الیکشن نامہ

تمل ناڈو اسمبلی انتخاب: رائے دہندگان کے لیے سوغاتوں کے صندوق، مگر انتخابی جائزے کچھ اور اشارہ کرتے ہیں

اس صوبہ میں مسلمانوں کی آبادی محض5.56فیصد ہے اور ہندوؤں میں بھی نچلی ذات کا تناسب زیادہ ہے، اسی لیے یہ شاید واحد خطہ ہے، جہاں ہندو قوم پرستوں کو مسلم مخالف یا پاکستان کارڈ کھیلنا نہیں پڑتا ہے۔

 اے آئی اے ڈی ایم کے امیدوار عوام کا کپڑا دھوتے ہوئے، ان کی پارٹی نے واشنگ مشین کا بھی وعدہ کیا ہے، فوٹو اے این آئی

اے آئی اے ڈی ایم کے امیدوار عوام کا کپڑا دھوتے ہوئے، ان کی پارٹی نے واشنگ مشین کا بھی وعدہ کیا ہے، فوٹو اے این آئی

ہندوستان  کے جنوبی صوبہ تمل ناڈو کی صوبائی اسمبلی کے لیےانتخابی مہم کو دیکھ کر دنیا کا ہر ووٹر ایک سرد آہ بھر کر بس یہی شکوہ کرےگا کہ کاش وہ بھی اسی صوبہ میں پیدا ہوکر وہاں کا ووٹر ہوتا۔ ویسے تو اس وقت تمل ناڈو کے علاوہ کیرالا، مغربی بنگال، آسام اور مرکزی انتظام والے علاقہ پڈوچیری میں بھی اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں، مگر جس طرح ووٹروں کو لبھانے کے لیے نوازشوں کی بارش تمل ناڈو میں ہو رہی ہے، و ہ بے نظیر ہے۔

تمل ناڈو کی حکمراں  جماعت آل انڈیا انًا دراوڑ منترا کھزگم  یعنی اے آئی اے ڈی ایم کے، جو مرکز میں بر سر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اتحادی ہے، پہلی بار انتخابات اپنے لیڈر اور کرشمائی شخصیت جے للتا کی غیر موجودگی میں لڑ رہی ہے۔ ان کا چار سال قبل انتقال ہوگیا تھا۔ اسی طرح ان کی حریف دراوڑ منترا کھزگم یعنی ڈی ایم کے، بھی اپنے لیڈر ایم کروناندھی کے بغیر میدان میں ہے۔ وہ بھی 2018میں چل بسے۔

وزیر اعلیٰ کے پلانی سوامی کی قیادت میں حکمراں  اے آئی اے ڈی ایم کے، نے گھریلو خواتین کو مفت واشنگ مشین فراہم کرنے، کسانوں کے 120 بلین روپے کے قرضے اور تعلیمی قرضے معاف کرنے، اور رکشہ چلانے والوں کو گرین آٹو دینے کے وعدے کیے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے 2.7ملین طلبہ کو بغیر امتحان دیے اگلے درجہ میں پرموٹ کرنے کا حکم جاری کردیا۔اسی طرح طالب علموں کو لبھانے کے لیے4جی کی رفتار سے دو جی بی انٹرنیٹ بھی مفت فراہم کروایا گیا۔

غرض چنئی میں جاری کیے گئے اس منشور میں سوغاتیں ہی سوغاتیں ہیں۔مگر اس کے باوجود ابھی تک کے انتخابی جائزوں کے مطابق حکمراں اتحاد بری طرح شکست سے دوچار ہو رہا ہے۔ اس صوبے کی سیاست کا سری لنکا کے تامل مسئلہ سے بھی براہ راست تعلق ہے۔ سری لنکا کی تامل اقلیت دراصل تمل ناڈو سے ہی ترک سکونت کرکے وہاں آباد ہوئی تھی۔چونکہ اس صوبہ میں مسلمانوں کی آبادی محض5.56فیصد ہے اور ہندوؤں میں بھی نچلی ذات کا تناسب زیادہ ہے، اسی لیے یہ شاید واحد خطہ ہے، جہاں ہندو قوم پرستوں کو ووٹروں کو لام بند کرنے کے لیے مسلم مخالف یا پاکستان کارڈ کھیلنا نہیں پڑتا ہے۔

آزادی سے قبل اس خطہ میں ای وی راما سوامی پیریار نے ہندو اعلیٰ ذاتوں خصوصاً برہمنوں کے خلاف مہم چلا کر اس صوبہ کی دراوڑ آبادی کو یکجا کرکے خود مختاری کا مطالبہ کیا۔ دراوڑوں کا دعوی ٰ ہے کہ وہ ہی ہندوستان کے اصل باشندے ہیں، جنہیں باہر سے آئے آریہ فرقہ نے ظلم و ستم اور جنگ و جدل کے ذریعے جنوب کی طرف دھکیلا۔

