خبریں

ملزم پولیس والوں کو بری کر نے پرعشرت جہاں کی ماں نے کہا-شروع سے ایک طرفہ تھی شنوائی

سال 2004 میں 19سالہ عشرت جہاں کی احمدآباد کے باہری علاقے میں ہوئے ایک انکاؤنٹر میں موت ہو گئی تھی۔ انکاؤنٹر کو جانچ میں فرضی پایا گیا تھا اور سی بی آئی نے سات پولیس اہلکاروں کو ملزم بتایا تھا۔ ان میں سے تین کو بدھ کو الزام سے بری  کر دیا گیا۔ اس سے پہلے تین دیگرملزم افسر بری کیے جا چکے ہیں، جبکہ ایک کی گزشتہ سال موت ہو گئی تھی۔

عشرت جہاں (بائیں)اور ان کی ماں شمیم کوثر۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ اور فائل)

عشرت جہاں (بائیں)اور ان کی ماں شمیم کوثر۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ اور فائل)

نئی دہلی: سی بی آئی کی ایک اسپیشل عدالت کے ذریعے2004 کے مبینہ عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر معاملے میں باقی کے تین ملزم پولیس اہلکاروں کو بری کرنے کے بعد عشرت کی ماں نے کہا کہ انہیں اس کی امید تھی۔عشرت جہاں کی ماں شمیم کوثر نے کہا، ایسا پچھلے 17 سالوں سے ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، بدھ کی صبح فیصلہ آنے کے بعد ممبئی کے نزدیک ممبرا کے مسلم اکثریتی راشد کمپاؤنڈ میں واقع عشرت کے گھر پر پولیس سکیورٹی مہیا کرائی گئی تھی۔ حالانکہ فیملی  نے اسے واپس لینے کی گزارش کی۔عشرت جہاں کی ماں شمیم کہتی ہیں کہ شروع سے ہی شنوائی ایک طرفہ تھی۔

انہوں نے کہا، ‘جب اسپیشل جانچ ٹیم  نے یہ کہتے ہوئے اپنی رپورٹ درج کی کہ انکاؤنٹر فرضی تھا، تب مجھے امید تھی لیکن جیسے جیسے معاملہ آگے بڑھا، مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا گیا۔’انہوں نے آگے کہا، ‘ہمیں انصاف  نہیں ملا ہے اور قاتلوں کو بری  کیا جا رہا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ان کے لوگ، ان کا قانون اور ان کا فیصلہ ہے۔ اور کیا امید کی جا سکتی ہے؟’

شمیم کو لگتا ہے کہ انکاؤنٹر کا پس منظر تیار کیا گیا تھا تاکہ اس کو ایک حقیقی  واقعہ  کہا جا سکے۔

جیسا کہ دی  وائر نے اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے، ‘ایک فرضی انکاؤنٹر غیرقانونی ہے، چاہے وہ کسی کے خلاف کیا جائے اور پولیس اہلکاروں  کے خلاف قتل  کا الزام  متاثرین  کی پہچان پرمنحصر نہیں ہے مطلب  وہ  دہشت گرد ہیں یا نہیں۔’

شمیم نے کہا، ‘انہوں نے کہا کہ وہ ایک دہشت گرد تھی اور اب وہ  کہتے ہیں کہ انکاؤنٹر حقیقی  تھا۔ لیکن پھر، ایس آئی ٹی نے پہلے کیوں کہا کہ انکاؤنٹر فرجی تھا؟واضح طور پرایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جانے والا قتل تھا نہ کہ انکاؤنٹر ۔ جب سرکار اس رپورٹ کو خارج کر سکتی ہے تو یہ صاف  ہو گیا کہ ایک دن ملزم آزاد ہو جائیں گے۔’

سال 2019 میں شمیم نے احمدآباد کی اسپیشل سی بی آئی عدالت میں ایک حلف نامہ دائر کرکے کہا تھا کہ وہ لڑائی کو جاری رکھتے ہوئے بہت تھک گئی ہیں اور عدالت کی کارر وائی سے خود کو دور کر رہی ہیں۔شمیم کو لگتا ہے کہ وہ ایک بار پھر سے لڑائی جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘فی الحال ان سب سے میں بہت ہی پریشان ہوں لیکن میں یہ ذمہ داری پھر سنبھالوں گی۔ میں اپنے وکیلوں سے صلاح لوں گی اور جو ضروری ہوگا کروں گی۔ ہمیں ابھی بھی کوئی انصاف  نہیں ملا ہے۔ میں یہ سب کچھ یہیں چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتی ہوں۔’

قابل ذکرہے کہ 15 جون 2004 کو ممبئی کے نزدیک ممبرا کی رہنے والی 19سالہ عشرت جہاں احمدآباد کے باہری علاقے میں گجرات پولیس کے ساتھ ہوئے انکاؤنٹر میں ماری گئی تھیں۔ اس انکاؤنٹر میں جاوید شیخ عرف پرنیش پلئی، امجد علی رانا اور ذیشان جوہر بھی مارے گئے تھے۔

عشرت جہاں ممبئی کے قریب ممبرا کے ایک کالج میں پڑھائی کر رہی تھیں۔ڈی جی ونجارا کی قیادت میں کرائم برانچ کے احمدآباد سٹی ڈٹیکشن ٹیم نے اس انکاؤنٹر کو انجام دیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ چاروں لشکر طیبہ کے دہشت گرد تھے جو گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ  نریندر مودی کے قتل  کے لیے آئے تھے۔

حالانکہ ہائی کورٹ کے ذریعےبنائی گئی اسپیشل  جانچ ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ انکاؤنٹر فرضی تھا، جس کے بعد سی بی آئی نے کئی پولیس اہلکاروں  کے خلاف معاملہ درج کیا تھا۔سال2007 میں داخل اپنی چارج شیٹ میں سی بی آئی نے سات پولیس اہلکاروں  پی پی پانڈے، ڈی جی ونجارا، این کے امین، جی جی پر مار، جی ایل سنگھل، ترون بروت اور اناجو چودھری کو ملزم بنایا تھا۔ تمام ملزموں کے خلاف قتل ، اغوا اور ثبوت مٹانے سے متعلق دفعات میں کیس درج کیا گیا تھا۔

گزشتہ  بدھ کو سی بی آئی کی اسپیشل عدالت نے عشرت جہاں مبینہ فرضی انکاؤنٹرمعاملے میں باقی بچے ملزم تین پولیس اہلکاروں  جی ایل سنگھل، ترون بروت (اب سبکدوش) اور اناجو چودھری کو بدھ کوالزام سے بری کر دیا۔اس سے پہلے معاملے کے تین دیگرملزم پولیس اہلکار پی پی پانڈے، ڈی جی ونجارا، این کے امین پہلے ہی بری  کیے جا چکے ہیں، جبکہ جی جی پر مار کی گزشتہ سال موت ہو گئی۔