خبریں

سی اے اے پر ہمنتا بسوا شرما نے خاموشی توڑی، کہا-آسام میں قانون کے نفاذ کے لیےبی جے پی پر عزم

شہریت قانون کی مخالفت کا مرکز رہےآسام میں27 مارچ سے تین مرحلوں  میں انتخابات ہیں اور سی اے اےمخالف مظاہروں  سےابھرنےوالی جماعتوں  کے ساتھ اپوزیشن پارٹیوں  کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر ریاست میں سی اے اے کو نافذنہیں ہونے دیں گے۔

آسام کے وزیر ہمنتا بسوا شرما (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/@himantabiswasarma)

آسام کے وزیر ہمنتا بسوا شرما (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/@himantabiswasarma)

نئی دہلی:آسام میں شہریت قانون (سی اے اے)پر بی جے پی کی طرف سےخاموشی توڑتے ہوئے بدھ کوآسام سرکار میں وزیر ہمنتا بسوا شرما نے کہا کہ ان کی پارٹی سی اے اے کے نفاذ کے لیے پرعزم ہے۔بتا دیں کہ آسام سی اے اےکی مخالفت کا مرکز تھا اور پارلیامنٹ سے اس قانون کے پاس ہونے کے بعدآسام کے ساتھ ملک بھر میں بڑی تعداد میں مظاہرے ہوئے تھے۔

مختلف نیوز چینلوں کو دیے انٹرویو میں شرما نے دعویٰ کیا کہ کووڈ 19کی وجہ سےآسام میں سی اے اے کا مدعا پیچھے چلا گیا۔بتا دیں کہ آسام کی 126رکنی اسمبلی سیٹوں کے لیے تین مرحلوں  میں میں 27 مارچ، ایک اپریل اور چھ اپریل کو ووٹنگ  ہوگی۔

شرما نے این ڈی ٹی وی سے کہا کہ بی جے پی سی اے اے کے لیے پرعزم ہے، حالانکہ یہ آسام میں انتخابی مدعا نہیں ہے۔انہوں نے کہا، ‘لیکن کووڈ کے بعد لوگ کچھ بھی ایسا نہیں سننا چاہتے ہیں جس سے سڑک پر تحریک  واپس شروع ہو جائے، چاہے حمایت میں یامخالفت میں۔ سی اے اے کو لےکر لوگوں کے ذہن میں کوئی شک  نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بحث ہے۔’

وہیں انہوں نے انڈین ایکسپریس سے کہا کہ لوگ اب تحریک کو جھیلنے کی حالت  میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے کووڈ 19کے دوران بہت کچھ برداشت کیا ہے۔دکن ہیرالڈ کو دیے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ انہیں آسام سمجھوتے اور سی اے اے میں کوئی تضادنہیں دکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ہی ایک دوسرے سے آزادعمل ہیں۔

سی اے اے کی تعریف بیان کرتے ہوئے انہوں نے اسے ایسا قانون بتایا جو اصل لوگوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے بنگالی ہندوؤں کی مثال دی جو آج کے بنگلہ دیش میں اپنی جڑیں  پاتے ہیں۔اس سے پہلےآسام کے وزیر اعلیٰ سربانند سونووال نے بھی کہا تھا کہ اس انتخاب  میں سی اے اے کوئی مدعا نہیں بنےگا۔

غورطلب ہے کہ سی اے اے کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ایسے ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی اور عیسائی کمیونٹی  کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینا ہے، جو ان ممالک  میں مذہبی طور پر ہراسانی کی وجہ سے31 دسمبر 2014 تک ہندوستان  آ گئے تھے۔

معلوم ہو کہ گزشتہ سال 11 دسمبر کو پارلیامنٹ  سے شہریت قانون پاس ہونے کے بعد سے ملک بھر میں احتجاج  ہوئے تھے۔ گزشتہ 12 دسمبر کو صدر کی منظوری ملنے کے ساتھ ہی یہ ایکٹ  اب قانون بن گیا ہے۔اس کے بعد آسام کے ساتھ ہی ملک بھر میں شدید احتجاج  ہوا تھا اور اسی سلسلے میں دہلی میں دنگے بھی بھڑک گئے تھے۔

آسام میں احتجاج  کرنے والوں میں طلبا، کسانوں،شہری سماج سمیت مختلف  طبقے کی تنظیمیں  شامل رہے ہیں اور یہ احتجاج اتنا تیز تھا کہ لوگ راتوں کو مشعلیں لےکر نکلتے تھے اور اس دوران پولیس کی  کارروائی میں کم سے کم پانچ لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔

ایسا مانا جا رہا ہے کہ یہ ریاست میں ہوئی این آرسی کی حتمی فہرست  میں شامل نہیں کیے گئے 19 لاکھ سے زیادہ  لوگوں میں سے غیر ہندوؤں کو ریاست کی شہریت  دینے کا بی جے پی کا راستہ بن سکتا ہے۔سی اے اے مخالف تحریکوں  سے نکلیں دو پارٹیاں رایجور دل (آرڈی)اور آسام جاتیہ پریشد(اے جی پی) ہیں، جواتحاد میں اسمبلی انتخابات لڑ رہی ہیں۔

رایجور دل کی قیادت کسان مکتی سنگرام سمیتی(کے ایم ایس ایس)کے رہنما اکھل گگوئی کر رہے ہیں، جنہیں پچھلے سال احتجاج  کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا۔این آئی اےنے ان پر سیڈیشن  کا الزام  لگایا ہے۔ان پارٹیوں کا ذکر کرتے ہوئے ہمنتا شرما نے کہا کہ یہ پارٹیاں بہت سارے وعدے کرتے ہوئے سامنے آئی تھیں لیکن اب ان کا اثر نہیں بچا ہے۔

بتا دیں کہ شرما بی جے پی کے ان رہنماؤں میں شامل رہے ہیں جنہوں نے این آرسی کی حتمی فہرست کوناقص بتاتے ہوئے اس کو خارج کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ لوگوں کی امیدوں کو پورا کرنے میں ناکام  رہا ہے۔اسے اس طرح سے دیکھا گیا کہ بی جے پی بہت سے ہندو بنگالیوں کو حتمی فہرست میں شامل کیے جانے سے ناراض تھی جو کہ اس کا روایتی  ووٹ بینک ہے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)