خبریں

سپریم کورٹ نے تین کروڑ راشن کارڈ رد کر نے کو بے حدسنگین معاملہ بتایا، مرکز اور ریاستوں  سے مانگا جواب

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ اس کومتضاد معاملے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیےکیونکہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ ہم اس پر شنوائی کریں گے۔ مرکز اور ریاستوں  کو نوٹس جاری کیے جائیں جن پر چار ہفتے میں جواب دیا جائے۔

Photo: PTI-Reuters

Photo: PTI-Reuters

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو آدھار کارڈ سے جڑے نہیں ہونے کی وجہ سےتقریباً تین کروڑ راشن کارڈ رد کیے جانے کو ‘بے حد سنگین’ معاملہ بتایا اور اس معاملے پر مرکز اور ریاستوں سے جواب مانگا ہے۔چیف جسٹس ایس اے بوبڈے ، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس ویرام سبرامنیم کی بنچ نے کہا کہ اسے متضاد معاملے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ یہ بہت سنگین  معاملہ ہے۔

بنچ نے کہا کہ یہ معاملہ آخری شنوائی میں رکھا جائےگا۔شنوائی کی شروعات میں عرضی گزار کویلی دیوی کی جانب سے پیش ہوئے سینئر وکیل کالن گونجالوس نے کہا کہ عرضی  ایک بڑے معاملے کو اٹھاتی ہے۔سی جےآئی نے کہا ،‘بامبے ہائی کورٹ میں بھی میرے سامنے اسی طرح  کا معاملہ آیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ معاملہ متعلقہ  ہائی کورٹ میں دائر کیا جانا چاہیے تھا۔’

بنچ نے وکیل سے کہا کہ انہوں نے معاملے کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔گونجالوس نے دلیل دی کہ یہ ایک اہم  معاملہ ہے، کیونکہ مرکز نے تقریباً تین کروڑ راشن کارڈ رد کر دیے ہیں۔بنچ نے کہا کہ وہ کسی اور دن معاملے کی شنوائی کرےگی، کیونکہ گونجالوس نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت نے راشن کارڈ رد کر دیے ہیں۔

ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل امن لیکھی نے کہا کہ گونجالوس نے یہ غلط بیان دیا کہ مرکز نے راشن کارڈ رد کر دیے ہیں۔بنچ نے کہا، ‘ہم آپ سے (مرکز سے)آدھار کارڈ معاملے کی وجہ سے جواب مانگ رہے ہیں۔ یہ متضاد مقدمہ نہیں ہے۔ ہم آخرکاراس پر شنوائی کریں گے۔ نوٹس جاری کیے جائیں، جن پر چار ہفتے میں جواب دیا جائے۔’

لیکھی نے کہا کہ اس معاملے میں نوٹس پہلے ہی جاری کی جا چکی ہیں اور مرکز کا جواب ریکارڈ میں ہے۔گونجالوس نے کہا کہ نوٹس بنیادی عرضی پر نہیں، بلکہ متبادل شکایت کے حل پر جاری کی گئی تھی۔انہوں نے کہا، ‘بنیادی معاملہ تین کروڑ راشن کارڈ رد کیا جانا اور بھوک سے موت ہونا ہے۔’

عدالت نے نو دسمبر، 2019 کو قانونی آدھار کارڈ نہیں ہونے پر راشن سے محروم  کیے جانے کی وجہ سے لوگوں کی موت ہونے کے الزام  کو لےکرتمام ریاستوں سے جواب مانگا تھا۔

خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق بنچ نے کہا تھا، فوڈ سکیورٹی ایکٹ 2013 کی دفعہ 14، 15 اور 16 میں شامل شکایتوں کے ازالے کے طریقہ کار کے نفاذ کے لیے انہوں نے جو قدم اٹھائے ہیں، ان پر ردعمل  دینے والی ریاستوں کو چار ہفتے میں جواب دینےلائق نوٹس جاری کریں۔ ریاست کے مستقل  وکیل کو نوٹس دیا جا سکتا ہے۔’

اس سے پہلے مرکز نے کہا تھا کہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ موتیں بھوک سے نہیں ہوئی تھیں۔مرکزنے کہا تھا، ‘قانونی  آدھار کارڈ کی کمی کی وجہ سے کسی کو بھی کھانے  سے محروم  نہیں کیا گیا تھا۔’یہ پی آئی ایل  دیوی نے دائر کی ہے، جس کی جھارکھنڈ میں 11 سال کی بیٹی سنتوشی کی مبینہ  طور پر بھوکے رہنے کی وجہ سے 28 ستمبر 2018 کو موت ہو گئی تھی۔ سنتوشی کی بہن گڑیا دیوی بھی معاملے میں عرضی گزار ہیں۔

عرضی  میں کہا گیا ہے کہ مقامی حکام  نے ان کا راشن کارڈ، آدھار کارڈ سے جڑے نہیں ہونے کی وجہ سے رد کر دیا تھا، جس کی وجہ سے ان کو مارچ 2007 سے راشن ملنا بند ہو گیا تھا اور پورے پریوار کو بھوکے رہنے پر مجبور ہونا پڑا تھا اور ان کی بیٹی سنتوشی کی مبینہ طور پر کھانا نہیں مل پانےکی وجہ سے موت ہو گئی۔

عرضی میں یہ بھی کہا گیا کہ یہاں تک کہ سنتوشی کی موت کے دن بھی اس کی ماں چائے کے ساتھ صرف نمک دے سکی تھیں جو کہ رسوئی میں موجود تھا۔ اس کے بعد اسی رات سنتوشی کی موت ہو گئی۔

 (خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)