خبریں

مظفرنگر فسادات: عدالت نے سنگیت سوم کے خلاف ایس آئی ٹی کی ’کلوزر رپورٹ‘ منظور کی

اتر پردیش کے سردھنا سے بی جے پی ایم ایل اے سنگیت سوم پر سال 2013 میں مظفرنگر میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے پہلے سوشل میڈیا پر بھڑکاؤ ویڈیو اپ لوڈ کرنے کا معاملہ درج کیا گیاتھا۔ ایس آئی ٹی نے خصوصی عدالت میں کلوزر رپورٹ داخل کر کےکہا کہ سوم کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔

بی جے پی ایم ایل اے سنگیت سوم۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

بی جے پی ایم ایل اے سنگیت سوم۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ایک خصوصی عدالت نے سال2013 میں فرقہ وارانہ فسادات کے پہلے سوشل میڈیا پر بھڑکاؤ ویڈیو اپ لوڈ کرنے کے معاملے میں میرٹھ کے سردھنا سے بی جے پی ایم ایل اے سنگیت سوم کے خلاف اتر پردیش پولیس کی اسپیشل جانچ ٹیم(ایس آئی ٹی)کی‘کلوزر رپورٹ’منظور کرلی ہے۔

خصوصی جج رام سدھ سنگھ نے سوموار کو جاری آرڈر میں ایس آئی ٹی کی‘کلوزر رپورٹ’کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ معاملے میں شکایت گزار انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کی موت ہو گئی اور کلوزر رپورٹ کے خلاف کوئی اعتراض  داخل نہیں کیا گیا۔

جب شکایت درج کرائی گئی تھی، تب سبودھ کمار سنگھ مظفرنگر کی کوتوالی پولیس اسٹیشن میں سب انسپکٹر تھے۔حالانکہ، بلندشہر ضلع کے سیانا کوتوالی میں تین دسمبر، 2018 کو مبینہ گئوکشی کو لےکر تشددہوا تھا۔ اس دوران سیانا تھانے کے انچارج انسپکٹر سبودھ کمار کا قتل کر دیا گیا تھا۔

وہیں تشدد کے دوران گولی لگنے سے 20 سالہ سمت کی موت ہو گئی تھی۔ تشدد کے معاملے میں پولیس نے مقتول سمت کو بھی ملزم بنایا تھا۔استغاثہ کے مطابق، ایس آئی ٹی نے عدالت میں ایک کلوزر رپورٹ داخل کر کےکہا کہ سردھنا کے ایم ایل اے سوم کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔

استغاثہ نے کہا کہ جانچ کے دوران ایس آئی ٹی نے سی بی آئی کے ذریعے امریکہ میں فیس بک صدر دفتر سے سوشل میڈیا پر بھڑکاؤ ویڈیو اپ لوڈ کرنے والے لوگوں کی تفصیلات مانگی تھی۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جانچ کے دوران پولیس نے پایا تھا کہ کمار اور سوم نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے مبینہ طور پر فرینڈلسٹ سمیت تمام  جانکاریاں ہٹا دی تھیں۔

اس کے ساتھ ہی جن 229 لوگوں نے ویڈیو کو لائیک کیا تھا انہوں نے بھی اپنے اکاؤنٹ سے اپنی تمام  جانکاریاں ہٹا دی تھیں۔ اس کے بعد سی بی آئی کی مدد سے پولیس نے کیلی فورنیا واقع فیس بک ہیڈکوارٹر سے رابطہ کیا تھا اور جانکاری مانگی تھی۔ حالانکہ معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے اسے خاطر خواہ  جانکاری نہیں مل پائی تھی۔

اس کے بعد سے فیس بک نے کوئی جانکاری دستیاب نہیں کرائی اور پولیس نے کوئی ثبوت نہ ہونے کی بات کہتے ہوئے کلوزر رپورٹ داخل کر دی۔پولیس نے آئی پی سی  کی دفعہ420 (جعلسازی)، 153 اے (گروپوں کے بیچ رنجش پھیلانے)  اور 120 بی (مجرمانہ سازش) اور آئی ٹی ایکٹ  کی دفعہ 66 کے تحت سوم اور تقریباً 200 دیگر لوگوں کے خلاف فیس بک پر اپ لوڈ ویڈیو کو لائیک کرنے کے لیے دو ستمبر 2013 کو معاملہ درج کیا تھا۔

ملزمین پر دونوجوانوں  کےقتل سےمتعلق  ویڈیو کو نشر کرنے کا الزام  لگایا گیا جس کی وجہ سے ضلع میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیداہوئی ۔چھان بین کے دوران پایا گیا کہ ویڈیو پرانا تھا اور یہ افغانستان یا پاکستان کا تھا۔بتا دیں کہ 27 اگست 2013 کے دن کوال گاؤں میں دونوجوانوں  کے قتل  کو لےکر کارروائی کے لیے نگلا منڈور گاؤں کے ایک انٹر کالج میں سات ستمبر 2013 کو جاٹ کمیونٹی  کے لوگوں نے مہاپنچایت بلائی تھی۔

معلوم ہو کہ اس سے پہلے ہوئے ایک مسلم نوجوان شاہنواز قریشی کے قتل  کے بعد مسلمانوں کی  بھیڑ نے سچن اور گورو نام کے نوجوانوں  کوقتل  کر دیا تھا۔مہاپنچایت سے لوٹ رہے لوگوں پر حملے کے بعدتشدد بھڑک گیا تھااور مظفرنگر کے نزدیکی ضلعوں میں بھی تشدد برپا ہوا تھا۔ اس دوران 65 لوگوں کی موت ہو گئی اور لگ بھگ 40000 لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑی تھی۔

اس کیس میں کل 510 مجرمانہ  معاملے دائر کیے گئے اور 175 معاملے میں چارج شیٹ دائر کی گئی۔ باقی کے کیس میں یا تو پولیس نے کلوزر رپورٹ سونپ دی یا کیس بند کر دیا۔مہاپنچایت سے جڑے معاملے کو شکھیڑا پولیس اسٹیشن کے اس وقت کے ایس ایچ او چرن سنگھ یادو کی طرف سے سات ستمبر 2013 کو دائر کیا گیا تھا۔

سنگیت سوم، سریش رانا، کپل دیو، سادھوی پراچی اور سابق ایم پی ہریندر سنگھ ملک سمیت 40 لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا گیا اورہیٹ اسپیچ جیسے کئی الزام  لگائے گئے۔

ملزمین کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ188 (مہلک ہتھیار سے لیس ہوکر غیرقانونی طور پر جمع ہونا)، 353 (سرکاری ملازم کو ڈرانے کے لیے حملہ)، 153اے (مذہب کی بنیاد پردشمنی کو بڑھاوا دینا)، 341 (غلط رکاوٹ پیدا کرنا)، 435 (نقصان پہنچانے کے ارادے سے آگ یا دھماکہ خیز اشیاکا استعمال) کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔

ریاستی  حکومت کی ایس آئی ٹی نے 14 ملزمین کے خلاف چارج شیٹ دائر کی تھی، جس میں سنگیت سوم، سریش رانا، کپل دیو، سادھوی پراچی اور ہریندر سنگھ ملک شامل تھے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)