فکر و نظر

اداریہ: مرکز کے نئے ضابطے آزاد میڈیا کو کنٹرول کر نے کی کوشش ہیں

نامناسب طریقے سے بنائے گئے نئے سوشل میڈیاضابطےنیوز ویب سائٹس کو سوشل میڈیا اور اوٹی ٹی پلیٹ فارمز کے ساتھ رکھتے ہیں۔ انہیں واپس لیا ہی جانا چاہیے۔

(فوٹو: د ی وائر)

(فوٹو: د ی وائر)

حالیہ دنوں  میں ہندوستان کےاہم اداروں  میں شدیدتنزلی دیکھی گئی ہے، جس نے اس کےآئینی جمہوریت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ہندوستانی شہری  پارلیامنٹ اورعدلیہ کی تنزلی  کو لے کراپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ بچی کھچی کسر کو پورا کرنے کے لیے میڈیا، جس کو جمہوریت چوتھا ستون  کہا جاتا ہے، اسی دائرے  میں آ گیا ہے۔

سرکار کی جانب سے  پچھلے دنوں لائے گئے نئےآئی ٹی ضابطہ مقننہ کو غیر معمولی اختیارات  دیتے ہیں، جہاں غیر واضح بنیاد پر پبلشر کو بغیر ان کی بات کہنے کا موقع دیے ڈیجیٹل میڈیا نیوز پلیٹ فارم کا مواد ہٹایا جا سکتا ہے۔اور یہ انٹرنیٹ  پر مبنی تمام  میڈیا پلیٹ فارمز جن میں نیوز، تفریح ، نیٹ فلکس، ہاٹ اسٹار جیسے اوٹی ٹی ایپ اور فیس بک، ٹوئٹر جیسے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم  شامل ہیں، کو ریگولیٹ  کرنے کے نام پر ہو رہا ہے۔

سرکار نے ڈیجیٹل نیوزمواد کو کنٹرول کرنے کے لیے نامناسب  طریقے سے بنا کسی پارلیامانی بحث کے انفارمیشن ٹکنالاجی قانون، جو آن لائن پلیٹ فارمز کی جوابدہی کو یقینی بناتا ہے، کی توسیع کی ہے۔ یہ واضح طور پر پارلیامنٹ کی توہین  ہے۔

اس سے بھی بدتریہ ہے کہ نئےضابطہ وزارت اطلاعات ونشریات کے سکریٹری  کو بناپبلشر سےبات  کیے ڈیجیٹل نیوزمواد کو سینسر کرنے کی ہنگامی طاقت  فراہم کرتے ہیں۔

Urdu-Editorial1

مختصر یہ کہ ان اختیارات  کے ساتھ نوکرشاہ سب سے بڑے مدیر اور سینسر ہو جا ئیں  گے!اس قدم سے پوری میڈیا برادری حیران ہے، جس کو اب تک یہی لگا تھا کہ نئے گائیڈ لائن بنیادی  طور پر سوشل میڈیاپلیٹ فارمز اور اوٹی ٹی پلیٹ فارمز کے لیے ہوں گے، جو گزشتہ  کچھ وقتوں  سے سرکار کے ساتھ بات چیت  کر رہے ہیں۔

حتیٰ  کہ یہ سب بھی نئےسہ سطحی ریگولیٹری نظام  کو لے کرفکرمند ہیں، جہاں بین محکمہ جاتی  کمیٹی ان پر قریب سے نظر رکھے گی، جس کے سربراہ  سرکار کے مختلف متعلقہ وزارت سے آنے والے نوکرشاہ ہوں گے۔ متعلقہ پلیٹ فارم  اسےسرکار کے ذریعے  سیلف ریگولیشن کو ضابطے کے دائرے میں باندھنے کا طریقہ کہہ رہے ہیں۔

جہاں ان تمام پلیٹ فارمز  کے ریگولیشن  پر غور کیا جا رہا تھا، وہیں آن لائن نیوز پلیٹ فارمز نے یہ امید بھی نہیں کی تھی کہ انہیں اس  طرح کے یکساں  ضابطوں  سے جوڑا جائےگا۔

ماہرین قانون کا ماننا ہے کہ آئی ٹی ایکٹ کے تحت آنے والی چیزوں کے ساتھ آن لائن نیوز مواد کو رکھنا اس ایکٹ  کے آگے کی بات ہے اور یہ آئین  کے آرٹیکل 19 (1) (اے) کے تحت ملی بولنے کی آزادی کی واضح خلاف ورزی  ہے۔

ساتھ ہی، میڈیا کی آزادی سے متعلق  اس طرح کی  کوئی بھی تبدیلی پارلیامنٹ یا اس سے متعلق  لوگوں سے بنا کوئی چرچہ کیے لایا گیا ہے۔ صرف پارلیامنٹ  ہی اظہار رائے کی آزادی کے سلسلے میں ریگولیشن کا قانون لا سکتی ہے اور یہ آئین کی بنیادی فطرت  کے مطابق ہونا چاہیے۔

اس کے ساتھ ہی سرکار نے نیوز میڈیااداروں  کے لیے غلط خانے  بنائے ہیں۔ مثال کے طور پر، پرنٹ اخباروں کو ان نئے سخت ضابطوں کے دائرے میں نہیں لایا گیا ہے، جبکہ ان کے ڈیجیٹل مواد پر یہ ضابطے لاگو ہو ں گے جبکہ اس کااکثر مواد ایک ہی  ہے۔

یعنی اگر وزارت اطلاعات ونشریات  کے سکریٹری  اپنے ہنگامی اختیارات  کا استعمال کرتے ہوئے کسی مضمون  کو ہٹاتے ہیں، تو وہ اخبار میں تو بنا ہی رہےگا۔ نئےگائیڈلائن  اس طرح کے تضادات  سےپُر ہیں۔آنے والے وقتوں  میں اخباروں کے روایتی قارئین  اور ریونیو ڈیجیٹل صورت سے ہی آئیں گے۔ ایسے میں پرنٹ میڈیا کو نئے ضابطوں  سے باہر رکھنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔

پبلشر کو سنے بنا کسی نیوز مواد کو ہٹائے جانے کے اختیارسے تمام  میڈیا ادارےمتاثر ہوں گے۔ کسی بھی بڑی جمہوریت  میں عدلیہ کے پاس نیوز میڈیا موادکوریگولیٹ  کرنے کی اتنی طاقت  نہیں ہے۔ سب سے اچھا، وہ  سلیف ریگولیشن کی پیروی  کرتے ہیں، جہاں عدلیہ  ایک مناسب دوری پر ہے۔

اگر وزیر اعظم  مودی چاہتے ہیں کہ ہندوستان  کاجمہوری  وقاراور نہ گرے، تو انہیں سرکار کے اس فیصلے کو واپس لینا ہوگا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)