خبریں

دہلی ہائی کورٹ نے پولیس کو جبراً بیاہی گئی ہم جنس پرست خاتون کو تحفظ دینے کو کہا

خاتون کا الزام ہے کہ ان کی شادی سال 2019 میں جبراً کرائی گئی تھی۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ میکہ  والوں کی طرف سے اس کے جنسی رجحان  کا علاج کرانے کے لیے دباؤ بنایا جا رہا ہے ۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے بدھ کو دہلی پولیس کو ہدایت  دی کہ خود کو ہم جنس پرست بتانے والی اس خاتون کو تحفظ فراہم  کیا جائے، جس کو ازدواجی زندگی بسر کرنے کو مجبور کیا گیا اور جنسی جبلت  سے آزادکرانے کی دھمکی دی گئی۔

جسٹس مکتا گپتا نے کہا کہ اگر خاتون چاہتی ہے تو اسے کسی دوسرے مقام  پر جاکر رہنے کی آزادی ہے۔عدالت نے پولیس سے خاتون کو نئی جگہ پر تحفظ فراہم  کرنے کے لیےتمام  ضروری قدم اٹھانے کو بھی کہا ہے۔عرضی میں کہا گیا کہ 23سالہ خاتون کی شادی اکتوبر 2019 میں جبراً کرائی گئی تھی، جبکہ اس کے والدین  کو اس کے جنسی رجحان (جنسی جبلت )کے بارے میں پتہ تھا۔

عرضی  میں کہا گیا کہ خاتون نے کئی بار رشتہ  توڑنے کی کوشش کی تھی اور شادی کے فوراً بعد اپنے شوہر کو اپنی ہم جنسی کے بارے میں بتا دیا تھا۔خاتون نے کہا کہ اس نے طلاق لینے کی خواہش ظاہر کر تھی، کیونکہ اس شادی کا ان کے ذہنی  اورجسمانی صحت  پربرا اثر پڑ رہا تھا، لیکن ان کےشوہر نے اپنے والدین  سے کافی وقت تک اس بات کو چھپائے رکھا۔

خاتون کا کہنا ہے کہ سات مارچ 2021 کو ان کی ماں نے انہیں فون کرکے بتایا کہ انہوں نے ایک مذہبی گروسے رابطہ  کیا ہے، جو اس کے جنسی رجحان  کا علاج کرےگا۔سلامتی کےخوف سے خاتون نے اپنا میکہ چھوڑنے کافیصلہ کیا تاکہ ان کے گھر والے ان پر غیرانسانی  رسم پورا کرنے کا دباؤ نہ ڈال سکیں۔ اس کے بعد انہوں نے این جی او ایکٹ ناؤ فار ہارمنی اینڈ ڈیموکریسی(انہد)سےرابطہ  کیا۔ خاتون فی الحال وہیں رہ رہی ہے۔

اس کے بعد خاتون نے عدالت سے فوراًیہ یقینی نے کی مانگ کی کہ انہیں اپنے گھر والوں  سےتحفظ فراہم کی جائے۔خاتون نے عدالت میں عرضی  داخل کر آئین  کے آرٹیکل 14 کے تحت برابری  کے حق  کے ساتھ ہی آرٹیکل 21 کے تحت پرائیویسی کا حق ، خودمختاری ،وقار اور آزادی کے حق  کے تحفظ کی مانگ کی ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)