خبریں

ہندوستان میں حکومت کے خلاف خبریں لکھنے والی صحافت کو دبایا جا رہا ہے: امریکی رپورٹ

امریکہ کی‘2020 کنٹری رپورٹس آن ہیومن رائٹس پریکٹسیس’ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے میڈیا کی آواز کو دبانے کے لیےقومی سلامتی ، ہتک عزت ،سیڈیشن اور  ہیٹ اسپیچ کے ساتھ ساتھ عدالت کی توہین جیسے قوانین کا سہارا لیا ہے۔

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: امریکہ کی ایک رپورٹ میں گزشتہ  منگل کو کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں انسانی حقوق  سے متعلق کئی اہم امور ہیں، جن میں غیر قانونی ہلاکتیں، اظہار رائے اور پریس کی آزادی پر پابندی،بدعنوانی اورمذہبی آزادی  کی خلاف ورزی  کی رواداری  شامل ہے۔

امریکہ کی‘2020 کنٹری رپورٹس آن ہیومن رائٹس پریکٹسیس’ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں سرکار کو لےکرتنقیدی  خبریں لکھنے والی میڈیا پر سرکار یا اس کےنمائندوں کی طرف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے یاہراساں  کیا جا رہا ہے۔

ہندوستان کے بارے میں لکھے گئے کل 68 صفحے کے باب میں کہا گیا ہے کہ غیرقانونی سرگرمیوں  کو روکنے کے لیے سرکار کی طرف سے کی جا رہی کوششوں کے باوجود اقتدارکی تمام سطحوں  پر سرکاری بدسلوکی  کو لےکر جوابدہی نہیں ہے۔

پریس فریڈم کو لےکر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عام طور پر ہندوستانی سرکار نے اس کی ضرورت کی حمایت کی ہے، لیکن ایسے کئی معاملے سامنے آئے ہیں، جہاں سرکار یا سرکار کےقریبی لوگوں نے آن لائن ٹرولنگ سمیت مختلف طریقوں سے تنقیدی  خبریں لکھنے والی میڈیا کو دبانے کی کوشش کی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ  نے میڈیا کی آواز کو دبانے کے لیے قومی سلامتی ،ہتک عزت ،سیڈیشن، ہیٹ اسپیچ قانون کے ساتھ ساتھ عدالت کی توہین  جیسے قوانین کا سہارا لیا ہے۔اس تناظرمیں امریکی رپورٹ میں دی  وائر کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جن کے خلاف اتر پردیش کی یوگی سرکار نے محض ایک ٹوئٹر پوسٹ کو لےکر کیس درج کرایا تھا۔

وردراجن نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ کو رونا لاک ڈاؤن کے دوران ہونے والے مذہبی تقریبات  کی حفاظت بھگوان کریں گے۔حالانکہ بعد میں وردراجن نے اس کو لےکروضاحت (کہ یوگی آدتیناتھ نے ایسا نہیں کہا تھا)جاری کی تھی، اس کے باوجود  ان کے خلاف آئی ٹی ایکٹ، آئی پی سی، ذیزاسٹر مینجمنٹ اور وبائی امراض سے متعلق  ایکٹ  کی مختلف دفعات  کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ایک گجراتی نیوز پورٹل ‘فیس آف دی  نیشن’ کے مدیر دھول پٹیل کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جنہوں نے ریاست میں بڑھتے کورونا وائرس معاملوں کی تنقیدکی وجہ سے گجرات میں قیادت کی تبدیلی کا مشورہ دینے والی ایک رپورٹ شائع  کی تھی اور اس کے لیے پچھلے سال 11 مئی کو ان کے خلاف سیڈیشن  کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں اسکرال ڈاٹ  ان  کی ایگزیکٹوایڈیٹرسپریا شرما کی بھی بات کی گئی ہے، جن کے خلاف وزیر اعظم  نریندر مودی کے پارلیامانی حلقہ  میں لاک ڈاؤن کی حالت  پر رپورٹ چھاپنے کے لیے کیس درج کیا گیا تھا۔

شرما کے خلاف ایس سی/ایس ٹی ایکٹ اور آئی پی سی کی دفعات میں معاملہ دائر کیا کیا گیا تھا۔ ویسے تو اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے صحافی  کو فوراً راحت دے دی تھی، لیکن معاملے میں جانچ کرنے کی بھی اجازت دی۔

اس کے علاوہ دہلی فسادات کو لےکر رپورٹنگ کر رہے کارواں میگزین  کے تین صحافیوں پر ہوئے حملے کی بھی تفصیلات  دی گئی  ہے کہ کس طرح سے پولیس نے اس معاملے میں ایف آئی آر بھی درج نہیں کی۔

امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی رپورٹ میں ہندوستان میں ایک درجن سے زیادہ انسانی حقوق  سے جڑے اہم امور درج کیے ہیں، جن میں پولیس کے ذریعے غیر عدالتی ہلاکتوں سمیت غیرقانونی قتل، کچھ پولیس اور جیل حکام کے ذریعےہراساں کیے جانے،بربریت ، غیرانسانی یاغیر مہذب سلوک  یا سزا کے معاملے، سرکاری افسروں  کے ذریعے من مانی گرفتاریاں اور کچھ ریاستوں  میں سیاسی  قیدی اہم ہیں۔

اس سے پہلے امریکی سرکار کی مالی اعانت سے چلنے والی  غیر سرکاری تنظیم  فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہندوستان میں شہری آزادیوں  میں مسلسل گراوٹ آئی ہے۔تنظیم  نے ہندوستان کے درجے کو گھٹاکر ‘جزوی طور پر آزاد’کے خانے میں ڈال دیا ہے۔

ہندوستان نےاس رپورٹ کو ‘گمراہ کن ، غلط اور نامناسب’ قرار دیا تھا۔