خبریں

میرے کام کو عدالت نے نہیں، ٹی آر پی چاہنے والوں نے قصوروار ٹھہرایا: دشا روی

ٹول کٹ معاملے میں گرفتار ہوئی ماحولیاتی کارکن دشا روی نے رہائی کے بعد پہلی بار جاری بیان میں کہا کہ خیالات  مرتے نہیں ہیں۔ اور سچ کتنا ہی وقت کیوں نہ لگے سامنے آ ہی جاتا ہے۔

23 فروری کو شنوائی کے بعد پٹیالہ ہاؤس عدالت میں دشا روی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

23 فروری کو شنوائی کے بعد پٹیالہ ہاؤس عدالت میں دشا روی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:فروری مہینے میں دس دن کی گرفتاری کے بعد رہا ہوئی ماحولیاتی کارکن دشا روی نے رہا ہونے کے بعد پہلی بار حراست میں گزرے وقت ، میڈیا کے ذریعے  بنائی گئی ان کی امیج  اور اب تک وسائل  کے فقدان  میں جیلوں میں بند دیگر کارکنوں کے بارے میں بات کی ہے۔

اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں دشا نے سوال کیا کہ اس کرۂ ارض پر جینے کے بارے میں سوچنا کب جرم  بن گیا؟معلوم ہو کہ دشا کو کسانوں کے احتجاج  سے متعلق ‘ٹول کٹ’سوشل میڈیا پر ساجھا کرنے میں مبینہ  طور پر شامل ہونے کے لیے فروری کے دوسرے ہفتے میں گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔

انہیں ضمانت دیتے ہوئے دہلی کی ایک عدالت نے کہا کہ معاملے کی ادھوری اور غیر واضح  جانچ کو دیکھتے ہوئے کوئی ٹھوس وجہ  نہیں ہے کہ بنا کسی مجرمانہ  ریکارڈ کی کسی 22 سالہ لڑکی کے لیے ضمانت کے ضابطہ کو توڑا جائے۔

بنگلورو  کی رہنے والی دشا نے اپنے بیان میں کہا، ‘ جیل میں بند رہنے کے دوران میں سوچ رہی تھی کہ اس کرۂ ارض پرزندگی  کے سب سے بنیادی عناصر کے بارے میں سوچنا کب گناہ ہو گیا، جو جتنا ان کا ہے اتنا میرا بھی ہے۔’

روی نے کہا کہ سوچ رہی ہوں کہ کچھ سو کی لالچ کا خمیازہ  لاکھوں لوگوں کو کیوں ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ روی نے کہا کہ ‘اگر ہم نے بے انتہا کھپت اور لالچ کو روکنے کے لیےوقت پر کارروائی نہیں کی’ تو انسانیت  اپنے انجام   کے قریب پہنچ جائےگی۔


View this post on Instagram

A post shared by Disha 𓆉 (@disharavii)

انہوں نے دعویٰ کیا کہ گرفتاری کے دوران ان کی خودمختاریت  کی خلاف ورزی  کی گئی  تھی۔ انہوں نے کہا، ‘میرے کاموں کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا – قانون کی عدالت میں نہیں، بلکہ ٹی آر پی چاہنے والوں کے ذریعے۔’روی نے ان کی حمایت  میں باہر نکلے لوگوں ان کے معاملے میں‘پروبونو’پیروی(یعنی کسی پیشہ ور کی جانب سے مفت میں یا کم فیس پر عدالت میں پیروی کرنا)کرنے والوں کے تئیں ممنونیت کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا، ‘میں خوش قسمت تھی کہ مجھے بہت عمدہ‘پرو بونو’قانونی مددملی، لیکن ان سب کا کیاجنہیں یہ نہیں ملتی؟ ان سب کا کیا جو ابھی بھی جیل میں ہیں؟انہوں نے کہا کہ چاہے جتنا بھی وقت لگے لیکن سچائی سامنے آتی ہے۔ انہوں نے چھتیس گڑھ کے بستر حلقہ کی کارکن سونی سوری کے حوالے سے کہا، ‘ہمیں ہر دن دھمکی دی جاتی ہے، ہماری آوازیں کچل دی جاتی ہیں؛ لیکن ہم لڑتے رہیں گے۔’

دشا روی کے مکمل بیان کو یہاں  پڑھ سکتے ہیں۔

یہ سب جو سچ ہے، سچ سے کتنا دور لگ رہا ہے۔ دہلی کا بدنام اسماگ، سائبر پولیس تھانہ؛ دین دیال اپادھیائے اسپتال، پٹیالہ ہاؤس عدالت اور تہاڑ جیل۔ اتنے سالوں میں جب بھی کسی نے مجھ سے پوچھا  کہ میں پانچ سالوں میں اپنے آپ کو کہاں دیکھتی ہوں، میں نے کبھی نہیں کہا کہ جیل، لیکن میں یہاں تھی۔

میں اپنے آپ سے سوال کرتی رہی کہ کسی ایک خاص وقت  میں ہونا کیسا لگتا ہوگا،لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ میں نے اپنے آپ کو یہ ماننے کے لیے مجبور کیا کہ میں اس وقت کو تب ہی کاٹ سکتی ہوں اگر میں سوچوں کہ یہ سب میرے ساتھ نہیں ہو رہا ہے پولیس نے 13 فروری 2021 کو میرا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا؛ انہوں نے میرا فون اور لیپ ٹاپ ضبط نہیں کیا؛ مجھے پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں پیش نہیں کیا گیا؛ میڈیا کے لوگ میرے کمرے میں جگہ بنانے کی کوشش نہیں کر رہے۔ عدالت میں کھڑی جب میں بدحواسی کے عالم میں اپنے وکیلوں کو تلاش کر رہی تھی، مجھے سمجھ میں آیا کہ مجھے ہی اپنادفاع کرنا ہوگا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ میرے لیے کوئی قانونی مدددستیاب بھی ہے یا نہیں، تو جب جج نے مجھے سوال کیا اپنے من میں جو تھا، اس کو کہنے کے بارے  سوچی۔ اس سے پہلے مجھے کچھ سمجھ آتا، مجھے پانچ دن کی پولیس حراست میں بھیج دیا گیا۔

یہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں میری خودمختاریت کو کچلا گیا؛ میری تصویریں خبروں میں تھیں؛ میرے کاموں کو غلط ٹھہرایا گیا قانون کی عدالت نے نہیں، بلکہ ٹی وی پر ٹی آر پی چاہنے والوں نے۔ میں وہاں میرے بارے میں ان کی رائے سے پیدا ہوئے تمام جھوٹوں سے انجان تھی۔

پانچ دن کی حراست ختم ہونے کے بعد (19 فروری کو) مجھے تین دن کی عدالتی حراست میں بھیجا گیا۔ تہاڑ میں میں نے ایک دن کے ہر گھنٹے کے ہر منٹ اور سیکنڈ کو محسوس کیا۔ اپنی کوٹھری میں بند میں سوچتی تھی کہ کیا یہ کرۂارض ، جو جتنا میرا ہے اتنا ان کا بھی ہے، کہ زندگی کے بنیادی عناصر کے بارے میں سوچنا کب سے جرم ہو گیا۔ کچھ سو کے لالچ کا خمیازہ جا لاکھوں لوگوں کو کیوں بھرنا پڑ رہا ہے؟ ان لاکھوں لوگوں کی زندگی  میں ان کی دلچسپی اس بات پر منحصر کرتی ہے کہ انہیں فائدہ ہو رہا ہے یا نہیں، اور یہاں تک کہ ان کی اس دلچسپی کی مدت  بھی بہت کم ہے۔ بدقسمتی سے انسانیت کی بھی، اگر ہم نے اس کبھی نہ ختم ہونے والے کھپت اور لالچ کو وقت پر نہیں روکا۔ ہم دھیرے دھیرے اپنے انجام  کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

حراست کے دوران میں نے یہ بھی جانا کہ زیادہ تر لوگ کلائمیٹ ایکٹوازم یا کلائمیٹ جسٹس کے بارے میں یا تو بہت کم یا کچھ بھی نہیں جانتے ہیں۔ میرے دادادادی کسان تھے، نے بالواسطہ طور پر میرے کلائمیٹ ایکٹوازم کو جنم دے دیا تھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ کیسے انہیں آبی بحران  نے متاثر کیا، لیکن میرا کام صرف پودے لگانے  اور صفائی کے کاموں  تک ہی محدود کر دیا گیا، جو ضروری تو ہیں، لیکن جینے کی جدوجہد  جتنی نہیں۔

کلائمیٹ جسٹس سب کی حصے داری کے بارے میں ہے۔ یہ لوگوں کے تمام گروپوں کی بنیادی طور پر شمولیت کے بارے میں ہےتاکہ سب کو صاف ہوا، کھانا اور پانی دستیاب  ہو۔ ایک دوست کے مطابق، کلائمیٹ جسٹس امیروں اورگورے لوگوں کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ان سب کی لڑائی ہے جو نقل مکانی کا شکار ہوئے؛ جن کی ندیاں زہریلی کر دی گئیں؛ جن کی زمینیں لے لی گئیں؛ وہ جو ہر سال اپنے گھروں کو بہتا ہوا دیکھتے ہیں، اور وہ جو بنیادی انسانی حقوق  کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہم ان لوگوں کے ساتھ فعال طریقے سے لڑتے ہیں، جنہیں عوام نے چپ کر دیا اور ‘بے آواز’ کے طور پر دکھایا کیونکہ اشرافیہ  کے لیے انہیں بے آواز کہہ دینا آسان ہے۔

لوگوں سے ملی محبت نے مجھے طاقت دی ہے۔ وہ سب جو میرے ساتھ کھڑے رہے میں ان کی شکرگزار ہوں۔ بیتے کچھ دن تکلیف دہ  رہے، لیکن میں جانتی ہوں کہ میں پرویلیجڈ لوگوں میں سے ایک ہوں۔ میں خوش قسمت تھی کہ مجھے عمدہ ‘پرو بونو’قانونی مدد ملی، لیکن ان سب کا کیاجنہیں یہ نہیں ملتی؟ ان سب کا کیا جو اب بھی جیل میں ہیں؟ ان لوگوں کا کیا جو حاشیے پر ہیں جو آپ کے وقت کے قابل نہیں ہیں۔ ان کا کیا جو دنیا کی سب سے بڑی غیر برابری جھیل رہے ہیں۔ حالانکہ وہ ہم سب کی خاموشی کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں، لیکن ان کے خیالات  رہیں گے، اسی طرح لوگوں کا مشترکہ احتجاج ۔ خیالات مرتے نہیں ہیں۔ اور سچ، کتنا ہی وقت  کیوں نہ لگے، سامنے آ ہی جاتا ہے۔

ہمیں ہر دن دھمکی دی جاتی ہے، ہماری آوازیں کچل دی جاتی ہیں؛ لیکن ہم لڑتے رہیں گے۔ سونی سوری

کلائمیٹ جسٹس کے لیے لڑتی رہوں گی۔