فکر و نظر

کیا چھتیس گڑھ کے حالیہ نکسلی حملے میں حکومت کے لیے کوئی پیغام تھا…

حقوق انسانی کے لئے سرگرم تنظیم  پی یو سی ایل کا کہنا ہے کہ جب تک سماجی عدم مساوات کا خاتمہ نہیں ہوگا نکسلی تحریک کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا رہے گا۔کیونکہ عدم تحفظ کا احساس ہی لوگوں کو بائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔

فوٹو بہ شکریہ: اے این آئی

فوٹو بہ شکریہ: اے این آئی

تقریباً آٹھ سال کی نسبتاً خاموشی کے بعد ہندوستان  کے وسطی صوبہ چھتیس گڑھ میں بائیں بازو کے ماؤ نواز انتہا پسندوں جنہیں عرف عام میں نکسلائٹ کہتے ہیں، نے گھات لگا کر ایک بڑا حملہ کرکے 22سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک اور 30 کو زخمی کرکے یہ واضح  پیغام دیا ہے کہ وہ جارحانہ سرگرمیاں جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس سال جنوری سے اب تک ایسےحملوں میں 40کے قریب سکیورٹی اہلکار اس علاقے میں مارے جا چکے ہیں۔ چونکہ یہ واقعات کشمیر سے دور اور کسی مسلم اکثریتی علاقوں کے برعکس قبائلی علاقوں میں پیش آرہے ہیں، اس لیے پاکستان کے ساتھ تار ملا کر جنگی جنون پیدا نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی میڈیا کو ان ہلاکتوں پر ہیجان برپا کرنے کی فرصت ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ قبائلی اکثریتی صوبہ چھتیس گڑھ کے سکما اور بیجا پور میں واقع سکیورٹی فورسز کے کیمپ میں کسی مخبر نے اطلاع دی تھی کہ  تارام کے جنگلوں میں نکسلائٹ لیڈر ہدما کی نقل وحرکت دیکھی گئی ہے۔ بس ان دونوں کیمپوں سے 2000کے قریب سکیورٹی اہلکار آپریشن کے لیےنکل پڑے۔

اب بتایا جا رہے ہے کہ مخبر کی یہ اطلاع دراصل ایک ٹریپ تھا اور اس جنگل میں نکسلائٹوں کی ایک بڑی تعداد گھات لگائے تاک میں تھی۔ نہ صرف انہوں نے ان دستوں کوہلاک کردیا، بلکہ ان کے ہتھیار، بلیٹ پروف جیکٹ، جوتے اور کپڑے تک لےجاکر لاشوں کو برہنہ چھوڑ دیا۔ 40سالہ ہدما  پیپلز لبریشن گوریلا آرمی کی بٹا لین نمبر ایک کا کمانڈر ہے اور پچھلے دس سالوں سے سکیورٹی فورسز کے راڈار پر ہے، اس کے سر پر حکومت نے 40لاکھ روپے کا انعام بھی رکھا ہے۔

بتایا جاتاہے کہ اس لالچ کی وجہ سے بھی مخبر کی اطلاع کی کراس چیکنگ کرنے کے بجائے عجلت میں اہلکاروں کو روانہ کیا گیا۔ ہدما ممنوعہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ)کی 21رکنی سینٹرل کمیٹی کا سب سے کم عمر رکن ہے۔ 2010 میں سکما علاقے میں اسی بٹا  لین نے گھات لگا کر حملہ کرتے ہوئے 76سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ 2013میں سکما ضلع کی ڈربھا وادی میں بائیں بازو کے مسلح دستوں نے کانگریس پارٹی کے قافلہ پر حملہ کرکے اس کی پوری ریاستی لیڈرشپ کو ختم کردیا تھا۔ ان میں چوٹی کے لیڈران ودیا چرن شکلا اور مہندر کرما شامل تھے۔

کرما نکسلائٹوں کے خلاف ایک پرائیوٹ آرمی”سلواجدوم“کے خالق تھے۔جس طرح 1990 کی دہائی میں کشمیر میں شورش سے نمٹنے کے لیے ہندوستانی سکیورٹی فورسز نے محمد یوسف عرف ککہ پرے کی قیادت میں اخوان المسلمون نامی پرائیویٹ آرمی کی حوصلہ افزائی کی، اسی طرح قبائلیوں کو نکسلی تحریک سے باز رکھنے اور ان علاقوں میں کان کنی میں مصروف کمپنیوں کی حفاظت کے لیے مرکزی اور چھتیس گڑھ حکومتوں نے سلواجدوم قائم کرنے میں مہندر کرما کی پشت پناہی کی۔

ریاست میں ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت کے قیام کے بعد بھی کرما پر نوازشوں کا سلسہ جاری رہا۔سکیورٹی افواج اور سلواجدوم نے قبائلی بستیوں میں دہشت کی جو فضا قائم کی تھی اس سے لگ رہا تھا کہ شاید یہ نکسلائٹ تحریک دم توڑ چکی ہے۔ 2000 سے 2020 کے درمیان نکسل حملوں میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 10773افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں تین ہزار کے قریب سکیورٹی کے اہلکار ہیں۔

پچھلے سال یعنی 2020میں 138پر تشدد واقعات میں 44سکیورٹی اہلکار اور 134سیویلین مارے گئے ہیں۔ 2010میں 76سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد حکومت نے اس علاقے میں فوج کو تعینات کرنے پر غور کرنا شروع کیا تھا۔ مگر اس کی سب سے زیادہ مخالفت فوج کی طرف سے ہی ہوئی۔