ان کی علالت کے بعد ان کے شاگرد سی نٹراجن اناً درائی نے دراوڑ تحریک کی کمان سنبھالی، جنہوں نے کشمیر کے شیخ عبداللہ کی طرز پر تمل خود مختاری کے مطالبہ سے دستبردار ہوکرحق خود اختیاری یعنی اٹانومی  کا نعر ہ دےکر 1967  میں پہلی بار انتخابات میں شرکت کرکے اپنی پارٹی دراوڈ کھزگم کو بھاری اکثریت دلاکر وزارت اعلیٰ کی کرسی سنبھالی۔

ان کی موت کے بعد دراوڈ کھزگم دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ ڈی ایم کے کی قیادت ایم کروناندھی نے سنبھالی اورانًا ڈی ایم کے کی کمان مشہور تمل فلم اسٹار ایم جی راماچندرن کے حصہ میں آئی۔ 1987 میں  رام چندرن یا ایم جی آر کی موت کے بعد فلمی دنیا میں ان کی ہم سفر اور محبوبہ جے  للتا نے ان کی اہلیہ جانکی راماچندرن کو خاصی طویل اور پیچیدہ جد وجہد کے بعد شکست دے کران کی میراث پر قبضہ کرکے پارٹی پر کنٹرول حاصل کرلیا۔ 68 سالہ جے للتا دسمبر 2016میں انتقال کر گئی۔

وہ ایک پر اسرار شخصیت تھی۔ ان تک رسائی حاصل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ وہ اپنی پارٹی کے لیڈروں سے بھی ایک طرح کی دوری بنائے رکھتی تھی، مگر ان کی کارکردگی پر ہمیشہ ان کی نظریں رہتیں۔1967 کے بعد سے یہ دو جماعتیں بار ی باری اقتدار کے مزے لوٹتی آئی ہیں۔

منموہن سنگھ کی سابق کانگریسی حکومت ڈی ایم کے،کی بیساکھیوں پر ٹکی تھی، اسی وجہ سے ان کو تمل پارٹیوں کے وزیروں کی بد عنوانیوں اور اسکینڈلز کو نظر اندازکرنا پڑا تھا۔ اسی طرح وزیر اعظم نریندر مودی بھی بھاری اکثریت ہونے کے باوجود انًا ڈی ایم کے کو خوش رکھنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔

  اگرچہ جے للتا ایک دراوڑ یعنی برہمن مخالف پارٹی کی سربراہ تھی، مگر وہ خود برہمن تھی۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ جب برہمن کسی تحریک کو دبا نہیں پاتا تو عمر بھر اس کی مخالفت کرنے کے بجائے اس کو اپناکر اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے۔ اس تھیوری کے ماننے والے ان تمل پارٹیوں کے اندر کرپشن، اقربا پروری اور بے انتہا دولت کے حصول کی تگ و دو کو اسی حکمت عملی کا حصہ بتاتے ہیں۔ 321 قبل مسیح میں نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے چندر گپت موریہ نے جب اقتدار سنبھالا تو پہلے تو برہمنوں نے اس کی مخالفت کی، مگر بعد میں ایسا اثر و رسوخ حاصل کیا کہ عملاً حکومت ایک برہمن کوٹلیہ یا چانکیہ کے سپرد ہوگئی۔

حقیقت یہ ہے کہ جے للتا نے جو اپنے پیش رووں کے برعکس ذاتی طور پر مذہبی خاتون تھی مرکز میں بی جے پی کے ساتھ سیاسی رشتوں کے باوجود اس نے صوبہ میں ہندو انتہاپسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کو پنپنے نہیں دیا۔

گو کہ کہ دونوں تمل پارٹیاں اپنے صوبہ کو حق خود اختیاری تو نہیں دلا سکی، مگر انہوں نے اس کو خوشحال بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ صوبہ کو وسائل مہیا کروانے کے لیے انہوں نے دہلی میں اپنے اثر و رسوخ کا بھر پور استعمال کیا۔ اقتصادی لحاظ سے تمل ناڈو  اس وقت ہندوستان  کے ترقی یافتہ صوبوں میں شامل ہے۔

زراعت میں خود کفالت کے علاوہ یہاں صنعتوں کا جال بچھا ہو اہے۔ بھارت کی دو ٹریلین ڈالر کی معیشت میں اس کا حصہ 210بلین ڈالر ہے۔ ہندوستان  میں جہاں اوسط فی کس آمدن 86ہزار سالانہ ہے، وہیں اس صوبہ میں یہ ایک لاکھ 28ہزار ہے۔مگر خوشحالی کے ساتھ ساتھ کرپشن میں بھی یہ صوبہ سرفہرست ہے۔

