خبریں

یوپی: الہ آباد ہائی کورٹ نے این ایس اے کے غلط استعمال کا حوالہ دیتے ہو ئے 120 میں سے 94 احکامات کو رد کیا

پولیس اور عدالت کے ریکارڈزدکھاتے ہیں کہ این ایس اے لگانے کے معاملوں میں ایک ہی طرز کی پیروی کی جا رہی تھی، جس میں پولیس کی جانب سےالگ الگ ایف آئی آر میں اہم  جانکاریاں کٹ پیسٹ کرنا، مجسٹریٹ کے دستخط شدہ  ڈٹینشن آرڈر میں دماغ کا استعمال نہ کرنا، ملزم کو متعینہ ضابطہ مہیا کرانے سے انکار کرنا اور ضمانت سے روکنے کے لیے قانون کا لگاتار غلط استعمال شامل ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

الہ آباد ہائی کورٹ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش سرکار کے ذریعےقومی سلامتی ایکٹ(این ایس اے)کے استعمال پر سوال اٹھایا ہےجو ریاست کو باضابطہ  الزام یا شنوائی کے بغیرگرفتاری کا اختیار دیتا ہے۔انڈین ایکسپریس کی ایک تفتیش  کے مطابق، پولیس اور عدالت کے ریکارڈز دکھاتے ہیں کہ ایسے معاملوں میں ایک ہی طرز کی پیروی کی جا رہی تھی،جس میں پولیس کی جانب سےالگ الگ ایف آئی آر میں اہم  جانکاریاں کٹ پیسٹ کرنا، مجسٹریٹ کے دستخط شدہ  ڈٹینشن آرڈر میں دماغ کا استعمال نہ کرنا، ملزم کو متعینہ ضابطہ مہیا کرانے سے انکار کرنا اور ضمانت سے روکنے کے لیے قانون کا لگاتار غلط استعمال شامل ہے۔

جنوری 2018 اور دسمبر 2020 کے بیچ الہ آباد ہائی کورٹ نے این ایس اے کے تحت حراست کی روک تھام  کو چیلنج  دینے والی 120حبس بے جا(ہیبیس کارپس)کی عرضیوں میں فیصلہ سنایا۔قابل ذکر ہے کہ 94 معاملوں میں سے اس نے ضلع حکام  کے کم سے کم 32احکامات کو رد کر دیا اور حراست میں رکھے گئے لوگوں کو رہا کرنے کا حکم  دیا۔

ریکارڈزدکھاتے ہیں کہ این ایس اے لگانے کے معاملے میں گئو کشی کا معاملہ پہلے نمبر پر ہے، جس میں 41 معاملے درج کیے گئے جو کہ ہائی کورٹ میں پہنچنے والے معاملوں کا ایک تہائی تھا۔اس معاملے میں تمام ملزم اقلیتی کمیونٹی  کے تھے اور گئو کشی کا الزام  لگانے والی ایف آئی آر کی بنیاد پر ضلع حکام  نے انہیں حراست میں رکھا تھا۔

اس میں سے 30 معاملوں (70 فیصدی سےزیادہ )میں ہائی کورٹ نے اتر پردیش انتظامیہ کی سخت سرزنش کی اور این ایس اے آرڈر کو رد کرتے ہوئے عرضی گزارکی رہائی کا حکم دیا۔وہیں گئو کشی کے 11دیگر معاملوں میں، جہاں ایک معاملے کو چھوڑکر باقی میں حراست کو صحیح ٹھہرایا،ان میں نچلی عدالتوں اور ہائی کورٹ نے ملزم کو یہ واضح کرتے ہوئے ضمانت دی کہ عدالتی  حراست ضروری نہیں تھی۔

انڈین ایکسپریس کے تجزیے کے مطابق، گئو کشی  کے ہر معاملے میں ضلع حکام  نے این ایس اے لگانے کے لیے لگ بھگ ایک جیسی وجہ کا حوالہ دیا کہ ملزمین نے ضمانت کے لیے اپیل کی تھی اور ان کی رہائی ہو جاتی۔ اور اگر ملزم جیل سے باہر آ جاتے تو وہ دوبارہ ایسے معاملوں میں ملوث  ہو سکتے تھے، جس سے نظم ونسق  کو خطرہ پیدا ہو جاتا۔

انڈین ایکسپریس نے اتر پردیش کے چیف سکریٹری  آر کے تیواری کو ایک تفصیلی سوالنامہ  بھیج کر جواب مانگا لیکن انہوں نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔

رپورٹ کے مطابق، حراست کے 11 سے زیادہ  معاملوں عدالت نے کہا کہ آرڈر پاس کرتے وقت  ڈی ایم نےدماغ کا استعمال نہیں کیا۔ 13 معاملوں میں کورٹ نے کہا کہ این ایس اے کو چیلنج دینے کے دوران حراست میں رکھے گئے شخص کو مؤثرڈھنگ سے خود کی نمائندگی  کا موقع  نہیں دیا گیا۔

اس کے علاوہ کئی معاملوں میں عدالت نے پایا کہ یہ معاملے نظم ونسق  کے تحت آتے ہیں اور ان میں این ایس اے لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