خبریں

یوجی سی نے تاریخ کے نصاب میں ہندو اسطوری قصوں اور مذہبی لٹریچر کو شامل کیا، تعلیم  کے بھگواکرن کا الزام

یوجی سی کی جانب سے بی اے کی تاریخ کےنصاب کے لیے تیارکیےگئے ڈرافٹ میں معروف  مؤرخین،مثلاً قدیم ہندوستان  پر آر ایس شرما اورقرون وسطیٰ کے ہندوستان  پر عرفان حبیب کی کتا بیں ہٹا دی گئی  ہیں ۔ ان کی جگہ ‘سنگھ اور اقتدار’کے قریبی سمجھے جانے والے مصنفین  کو شامل کیا گیا ہے۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: یوجی سی نے بی اے کے لیےتاریخ کے نصاب کا ڈرافٹ تیار کیا ہے، جس میں ہندو اسطوری قصوں  اورمذہبی  چیزوں کا زیادہ ذکر کیا گیا ہے اور مسلم حکمرانوں  کے اہم پہلوؤں کو غائب کر دیا گیا ہے۔اس کو لےکریوجی سی اور مودی سرکار کو تنقید کانشانہ بنایا جارہا ہے اور ان پرتعلیم  کے بھگواکرن کاالزام لگایا گیا ہے۔

دی  ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، معروف  مؤرخین،مثلاً قدیم ہندوستان  پر آر ایس شرما اورقرون وسطیٰ کے ہندوستان  پر عرفان حبیب کی کتابیں ہٹا دی گئی  ہیں ۔ ان کی جگہ ‘سنگھ اور اقتدار’کے قریبی سمجھے جانے والے مصنفین کی کتابوں کو شامل کرنے کی بات کہی گئی ہے۔

یوجی سی کے ڈرافٹ کے مطابق یہ دستاویز صرف ‘رہنما اصول’کے طور پر تیار کیے گئے  ہیں اور کہا ہے کہ ‘ہندوستانی تاریخ کے شاندار ماضی  اور اس کے وسیع منظرنامے کے ساتھ ہر چھوٹے بڑے پہلو پر زیادہ  توجہ دی جائےگی۔’

خاص بات یہ ہے کہ قبل میں یوجی سی صرف جنرل گائیڈ لائن جاری کیا کرتی تھی، لیکن یہ پہلا موقع ہے جب کمیشن  نے پورا نصاب ہی تیار کر دیا ہے۔ماضی  میں کمیشن نےمشورہ دیا تھا کہ یونیورسٹیوں کو پہلے کے نصاب میں 20-30 فیصدی ہی تبدیلی  کرنے کی اجازت ہے۔

رپورٹ کے مطابق تاریخ (آنرس)کے پہلے پیپر کو ‘آئیڈیا آف بھارت’کانام دیا گیا ہے، جس میں‘بھارت ورش کے تصور’کے ساتھ ساتھ وید، ویدانگ، اپنشد، مہاکاویہ، جین اور بودھ لٹریچر، اسمرتی، پران وغیرہ  پڑھانے کی تجویز ہے۔

دہلی یونیورسٹی  کے شیام لال کالج میں تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر جیتندر مینا نے کہا کہ نئے نصاب میں مذہبی لٹریچر  کی عظمت کو بیان  کیا گیا ہے اور قدیم سیکولر لٹریچر مثلاًچانکیہ  کا ارتھ شاستر، کالیداس کی نظمیں  اور چرک سنہتا کی  آیورویدک تحقیق کو ہٹا دیا گیا ہے۔

یوجی سی ویب سائٹ پر دستیاب  بی اے آنرس (تاریخ) کا پہلا پیپر۔

یوجی سی ویب سائٹ پر دستیاب  بی اے آنرس (تاریخ) کا پہلا پیپر۔

اس کے علاوہ تیسرے پیپر میں‘سندھو سرسوتی تہذیب ’ کے نام سے ایک باب ہے، جس میں سندھو، سرسوتی تہذیب اور ویدک تہذیب  کے رشتوں  پر بحث ہے۔

معلوم ہو کہ رگ وید میں سرسوتی ندی کا ذکر ایک صدی  سے بھی زیادہ  سے علمی تحقیق کا حصہ رہا ہے۔مرکز نے اس ندی کےدوباہ  احیا کے لیے ایک پروجیکٹ بھی بنایا ہے۔ حالانکہ اس کولےکر شبہ  ہے کہ کیا یہ واقعی وہی سرسوتی ندی ہے جس کا ذکر رگ وید میں ہوا ہے۔

مینا نے کہا، ‘سرسوتی تہذیب ، جس کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے جیسا کوئی بھی لفظ  اس سے پہلے نہیں تھا۔’تاریخ کے ساتویں پیپر میں‘ہندوستان  پر بابر کے حملے’کو لےکر ایک باب  شامل کیا گیا ہے، جبکہ دہلی یونیورسٹی  کا موجودہ نصاب  اس کو حملہ نہیں مانتا ہے، بلکہ ہندوستان  میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کو حملہ  مانا گیا ہے۔

اس بار کے پیپر میں قرون وسطیٰ  میں ہندو اور مسلم سماج کو لےکر دو الگ الگ باب  بنایا گیا ہے۔حالانکہ جانکاروں کا ماننا ہے ہے کہ ایسا یہ دکھانے کے لیے کیا گیا ہے کہ کس طرح اس وقت  مسلمان اور ہندو الگ تھلگ تھے جبکہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ہمیشہ سے یہی پڑھایا جاتا رہا ہے کہ کس طرح قرون وسطیٰ کی تاریخ میں ہندو اور مسلمان ساتھ رہ رہے تھے۔

اس کے ساتھ ہی 13ویں سے 18ویں صدی کے درمیان  کی مسلم تاریخ کو بھی درکنار کر دیا گیا ہے۔

اس بارے میں ڈی یو میں سیاسیات  پڑھانے والے آر ایس ایس مفکر پرکاش سنگھ نے کہا، ‘پہلے مغل تاریخ نے ہی سارا جگہ گھیر لیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کو درکنار کیا جا رہا ہے، بلکہ اس میں کچھ اصلاحات  کیے گئے ہیں۔ پہلے جنوبی  ہندوستان  اور دیگر حصوں  کے راجاؤں کو لےکر کم مواد تھا۔ اب انہیں بھی جگہ دی جا رہی ہے۔’

یوجی سی کے ڈرافٹ میں مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، ولبھ بھائی پٹیل اور بھیم راؤ امبیڈکر جیسے رہنماؤں پر بھی کم توجہ  دی گئی ہےاور 20ویں صدی کے اوائل  میں فرقہ واریت  کے موضوع کو زیادہ اہمیت  نہیں دی گئی ہے۔ دلت سیاست بھی نئے نصاب سے غائب ہے۔