کانگر یس لیڈر غلام نبی آزاد، جو ایک وقت اس صوبہ کے انچارج تھے نے ایک بار مجھے بتایا کہ اس صوبہ میں انتخابات میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اور ووٹر بھی اس کو معیوب نہیں سمجھتے۔ دیگر صوبوں کے برعکس لیڈروں پر کرپشن کے الزامات بھی یہاں انتخابی موضوع نہیں بن پاتے ہیں۔ بس انتخابی مہم کے دوران ووٹر کا سر کڑھائی میں ہوتا ہے۔ جس سیاسی پارٹی سے جتنا بن پاتا ہے و ہ رقوم اور مراعات اکھٹی کرتا ہے، مگر ووٹ بعد میں اپنی صوابدید پر ہی دیتا ہے۔ ووٹروں کو پیسہ دینا ایک طرح سے اس صوبہ کی روایت بن چکی ہے۔

جے جیہ للتا کے انتقال کے بعد ان کی قریبی سہیلی وی کے ششی کلا کے بھتیجے  ٹی ٹی وی  دھیناکرن نے ان کی اسمبلی سیٹ  سے قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا، مگر ان کی پارٹی نے ا ن کے دعوے کا خارج کرتے ہوئے ایک دیگر لیڈر کو میدان میں اتارکر اس کو پارٹی کا آفیشل نشان دلایا۔ الیکشن کمیشن نے  دھینا کرن کو  آزاد امیدار کے بطور  پریشر کوکر چناوی نشان تفویض کیا۔

بس پھر کیا تھا انہوں نے پورے علاقہ میں پریشر کوکر بانٹنے شروع کیے۔ کئی علاقوں میں پریشر کوکروں میں پانچ تا دس ہزار تک کے کوپن  بھی تھے، جن کی ادائیگی امیدوار کی جیت کے ساتھ مشروط تھی۔چنانچہ دھینا کر ن نے پارٹی کے آفیشل امیدوار کو چاروں شانے چت کردیا۔دھینا کرن نے اب علیحدہ پارٹی اما مکھل منترا کھزگم تشکیل دی ہے اور اس نے حیدر آباد کے ممبر پارلیامان اسد الدین اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ انتخابی مفاہمت کی ہے۔

جے للتا کے برعکس کروناندھی پیریا ر اور انًا درائی کی طرح آخری دم تک ہندو ازم خاص طور پر برہمن واد کے مخالفین میں سے  تھے۔ وہ کئی ناولوں، کہانیوں کے تخلیق کار کے علاوہ فلموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھتے تھے۔ ان کے مشہور ناول پاراسکتی برہمن واد  اور اس کے ذریعے جکڑے نظام پر ایک کاری وار ہے۔

وہ سری لنکا میں میں تامل علیحدگی کے حامی  بھی تھے۔ 1997میں ایک جوڈیشیل کمیشن نے ان پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے راجیو گاندھی کے قتل میں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) کے سربراہ پربھاکرن کی معاونت کی تھی۔ ان دونوں لیڈروں کی یکے بعد دیگر موت کے بعد صوبہ بھر میں خود سوزی کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔

دنیا شاید اس جذباتیت کو مضحکہ خیز یا حیرت انگیز محسوس کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ہندوستان  میں سیاست دانوں اورغریب و کمزور طبقہ کے درمیان رشتہ دوستی کا ہوتا ہے نہ کہ شمالی ہندوستان  کی طرح مفاد پرستی اور استحصال کا۔ شمالی ہندوستان  میں لوگوں کے دلوں میں سیاست دانوں کے خلاف ناپسندیدگی بلکہ بسا اوقات نفرت کے جذبات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔فی الحال کروناندھی کے صاحبزادے ایم کے اسٹالن نے ڈی ایم کے، کی کمان سنبھالی ہے، جنہوں نے کانگریس سے اتحادکیا ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق وہ اس صوبہ کے نئے وزیرا علیٰ ہونگے۔ اس بار کانگریس نے پچھلے بہار الیکشن کے برعکس سوجھ بوجھ کا مظاہر ہ کرتے ہوئے 234کل سیٹوں میں سے صرف 25پر امیدوار اتارے ہیں، بقیہ سیٹیں حلیف ڈی ایم کے، کے کھاتے میں آئی ہیں۔ اس کے جواب میں ڈی ایم کے نے کانگریس کو راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا کی دو سیٹیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری طرف اے آئی ڈی ایم کے کی قیادت میں اتحاد میں شامل بی جے پی 20نشستوں پر انتخاب لڑ رہی ہے۔