی گڑھ ضلع  عدالت میں رام دیو اور پتنجلی آیوروید کے خلاف ملاوٹی دوا اور دھوکہ دھڑی سے متعلق  آئی پی سی کی مختلف دفعات  کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔اس سے پہلے گزشتہ26 جون کو جئے پور کے جیوتی نگر تھانے میں آئی پی سی کی دفعہ 420 سمیت مختلف  دفعات کے تحت ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

اس گمران کن اشتہارکے الزام  میں رام دیو اور بال کرشنن کے علاوہ سائنسداں انوراگ وارشنیہ، نمس کے صدر ڈاکٹر بلبیر سنگھ تومر اور ڈاکٹر انوراگ تومر کو ملزم  بنایا گیا ہے۔وہیں، دوسری طرف راجستھان کے میڈیکل ڈپارٹمنٹ نے پتنجلی آیورویدکے ذریعے بنائی گئی دوا کے ‘کلینیکل ٹرائل’ کرنے کو لےکر نمس اسپتال کو نوٹس جاری کر کے وضاحت طلب کی ہے۔

اس کے بعد جولائی میں کورونل دوا کے پروڈکشن پر جاری نوٹس کے جواب میں پتنجلی نے کہا تھا کہ کمپنی نے اس عمل  میں کسی قانون کی خلاف نہیں کی۔

تب آچاریہ بال کرشن نے یہ بھی کہا تھا کہ پتنجلی نے کبھی نہیں کہا تھا کہ کمپنی کی کورونل دوا سے کو رونا وائرس کا علاج ہو سکتا ہے۔