بتایا گیا کہ فوج تو سرحدوں کی حفاظت اور غیر ملکی دشمنوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے ہے، جبکہ نکسلی تو داخلی معاملہ ہے۔ خیر فوج نے بس اپنے انسٹرکٹرز بھیجنے پر آمادگی ظاہر کی تاکہ نیم فوجی دستوں سے وابستہ کمانڈو دستوں کی تربیت کی جاسکے۔

نکسلائٹ تحریک خود کو پسے ہوئے طبقے خاص طور پر قبائلی علاقوں کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں۔ چونکہ یہ تحریک 1967 کو     چارو ماجو مداراور کانو سینیال نے مغربی بنگال کی تحصیل نکسل باری سے شروع کی تھی، اس لیے اس کو عرف عام میں نکسل تحریک کہا جانے لگا۔

یہ دونوں لیڈران چین کے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ کے نظریے اور فلسفے سے انتہائی متاثر تھے۔ چارو ماجومدار نے اپنی تحریک کی نظریاتی پہچان کے لیے آٹھ تاریخی دستاویزات تحریر کی تھیں۔ جو آج بھی نکسلائٹ تحریک کے نظریاتی فلسفے اور منشور کی بنیاد ہیں۔ 1972 میں پولیس کی حراست میں چاروما جومدارکی موت کے بعد 1980 کی دہائی تک نکسلائٹ باغیوں کے لگ بھگ 30 گروپ بن گئے تھے۔ تاہم یہ تعداد اب کم ہو چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ہندوستان  کے 640 ضلعوں میں سے 160 میں کسی نہ کسی شکل میں نکسلائٹ تحریک موجود ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ نکسل تنظیموں کے تانے بانے پڑوسی ریاست نیپال کی زیر زمین تنظیموں سے بھی ملے ہوئے ہیں اور یہ ایک Compact Revolutionary Zone قائم کرنا چاہتے ہیں جس کا دائرہ نیپال سے شروع ہوکر جنوبی ہندوستان کے آندھرا پردیش تک پھیلا ہوگا۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

 دراصل ایک ارب سے زائد کی آبادی والے ملک میں جمہوریت کی”برکات“صرف چند مخصوص طبقات تک محدود ہونے کے باعث بیشتر عوام آئینی اور بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ عوام کا بڑا طبقہ زمین اور آمدنی کی غیر متناسب تقسیم‘ذات پات پر مبنی تشدد‘ بھوک مری‘ چھوت چھات‘ غربت اور افلاس سے دوچار ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں طاقت کے زور پر اپنا حق حاصل کرنے کے نکسلی  فلسفے کو معاونت ملتی ہے۔

اس صورت حال سے ملٹی نیشنل کمپنیاں زبردست خطرہ محسوس کررہی ہیں، کیونکہ نکسلی اثر و رسوخ ان علاقوں میں زیادہ جڑ پکڑ چکا ہے، جہاں معدنیات، پن بجلی اور دیگر قدرتی وسائل کا زبردست ذخیرہ ہے۔

حقوق انسانی کے لئے سرگرم تنظیم پیپلز یونین فار سول لبرٹیز(پی یو سی ایل)کا تاہم کہنا ہے کہ جب تک سماجی عدم مساوات کا خاتمہ نہیں ہوگا نکسلی تحریک کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا رہے گا۔کیونکہ عدم تحفظ کا احساس ہی لوگوں کو بائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔

پولیس کے ایک سابق اعلیٰ افسر ایس سبرامنیم کا بھی خیال ہے کہ اس مسئلہ کو  سماجی اور اقتصادی عدم مساوات کو ختم کرکے ہی حل کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ دیہاتوں میں غریب عوام کو پولیس کی زیادتیوں سے بھی بچانے کی ضرورت ہے۔

کیونکہ جب سکیورٹی کے دستے ان علاقوں میں غریب قبائلیوں کو نشانہ بناتے ہیں توحکومت، اپوزیشن اور قومی میڈیا چپ سادھ لیتے ہیں جس سے مقامی آبادی میں عدم تحفظ کا احساس شدت اختیار کر جاتا ہے۔دوسری  طرف ہندوستان میں بسنے والے 12 کروڑ  سے زائد قبائلی اپنے تشخص کے حوالے سے بھی فکر مند ہیں۔

  حال ہی میں قبائلی اکثریتی صوبہ جھاڑکھنڈ کی اسمبلی نے متفقہ طور پر قرارداد پاس کر کے مطالبہ کیا ہے اس سال ہونے والی مردم شماری میں قبائلیوں کا جداگانہ تشخص تسلیم کرکے ان کو ہندو کے بجائے ”سرنا”مذہب کے پیرو کے طور پر درج کیا جائے۔

جنوبی ہندوستان میں بھی سات کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل لنگایت فرقہ بھی کافی عرصہ سے ایسا ہی مطالبہ کرتا آ رہا ہے کہ وہ ہندو نہیں ہیں۔ آزادی سے قبل برطانوی دور حکومت میں ان دونوں فرقوں کی جداگانہ مذہبی حیثیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔نکسلی تنظیموں کو اس لیے بھی قبائلیوں میں پذیرائی ملتی ہے کیونکہ وہ ان کی علیحدہ  شناخت کوتسلیم کرتی ہیں۔

جبکہ حکومت اور ہندو تنظیمیں ان کی شناخت ہندو ازم میں ضم کرنے کے درپے ہیں۔ علاوہ ازیں ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں قبائلیوں کو زبردستی ہندو بنانے کی بھی کوشش کر رہی ہیں۔ان قبائلیوں کو عرف عام میں آدی واسی یا اصلی باشندے کہا جاتا ہے، جن کی بود و باش زیادہ تر جنگلاتی علاقوں میں ہے۔