خبریں

وارانسی: گیان واپی مسجد ہٹانے کے مطالبے پر عدالت نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کیا

دس لوگوں کے ایک گروپ نے وارانسی کے گیان واپی مسجد کی جگہ پر ایک مندر کی تزئین و آرائش کا مطالبہ کیا ہے اور الزام  لگایا ہے کہ 1699 میں اورنگ زیب کے حکم پر مندر کومنہدم  کر دیا گیا تھا۔

وارانسی واقع گیان واپی مسجد۔ (فوٹو: ڈا۔ اے پی سنگھ/فائل)

وارانسی واقع گیان واپی مسجد۔ (فوٹو: ڈا۔ اے پی سنگھ/فائل)

نئی دہلی: وارانسی کی ایک ضلع  عدالت نے شہر کے گیان واپی مسجد کی جگہ  پر ایک مندر کی‘تزئین و آرائش’ کا مطالبہ کرنے والے ایک معاملے میں نوٹس جاری کی ہے۔بار اینڈ بنچ کی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ مقدمہ دیوتاؤں شیو، ماں شرنگار گوری اور گنیش کی جانب سے سے دائر کیا گیا تھا۔

سب رنگ کی رپورٹ کے مطابق، یہ مقدمہ دس لوگوں کی جانب سے دائر کیا گیا ہے، جو خود کے دیوتاؤں کا دوست ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں، جو کہ مسجد احاطہ میں موجود ہیں اور جن میں شیو کے علاوہ ماں شرنگار گوری اور بھگوان گنیش شامل ہیں۔

مقدمہ دائر کرنے والوں نے الزام  لگایا ہے کہ 1699 میں اورنگ زیب کے حکم پر مندر کومنہدم  کر دیا گیا تھا۔

عدالت نے مرکز، اتر پردیش سرکار، وارانسی کے ضلع مجسٹریٹ، وارانسی کےایس ایس پی، مسجد کی انتظامیہ ،ملحق  کاشی وشوناتھ مندر کے ٹرسٹی بورڈ اور مسجد کے مینجمنٹ انجمن انتظامیہ اور اتر پردیش مسلم پرسنل لا بورڈ سے جواب مانگا ہے۔

سب رنگ کی رپورٹ کے مطابق، یہ مقدمہ گیان واپی مسجد حلقہ میں ایک قدیم  مندر کے مین  آسن پر رسومات  کے انعقادکی بحالی کی مانگ کرتا ہے۔یہ مقدمہ مبینہ طور پر آئین  کے آرٹیکل 25 کا حوالہ دیتا ہے جو شعور کی طرف  مذہب کو بنارکاوٹ  ماننے، عمل  اور تبلیغ  کرنے کی آزادی  دیتا ہے۔

اس سلسلے میں مسجد کورکاوٹ  بتاتے گئے کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 13(1) کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ یہ رکاوٹ  اب مورتی پوجا کو روکنے کے لیے موجود نہیں ہے۔ دراصل، آرٹیکل 13(1) کے تحت آئین کے نفاذسے پہلے کےتمام  قوانین کو غیرقانونی  قرار دیا جاتا ہے۔

بتا دیں کہ ہندوستان  میں رائٹ ونگ تنظیموں  کی طویل عرصےسے مسجدوں کو ہٹانے کی مانگ رہی ہے اور اس کو لےکر ایک نعرہ بھی چلایا جاتا رہا ہے، جو اس طرح سے ہے، ‘ایودھیا بابری صرف جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے۔’

سال 1992 میں ایودھیا واقع بابری مسجد کو کارسیوکوں نے منہدم کردیا تھا۔ 2019 اور 2020 کے فیصلے میں سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے متنازعہ  زمین مندر ٹرسٹ کو سونپ دی اور ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نےتمام  32 ملزمین کو بری کر دیا۔

اس کے بعد سال 2020 میں ایک گروپ  نے متھرا سول کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ 1669-70 کے دوران مغل بادشاد اورنگ زیب کی حکومت میں بنی متھرا کی عیدگاہ مسجد کرشن کی جائے پیدائش ہے۔ گیان واپی مسجد کی عرضی  کی طرح عرضی  میں تجاوزات اور اسٹرکچر کو ہٹانے کا مطالبہ  کیا گیا تھا۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)