خبریں

سی اے اے مذہبی بنیاد پر لوگوں میں امتیاز کرتا ہے، یہ غیرآئینی ہے: سابق سپریم کورٹ جج

سپریم کورٹ کے سابق  جج جسٹس وی گوپال گوڑا نے ایک پروگرام  میں کہا کہ اس وقت ہندوستانی شہری  شدید بحران  سے گزر رہے ہیں اور قانون کی حکومت کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ شہریت  کا مسئلہ خوفناک ہو گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس گوپال گوڑا۔ (فوٹو: Youtube/Precision Pro Events)

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس گوپال گوڑا۔ (فوٹو: Youtube/Precision Pro Events)

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے سابق  جج جسٹس وی گوپال گوڑا نے سپریم کورٹ  کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر قانون نہیں بنائے جا سکتے ہیں، اس لیے متنازعہ شہریت قانون(سی اے اے)غیر آئینی  ہے۔

لائیولاء کے مطابق انہوں نے کہا، ‘سال 1994 میں ایس آر بومئی معاملے میں سپریم کورٹ کی آئینی بنچ  کی جانب سے دیے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیامنٹ یا ریاستی قانون ساز اسمبلی  مذہب کی بنیاد پر کوئی قانون نہیں بنا سکتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ چونکہ سی اے اے مذہب کی بنیاد پر لوگوں میں امتیاز کرتا ہے، اس لیے بومئی کے مطابق یہ غیر آئینی  ہے۔’

جسٹس گوپال گوڑا ورسینئروکیل کے ایس چوہان کی کتاب ‘سٹزن شپ، رائٹس اینڈ کانسٹی ٹیوشنل لمٹیشنس’ [Citizenship, Rights and Constitutional Limitations] کے اجراکے موقع پر بول رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت  ہندوستانی شہری شدیدبحران  سے گزر رہے ہیں اور قانون کی حکومت  کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔شہریت  کامسئلہ خوفناک ہو گیا ہے۔

سابق سپریم کورٹ جج نے اپنے خطاب کے دوران آسام  میں این آرسی اپ ڈیٹ کرنے کو لےکر بھی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کئی لوگ جو شہری  ہیں، وہ  اپنی شہریت  ثابت کرنے میں معذور ہیں کیونکہ ان کے پاس ایسا کرنے کے لیے کاغذات کی کمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے چیئرمین کےطور پر انہوں نے آسام کا دورہ کیا تھا اور پایا کہ لاکھوں کی تعدادمیں لوگ دہائیوں پہلے ریاست میں آئے تھے، لیکن آج وہ  اپنی شہریت ثابت نہیں کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا، ‘ایک ایساملک جہاں 50 فیصدی سے زیادہ کی آبادی ناخواندہ  ہے اور کوئی ریکارڈ نہیں رکھتی ہے، ایسے میں سرکار ان سے شہریت  ثابت کرنے کے لیے کہہ رہی ہے، اور وہ بھی کئی دہائیوں بعد۔’

معلوم ہو کہ آسام این آرسی کی فائنل لسٹ میں سے قریب 19 لاکھ لوگوں کو باہر کر دیا گیا ہے۔جسٹس گوڑا نے کہا، ‘ہندوستان  کی آزادی کے 70 سالوں بعد آپ قانون میں ترمیم  کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہراسانی کی وجہ سے دیگر ممالک  سے آئے لوگوں کوشہری  مانا جائےگا، جبکہ ہندی نژاد کے لوگوں، جو سری لنکا میں رہ رہے ہیں، یہاں رہ رہے ہیں، انہیں کوئی شہریت  نہیں دی جائےگی۔’

سپریم کورٹ کے سابق  جج نے کہا کہ این آرسی کی وجہ سے صرف ایک مذہب کے لوگوں کو پریشانی نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘چاہے کسان، خاتون  یا ملک کے کسی بھی حصہ کا کوئی طبقہ ہو،اگر کسی کو شہریت  ثابت کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو، یہ انسانی حقوق کی شدیدخلاف ورزی ہے۔’

جسٹس گوڑا نے ہندوستانی آئین  کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کس طرح انہوں نے مذہب کی بنیاد پر شہریت  دینے کی بات کو سرے سے خارج کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ شہریت  میں کسی بھی طرح کی کمزوری جمہوریت  کو خراب کرتی ہے۔